بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

سین خے

محفلین
باقی باتوں سے متفق ہوں۔ البتہ اس بات سے نہیں۔ تین طلاق دینے والے مرد کو بھی ہمارے معاشرے میں انتہائی نِیچ سمجھا جاتا ہے اور اچھے رشتوں کے دروازے تو اس پر بند ہی سمجھو۔

:) چلیں نیچ سمجھ لیا جاتا ہوگا پر ایک بات ہے بھائی زیادہ تر مرد کو ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عورت نے ہی کچھ کیا ہوگا جو وہ اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ عورت نے قربانی نہیں دی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

ایک بات اور بھی ہے بھائی جو کہ ہم سب یہاں بھول رہے ہیں کہ ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب اسے طلاق ہو جاتی ہوگی؟

اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ شوہر نے چھوڑ دیا ہے تو بعد میں پتا نہیں بچوں کا خرچہ دے گا یا نہیں۔ اوربہت سارے مرد کورٹ کے فیصلے کے باوجود خرچا نہیں دیتے۔ اسے یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو دوسرا مرد اس کے بچوں کے ساتھ ناجانے کیسا سلوک کرے گا؟ ماں باپ تو اچھا سلوک کر لیتے ہیں پر بہن بھائی کتنا بہن کو سپورٹ کر لیں گے اور وہ خود کتنا کما لے گی؟؟؟ اور ہم سب یہ جانتے ہیں ایک اکیلی عورت کے لئے ہمارے معاشرے میں بے انتہا کم موقع میسر آتے ہیں بلکہ اس کو مشکلات سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔جن کے ماں باپ کی طلاق ہو گئی ہو ان بچوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

اس معاملے کا بہرحال حل نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ میں کوئی عالمہ نہیں ہوں کہ کوئی رائے دے سکوں لیکن جہاں تک میری عقل کام کر رہی ہے تو ایسا کچھ کرنے کی تو میرے خیال سے گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ کوئی علماء کا بورڈ ہو جس میں خواتین بھی شامل ہوں۔ مردوں کو پابند کیا جائے کہ تین طلاق دینے سے پہلے آکر وجوہات بیان کریں کہ کیوں دینا چاہتے ہیں۔ کچھ کاوَنسلنگ وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔ گنجائش نکالنے کی کوشش کی جائے گی تو نکلے گی نا۔ جب ہم کچھ کریں گے ہی نہیں تو دوسرے لوگ کرنے لگ جائیں گے۔ یہ دنیا ہے جہاں سب چلتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں رکتا۔
 

محمدظہیر

محفلین
میں نے کبھی نہیں سنا آس پاس اور دوردراز میں جاننے والوں میں سے کسی کے یہاں تین طلاق کا سنگین واقعہ پیش آیاہے،پاکستان کی صورت حال میں نہیں جانتا؛لیکن انڈیا میں تین طلاق کے واقعات بہت کم ہیں،
انڈیا میں ایسے واقعات مسلسل ہوتے رہے ہیں. ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی ڈائورس کی فائلیں اٹھا کر دیکھنے سے حقیقت واضح ہو جائے گی. اس کے علاوہ کئی واقعات تو معلوم تک نہیں ہوتے رکارڈ میں نہ آنے کی وجہ سے.
 
:) چلیں نیچ سمجھ لیا جاتا ہوگا پر ایک بات ہے بھائی زیادہ تر مرد کو ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عورت نے ہی کچھ کیا ہوگا جو وہ اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ عورت نے قربانی نہیں دی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

ایک بات اور بھی ہے بھائی جو کہ ہم سب یہاں بھول رہے ہیں کہ ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب اسے طلاق ہو جاتی ہوگی؟

اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ شوہر نے چھوڑ دیا ہے تو بعد میں پتا نہیں بچوں کا خرچہ دے گا یا نہیں۔ اوربہت سارے مرد کورٹ کے فیصلے کے باوجود خرچا نہیں دیتے۔ اسے یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو دوسرا مرد اس کے بچوں کے ساتھ ناجانے کیسا سلوک کرے گا؟ ماں باپ تو اچھا سلوک کر لیتے ہیں پر بہن بھائی کتنا بہن کو سپورٹ کر لیں گے اور وہ خود کتنا کما لے گی؟؟؟ اور ہم سب یہ جانتے ہیں ایک اکیلی عورت کے لئے ہمارے معاشرے میں بے انتہا کم موقع میسر آتے ہیں بلکہ اس کو مشکلات سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔جن کے ماں باپ کی طلاق ہو گئی ہو ان بچوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

اس معاملے کا بہرحال حل نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ میں کوئی عالمہ نہیں ہوں کہ کوئی رائے دے سکوں لیکن جہاں تک میری عقل کام کر رہی ہے تو ایسا کچھ کرنے کی تو میرے خیال سے گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ کوئی علماء کا بورڈ ہو جس میں خواتین بھی شامل ہوں۔ مردوں کو پابند کیا جائے کہ تین طلاق دینے سے پہلے آکر وجوہات بیان کریں کہ کیوں دینا چاہتے ہیں۔ کچھ کاوَنسلنگ وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔ گنجائش نکالنے کی کوشش کی جائے گی تو نکلے گی نا۔ جب ہم کچھ کریں گے ہی نہیں تو دوسرے لوگ کرنے لگ جائیں گے۔ یہ دنیا ہے جہاں سب چلتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں رکتا۔
آپ کی تجاویز عمدہ ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے پہلے نوجوانوں میں طلاق کی حیثیت، اس کے عواقب اور اس کے طریق کار سے متعلق شعور بھی بیدار کرنا بہت ضروری ہے
 

جاسمن

لائبریرین
باقی باتوں سے متفق ہوں۔ البتہ اس بات سے نہیں۔ تین طلاق دینے والے مرد کو بھی ہمارے معاشرے میں انتہائی نِیچ سمجھا جاتا ہے اور اچھے رشتوں کے دروازے تو اس پر بند ہی سمجھو۔
آپ درمیانے طبقہ کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گرد جو غریب طبقہ ہے اور وہاں جہالت بھی ہے۔ ان میں مردوں کی شادیاں آرام سے ہوجاتی ہیں۔ عورت واقعی بہت پستی ہے۔ میرے گھر میں جو خاتون کام کرتی ہے،ابھی نوجوان ہے،اسے طلاق ہوچکی ہے۔ ایک بچہ ہے اس کے پاس۔ وہ بیچاری محنت کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پال رہی ہے۔ سابقہ خاوند نے دوسری شادی کر لی۔ خاتون کو بہت باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ کئی لوگ خوامخواہ الزامات بھی اس پہ لگاتے ہیں۔
سین خے کی یہ بات درست ہے۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
gplus1113491782.jpg
 
میرے گھر میں جو خاتون کام کرتی ہے،ابھی نوجوان ہے،اسے طلاق ہوچکی ہے۔ ایک بچہ ہے اس کے پاس۔ وہ بیچاری محنت کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پال رہی ہے۔ سابقہ خاوند نے دوسری شادی کر لی۔
کیا اس صورت میں باپ اپنے بچے کی کفالت کا ذمہ دار نہیں، بیشک اسنے دوسری شادی ہی کیوں نہ کر لی ہو؟ مغرب میں تو ایسا سخت قانون ہوتا ہے کہ باپ طلاق کے بعد جتنی مرضی شادیاں رچا لے لیکن بہرحال وہ اپنے بچوں کی کفالت کا پابند ہے۔
 

l_425693_100106_updates.jpg

بھارتی مسلمانوں کے خدشات کے باوجود پارلیمنٹ نے بیک وقت 3 طلاقوں کو جرم قرار دینے کا بل منظور کرلیا۔

divorce-in-india_L2.jpg
’مسلم ویمن پروٹیکشن رائٹس آن میرج بل2017‘ کے نام سے اس مسودے کے قانون بن جانے کی صورت میں بیک وقت تین طلاقیں دینا ایک قابل تعزیر اور ناقابل ضمانت جرم ہوگا اور اس کے مرتکب کسی بھی شہری کو تین سال قید کی سزا اور جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس بل کو ’شریعت میں مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔یہ بل پیش کرتے وقت بھارتی وزیر قانون روی شنکر نےپارلیمان میں انتہائی جذباتی تقریر کی اور کہا:

divorce-in-india_L3.jpg
یہ خواتین کے وقار کا سوال ہے، ہم شریعت میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ اس بل کو مذہب کے ترازو پر نہ تولا جائے۔ یہ بل ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کا بل ہے۔ یہ بل مسلم خواتین کو ان کا حق دلانے کی کوشش ہے۔ ہم آج تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔
 
بھارتی مسلمانوں کے خدشات کے باوجود پارلیمنٹ نے بیک وقت 3 طلاقوں کو جرم قرار دینے کا بل منظور کرلیا۔
اچھی خبر ہے۔ سیکولر ممالک کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہاں مذہبی علما کو خاطر میں لائے بغیر عوام کی سہولت اور بہتری کیلئے قوانین پاس کئے جاتے ہیں۔
 

محمدظہیر

محفلین
اچھی خبر ہے۔ سیکولر ممالک کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہاں مذہبی علما کو خاطر میں لائے بغیر عوام کی سہولت اور بہتری کیلئے قوانین پاس کئے جاتے ہیں۔
سیکولراِزم کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی مذہبی اقلیت سیکولرازم چاہتی ہے اور مذہبی اکثریت میں بہت سے لوگ سیکولرزم کی مخالفت کرتے ہیں!
 

ابن جمال

محفلین
اس بل پر مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک ذمہ دارمولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تحریر پیش کی جارہی ہے،جس میں بل پر تفصیلی تونہیں لیکن خاصی بحث موجود ہے :

قوموں کی بدبختی اور زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل سے غافل ہوجائیں اور اپنی صلاحیتیں ایسے کاموں میں صرف کرنے لگیں ، جن کا کوئی فائدہ نہیں ، اس وقت ہمارا ملک اسی صورت حال سے گذر رہا ہے ، ملک کی معیشت مسلسل انحطاط پذیر ہے ، شرح ترقی گھٹتی جارہی ہے ، کارخانے بند ہورہے ہیں ، ہمارے وزیر اعظم شاید آدھی دنیا کا سفر کرچکے ہیں ؛ لیکن سرمایہ کاری میں اضافہ تو کجا ، ہمارا سفرتنزل کی طرف جاری ہے ، روزگار کے مواقع گھٹتے جارہے ہیں ، ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی ہے ، بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار بینکوں سے بھاری قرض حاصل کرکے عوام کی گاڑھی کمائی کوڈبو رہے ہیں ، امن و قانون کی صورت حال اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ پوری دنیا ہم پر خندہ زن ہے ، یہ اور اس طرح کی بہت سی ناکامیاں ہیں ،جو دوپہر کی دھوپ کی طرح معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے پر بھی واضح اور عیاں ہیں ۔
بجائے اس کے کہ حکومت ان حقیقی مسائل پر توجہ کرتی ، اپنے نفرت کے ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے اقلیتوں اور دلتوں کو پریشان کرنے اور فرقہ وارانہ بنیادپر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی بے فائدہ کوششوں میں لگی ہوئی ہے ، ایسی ہی نامسعود اور ناروا کوششوں میں ایک مطلقہ خواتین سے متعلق مجوزہ قانون ہے ، جسے ’’مسلم خواتین سے متعلق حقوق کے تحفظ کابل ۲۰۱۷ء‘‘کانام دیاگیا ہے ، بل میں کہاگیاہے کہ طلاق بدعت ( ایک ساتھ تین طلاق ) اور اس کی مماثل طلاق کی وہ تمام شکلیں جو فوری طورپر اثر انداز ہوں اور جن میں رجعت کی گنجائش نہیں ہو ،باطل اور غیر قانونی ہوںگی ، خواہ زبانی طلاق دی جائے یا تحریر کے ذریعہ یا کسی اور ذریعہ سے، اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تواس کو تین سال کی جیل ہوگی اور اس کے علاوہ جرمانہ ہوگا ، نیز اس مطلقہ عورت اور اس کے زیر کفالت بچوں کا نفقہ طلاق دینے والے شخص پر ہوگا اور مجسٹریٹ اس کو طے کرے گا ، نابالغ بچوں کی نگہداشت و پرورش کا حق بھی عورت کو حاصل ہوگا ، نیز مجرم کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوگا اور یہ قابل دست اندازی پولس گا۔
غور کیا جائے تو یہ مجوزہ قانون شریعت ِاسلامی میں مداخلت بھی ہے اوردستور کی روح کے مغائر بھی ،نامنصفانہ بھی ہے اور خود عورتوں کے مفاد کے خلاف بھی، نیزتضادات کا حامل بھی ۔
اس میں ایک پہلو تو شریعت اسلامی میں مداخلت کا ہے اور یہ مداخلت ایک آدھ مسئلہ تک محدود نہیں ہے ؛ بلکہ یہ کئی جہتوں سے شریعت کے عائلی قوانین کو متاثر کرتا ہے ، جس کو درج ذیل نکات میں سمجھا جاسکتا ہے :
(۱) اولاً یہ قانون ’’طلاق ِبدعت ‘‘جس سے خود اس بل کی توضیحات کے مطابق ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں مراد ہیں ،باطل ،کالعدم اور غیر مؤثر قرار دیتا ہے ، یعنی تین طلاق دینے کی صورت میں ایک طلاق بھی نہیں پڑے گی ، یہ ایسی بات ہے جس کے غلط ہونے پر مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر متفق ہیں ، ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کا کیا اثر مرتب ہوگا ؟ اس میں فقہاء کے درمیان اس بارے میںضرور اختلاف ہے کہ یہ تینوں طلاقیں واقع ہوںگی یا ایک ہی طلاق واقع ہوگی ؟ جمہور اہل سنت کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی ؛ لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسانہیں ہوگاکہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں بالکل ہی بے اثر ہوجائیں گی، اور ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی،اور یہ بات عقل عام کے بھی خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے حق طلاق کا استعمال کرتے ہوئے ایک طلاق دے تو وہ تو واقع ہوجائے اور تین طلاق دے تو ایک بھی واقع نہیں ہو۔
(۲) مجوزہ قانون کے مطابق طلاق بدعت کے ساتھ ساتھ اس کے مماثل طلاق کی وہ تمام صورتیں بے اثر ہوں گی ، جن سے فوری طورپر رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہو اور رجعت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہو،گویاطلاق بائن بھی واقع نہیں ہوگی، اس کے دُور رس اثرات پڑیں گے ، اگر نکاح کے بعد رُخصتی کی نوبت نہیں آئی اور کوئی ایسی صورت پیدا ہوگئی ، جس کی وجہ سے نوبت طلاق کی آگئی ، خواہ یہ صورت لڑکی والوں کی طرف پیدا ہوئی ہو یا لڑکا اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ، تو ایسی صورت میں اگر اس نے ایک طلاق دے دی تو یہ بھی طلاق بائن میں شامل ہے ، قانون کی رو سے یہ طلاق بھی کالعدم ہوگی ۔
(۳) اگر شوہر تین طلاق سے بچتے ہوئے فوری طورپر رشتۂ نکاح ختم کرنا چاہے تو اس کی صورت یہی ہے کہ ایک طلاق بائن دے دی جائے ؛ تاکہ نکاح ختم ہوجائے ؛ لیکن دونوں فریق کی رضامند ی سے دوبارہ نکاح کی گنجائش باقی رہے، اکثر سنجیدہ فیصلہ کے تحت اسی طرح طلاق دی جاتی ہے، اگر باہمی تعلقات خراب ہوگئے ، خاندان اور سماج کے لوگوں نے محسوس کیا کہ اس رشتہ کو ختم کردیا جائے تو شوہر سے یہی طلاق دلوائی جاتی ہے اور عورت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد رہتی ہے ، شوہر اپنی رضامندی کے بغیر اس کو اپنے نکاح میںواپس نہیں لاسکتا ، اس قانون کی رو سے یہ طلاق غیر معتبر ہوجائے گی اور چاہے عورت راضی نہ ہو مرد کو حق حاصل ہوگا ، وہ اس کو واپس آنے پر مجبور کرے ۔
(۴) بعض دفعہ شوہر و بیوی آپسی رضامندی سے’’ خلع‘‘ کا معاملہ طے کرتے ہیں ،خلع کے ذریعہ واقع ہونے والی طلاق بھی طلاق بائن ہے ، مجوزہ قانون میں طلاق بائن کی ایسی صورت کومستثنیٰ کرنے کی کوئی صراحت نہیں ہے ، جو عورت کی رضامندی سے دی گئی ہو ،؛اس لئے عدالتیں اس طلاق کو بھی کالعدم قرار دے سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت نے اپنے لئے نجات و آزادی کا جو راستہ نکالا تھا، وہ بند ہوکر رہ جائے گا اور اسے ناپسندیدگی کے باوجود اس رشتہ کو باقی رکھنا پڑے گا ۔
(۵) طلاق بائن ہی کی ایک صورت’’ ایلاء ‘‘ہے ، یعنی اگر شوہر چار ماہ یا اس سے زیادہ یا ہمیشہ کے لئے بیوی کے ساتھ شوہر و بیوی کے مخصوص تعلقات قائم نہ کرنے کی قسم کھالے اور اس پر عمل کرنے لگے ، یہاں تک کہ چار ماہ گزر جائے تو اس کی بیوی پر آپ سے آپ ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ؛ تاکہ وہ شوہر کے اس تکلیف دہ عمل سے نجات پاسکے ؛ چوںکہ طلاق کی اس صورت میں بھی رجعت کی گنجائش نہیں ہے ؛ اس لئے بظاہراِس پر بھی اِس قانون کا اطلاق ہوگا ، اس کو بھی کالعدم سمجھا جائے گا اور عورت شوہر کے ظالمانہ رویہ کے باوجود اس کی قید ِنکاح سے آزاد نہیں ہوسکے گی ۔
(۶) اس مجوزہ قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ طلاق کی صورت میں ایک شادی شدہ مسلمان عورت اپنے نابالغ بچوں کی نگہداشت اور پرورش کی حقدار ہوگی ، اسلام نے یقینا حق پرورش کے معاملہ میں ماں کو باپ پر ترجیح دی ہے ؛ لیکن شریعت میں اصل اہمیت بچہ کے مفاد کی ہے ؛ اسی لئے عام حالات میں لڑکی کے بالغ ہونے تک حق پرورش ماں کو دیا گیا ہے ؛ کیوںکہ وہ زیادہ بہتر طورپر بیٹی کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرسکتی ہے اور اس کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتی ہے ، لڑکے چھ سات سال تک ماں کے زیر پرورش رہیں گے، اس کے بعد باپ کو حق پرورش حاصل ہوگا ؛ کیوںکہ اس عمر کے بعد باپ زیادہ بہتر طورپر بچے کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے ؛ اوریہ مشاہدہ ہے کہ لڑکے عام طورپر ماں کے قابو میں نہیں رہتے ؛ البتہ اگر بالغ ہونے کے بعد بھی لڑکی کو باپ کے حوالہ کرنا اس کے مفاد میں نہیں ہو، یا لڑکے کو سات آٹھ سال تک ماں کے پاس رکھنا یا اس کے بعد اس کے باپ کے حوالہ کردینا کسی وجہ سے بچہ کے مفاد میں نہیں ہوتو بچہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی ، اس اُصول کو شریعت میں اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اگر شوہر و بیوی کے درمیان اس شرط پر خلع ہو کہ بیوی بچہ کے حق پرورش سے دستبردار ہوجائے گی؛ حالاںکہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو اور ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا ہو ، تب بھی بچہ کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے یہ معاہدہ کالعدم ہوجائے گا اور ماں کو حق پرورش حاصل رہے گا ؛ البتہ بچہ جب بھی ماں باپ میں سے ایک کے زیر پرورش ہو تو دوسرے فریق کو وقتاً فوقتاً بچوں سے ملاقات کا حق حاصل رہے گا ۔
شرعاً حق پرورش بعض دفعہ ماں کے علاوہ باپ ہی کو نہیں ؛ بلکہ دوسرے رشتہ داروں جیسے نانی ، دادی ، بہن ، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کو بھی حاصل ہوتا ہے اور جب عورت کسی ایسے مرد سے نکاح کرلے جو زیر پرورش لڑکے یا لڑکی کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو ماں کا حق پرورش ختم ہوجاتا ہے ؛ کیوںکہ ایسی صورت میں بچے کو ماں کے زیر پرورش رکھنا بچوں کے مفاد میں نہیں ہوتا ؛ لیکن اس مجوزہ قانون کے رو سے مطلقاً ماں کو پرورش کا حقدار قرار دے دیا گیا ہے ، اس سے باپ اوردوسرے حقداروں کے حقوق متأثر ہوں گے اور خود بچوں کو نقصان پہنچے گا ۔
(۷) اس مجوزہ قانون میں مطلقہ اوراس کے بچوں دونوں کانفقہ مردپرعائدکیاگیاہے؛حالاں کہ طلاق کے بعدعورت کانفقہ سابق شوہرپرواجب نہیں ہوتا،ہاں، بچے چوںکہ اسی کی اولاد ہیں ؛ اس لئے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہوگا اور جب تک حق پرورش حاصل ہونے کی بناپر عورت ان بچوں کی پرورش کرے گی تو پرورش کی اُجرت اس مرد کے ذمہ واجب ہوگی۔
(۸) مجوزہ قانون کی دفعہ :۴؍ میں فوری اثر کے ساتھ پڑنے والی ناقابل رجعت طلاق پر تین سال کی جیل کی سزا اور اس کے علاوہ جرمانہ کی بات کہی گئی ہے ؛ایک تواس لئے یہ سزاغیرمنصفانہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت میں ضرورناپسندیدہ عمل ہے اور یہ گناہ کے دائرہ میں آتا ہے ؛ لیکن طلاق بائن ایسا عمل نہیں ہے جوبہرحال گناہ کے دائرہ میں آتا ہو، یا فقہاء کی اصطلاح میں طلاق بدعت ہو ؛ اس لئے اس پر سزا دینا شرعاً ناقابل قبول ہے ۔
(۹) مجوزہ مسودہ قانون میںاگرچہ مقاصد و اسباب کے تحت بین القوسین طلاق بدعت کے ساتھ ایک وقت اور ایک ہی بار میں تین طلاق کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن عدالتیں عام طورپر قانون کے متن کو پیش نظر رکھتی ہیں ،اس میں اس کی صراحت نہیں ہے،اور صورت حال یہ ہے کہ طلاق بدعت صرف یکبارگی تین طلاق تک محدود نہیں ؛ بلکہ فقہاء نے حالت حیض میں طلاق دینے کو بھی بدعت قرار دیا ہے ،چاہے ایک ہی طلاق دی جائے ، تو عدالتیں اس سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار ہوسکتی ہیں اور وکلاء جو الفاظ کی بازی گری سے اپنے کیس کو ثابت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ ایسے شخص کے لئے بھی اس طرح کی سزا کا مطالبہ کرسکتے ہیں ،جس نے اس دوسرے پہلوسے طلاق بدعت دی ہو۔
یہ تو اس مجوزہ قانون کا شرعی پہلو ہے ، اب اس بات کو دیکھئے کہ از روئے انصاف یہ قانون کس حد تک قابل قبول ہے اور کہیں یہ خود تضادکا حامل تو نہیں ہے، اس سلسلہ میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے :
(۱) اس قانون کی رو سے ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں بالکل نامعتبراور کالعدم ہیں ، جن کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا ، یعنی ایک بھی طلاق نہیں پڑے گی تو سوال یہ ہے کہ جوعمل وجود ہی میں نہیں آیا اور قانون کی رو سے عورت اس سے متاثر ہی نہیں ہوئی ، تو پھر اس پر سزا دینے کے کیا معنی ہوں گے ، اگر کسی شخص نے فضاء میں فائرنگ کی اوراس کی فائرنگ سے کسی شخص کی جان نہیں گئی تو کیا ایسے شخص کو قتل کی سزا دی جائے گی ؟
(۲) اس قانون کی روسے ایک طرف مرد کو تین سال کے لئے جیل بھیجا جائے گا اور دوسری طرف اس پر عورت اور اس کے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی، یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، جب وہ جیل میں ہوگا اور محنت و مزدوری نہیں کرے گا تو وہ عورت اور بچوں کی کفالت کس طرح کرے گا ؟ خاص طورپر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق دینے کے واقعات زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ،غریب ، اور معمولی روزگار کے حامل لوگوں کے یہاں پیش آتے ہیں، جوبے چارے روزکماتے اورروزکھاتے ہیں ۔
(۳) یہ بات بھی نامنصفانہ ہے کہ دنگے فساد میں شامل ہونے والے اورمذہبی مقامات کونقصان پہنچانے والے کو تو دو سال کی سزا ہو ، کرپشن اور چار سو بیسی کرنے والے کو ایک سال کی سزا ہو ؛ لیکن تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دی جائے اور اس کے علاوہ جرمانہ بھی عاید کیا جائے ، یہ نہایت غیر متوازن، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ سزا ہے ۔
(۴) اس سزا کو مزید سخت کرنے کے لئے اس کو ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی پولس قراردیا گیا ہے ؛ حالاںکہ یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے ، جس میں کسی کو جسمانی مضرت پہنچائی گئی ہو ، یا عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالا گیا ہو،کیااس میں کوئی معقولیت ہے؟
(۵) پھر اس قانون میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ عورت کے دعویٰ کرنے پر کارروائی کی جائے گی ، مجوزہ قانون مطلق ہے ، بظاہراس کا تقاضا ہے کہ اگر اس شخص کا پڑوسی یا کوئی بدخواہ بلا کسی ثبوت کے یاعورت اور اس کے گھر کے لوگ مرد کے خلاف پولیس میں شکایت کردیں تو اس بیچارے کو ہتھکڑی لگ جائے ، ایسا بے قید قانون ظلم و زیادتی کے دروازے کو کھول دے گا ۔
(۶) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق کے کالعدم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب شوہر تین سال کی سزا کاٹ کر آئے گا، تو پھر وہ اس عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرے گا ، غور کیجئے !جو مرد اپنی بیوی کی طرف سے تین سال کی طویل سزا کاٹ کر اور خطیر جرمانہ اداکرکے آیا ہے ، کیا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرسکیں گے اور انھیں بزور طاقت ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا عقلمندی کی بات ہوگی ؟
(۷) اس طرح کے قوانین عورت کے لئے مشکلات پیدا کریں گے ، جو لوگ اپنی بیوی سے علاحدگی چاہیں گے اور ان کے لئے تین طلاق یا طلاق بائن کا راستہ بند ہوجائے گا ، وہ بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے ، نہ اس کے حقوق ادا کریں گے اور نہ طلاق دیں گے ، ایسی معلقہ عورت کی صورتِ حال مطلقہ سے بھی بدتر ہوتی ہے ؛ کیوںکہ نہ وہ اپنے حقوق پاتی ہیں اور نہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد ہوتی ہیں۔
(۸) یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے، جن کے دلوں میں کچھ نہ کچھ اللہ کا خوف ہے ، جن کو حلال و حرام کی فکر نہ ہو، وہ سوچیں گے کہ ساری مصیبت نکاح کرنے اور نکاح کے بعد طلاق دینے سے پیداہورہی ہے ؛ اس لئے نکاح ہی نہ کیا جائے ؛ بلکہ چوںکہ قانون بالغ مرد و عورت کو آپسی رضامندی سے ایک ساتھ زندگی گزارنے اور صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ اس لئے جب تک جس کے ساتھ موافقت رہے ،زندگی اس کے ساتھ گزاری جائے ،اور جب جی اُکتا جائے، نیا رفیق تلاش کرلیا جائے ، طلاق کو مشکل بنانا ان اہم اسباب میں سے ہے ، جن کی وجہ سے اس وقت مغربی ملکوں میں نکاح کی شرح گھٹتی جارہی ہے ، خاندانی نظام بکھرتا جارہا ہے اور اپنی پہچان سے محروم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر بننے والا یہ قانون اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے خود خواتین کے لئے نقصاندہ ہے ۔
البتہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کے چند اہم نکات یہ ہوسکتے ہیں :
(۱) صرف ایک ساتھ تین طلاق دینے پر ایک مناسب اور متوازن سزا تجویز کی جائے، اور وہ سزا ایسی ہو جس سے مطلقہ عورت کو فائدہ ہو ۔
(۲) بچوں کا نفقہ تو شرعاً اس کے باپ پر واجب ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ جب تک عورت بچوں کی پرورش کرے، اس کو سابق شوہر کی طرف سے مناسب اُجرت پرورش بھی دلائی جائے ، جو فقہاء کی تصریحات کے مطابق اتنی ہونی چاہئے کہ اس کے خورد و نوش اور رہائش کا انتظام ہوجائے ۔
(۳) مہر اور نفقۂ عدت جلد سے جلد ادا کرایا جائے ۔
(۴) اس نوعیت کے مقدمات کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جائیں ، جو ایک مقررہ مدت مثلاً تین ماہ کے اندر فیصلہ سنادے ۔
(۵) حکومت ایسی مظلوم عورتوں کی طرف سے وکیل کی ذمہ داری قبول کرے اور متاثرہ عورت پر اخراجات مقدمہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ۔
ٍ یہ تو اس مجوزہ قانون کے اثرات و نتائج اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو تھی ؛ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہندوستان کے دستور کی بنیاد کثرت میں وحدت اور اقلیتوں کی مذہبی و تہذیبی آزادی پر ہے ؛اسی لئے دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات میں اس کی ضمانت دی گئی ہے ، حکومت کو ہرگز کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے ،جو دستور سے انحراف پر مبنی ہو، اس کی روح کو متاثر کرتا ہو ، اوراس سے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو۔
 

محمدظہیر

محفلین
مسلمان شروع سے بی جے پی کو انڈیا میں اپنا دشمن سمجھتے آئے ہیں۔ تین برس قبل ، جب سے اس پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے جی پی نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ انہیں خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں موب لنچنگ کے ذریعے گائے اور چوپایوں کا ٹرانسپورٹ کرنے والے غریب مسلم ٹرک ڈرئیوروں پر تشدد ہوتا رہا ہے ۔ جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی آزادی مل گئی ہے کیوں کہ حکومت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہے نہ سرکار ان کی خیر خواہ ہے۔ موب لنچنگ اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر مسلمان واقعی اس پارٹی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع یہ پارٹی نہیں بلکہ خواتین اور تین طلاق پر بنائے گئے قانون پر اپنا موقف بتانا ہے، اس لیے میں حکومت میں بیٹھی پارٹی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کیے بغیراس موضوع پر اپنے خیال کا اظہار کر رہا ہوں۔

پچھلے چار پانچ مہینوں سے طلاق پر زور و شور سےہمارے ملک میں بحثیں ہو رہی ہیں۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اس لیے نیوز پروگرام میں کانگریس و بی جے پی ممبران، مسلم رہنما، اور عورتوں کی نمائندگی کرنے والی غیر سرکاری اداروں کی خواتین کے درمیان بحثیں نہیں دیکھ پاتا۔ لیکن کبھی کبھار میں فرصت میں رہوں اور کوئی خبر نظر آ جائے تو یوٹیوب پر ایسی بحثیں دیکھ لیتا ہوں۔

سچ کہوں تو مجھے ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوتی نظر آتی ہے۔ میں صرف مسلم عورتوں کی بات نہیں کر رہا، عورت چاہے کسی بھی مذہب کی ہو ، انہیں ہمیشہ سے یہاں تکالیف سہنی پڑی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم دیگر مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے ۔ ہماری موجودہ صورتحال میں مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں۔

تین طلاقیں شادی شدہ مسلم خواتین کے گلے کے سامنے چھری کے جیسے ہمیشہ لٹکتی رہی ہیں۔ عورتیں بس اسی لیے خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں ان کا شوہر کسی بات پر غصے میں انہیں طلاق نہ دے دے۔مجھے یاد ہے ،جب میں نے پہلی دفعہ "نکاح" فلم کو دیکھا تھا۔ وہ طلاق کا منظر میری یادداشت میں اس طرح قید ہوا ہے کہ فلم کا وہ ڈائلاگ اب بھی یاد آجائے تو میں سہم جاتا ہوں۔ پتا نہیں ایسی اتھاریٹی شوہر کو کس نے دی ہے کہ عورت کو طلاق دے کر یوں بُری طرح گھر سے بے دخل کر دے۔

میں نے گزشتہ دنوں تین طلاق کی تاریخ جاننے کے لیے کچھ مطالعہ کیا ۔ سپریم کورٹ کی شاہرہ بانو اور دیگر تین کیس کی فائل میں مختلف جگہوں میں تین طرح کے طلاقوں کا ذکر ہوا ہے۔ طلاقِ احسن، طلاق ِحسن اور طلاقِ بدعت۔ میں نے مذہبی کتابوں کی طرف رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے کبھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا ۔ مسلمانوں کے چار بڑے مذاہب میں احناف کے پاس تین طلاق ایک وقت میں واقع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلم اکثریت حنفی مذہب کے مقلدہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ احناف میں کس بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔ میں نے یہ سنا ہے کہ صحابی رسول حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں تین طلاقوں کی ابتدا ہوئی ۔ سپریم کورٹ اکٹھی طلاقوں کو طلاقِ بدعت شاید اسی لیے کہتی ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے کے بعد مجلس کی تین طلاقیں وجود میں آئیں ۔اکثر احناف تین طلاق کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جاری ہونے کی وجہ سے اب بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بہر حال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ کس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔

انڈیا میں تین طلاق کے نئے قانون کے تحت شوہر اگر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ اگر نئے قانون کے تحت طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو شوہر کو کس بنیاد پر سزا دے رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شوہر کے ہاتھ میں چاقو ہے اور اس نے غصے میں بیوی کے پیٹ میں ڈال دیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ چاقو نقلی تھا ۔ عورت کی موت واقع نہ ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ شوہر مجرم نہیں ہے۔ اس نے جرم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کو سز ا دی جا رہی ہے ۔

کچھ لوگ تین طلاق دینے والےمرد پر ضرورت سے زیادہ رحم کھا رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہو کہ عورت اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے ۔جھوٹی گواہی دے کر شوہر کو مجرم ثابت کر سکتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے ، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کبھی اپنے شوہر پر جھوٹا الزام لگا کر یوں نہیں پھنسائے گی۔ ان کی فطرت میں رحم دلی ہوتی ہے۔ عورت کو محبت کرنے والے شوہر کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کا خیال رکھ سکے ۔ مرد چاہے کتنا ہی بُرا شخص کیوں نہ ہو ، اگر اپنی بیوی سے محبت سے پیش آئے تو بیوی کبھی شوہر کو غیر ضروری طور پر پھنسانے کا سوچے گی بھی نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض عورتیں صرف دولت چاہتی ہیں اور وہ شوہر سے محبت نہیں کر سکتی ، پیسہ جائیداد کی لالچ میں یا کسی دوسری وجہ سے مرد کو ایسے قانون کے سہارے پھنسا سکتی ہیں تو میرا خیال ہے یہ سب باتیں باطل ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ سب عورتیں محفوظ عنی الخطا ہیں یا صرف مرد ہی بُرا ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے ٹھیک سے پیش نہیں آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کہیں نہ کہیں بیوی کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ انہیں پیار سے سمجھا کر پوچھنے سے تمام مسائل کر حل ممکن ہے۔ بہر حال میرا موضوع میاں بیوی کے تعلقات نہیں، بلکہ شوہر کا ظالمانہ رویہ اور طلاق کا غلط استعمال ہے۔ ایسے مرد حضرات جو اپنی بیوی کو تین طلاقوں کی دھمکی دیتے ہیں اب انہیں اچھی طرح پتہ چل جائے گا کہ بیوی سے غلط پیش آنے کا کیا انجام ہوگا۔

کچھ احباب کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شوہر تین طلاق کی سزا کے ڈر سے طلاق نہیں دے سکے گا تو جب تک بیوی کے ساتھ ہوگا ، مسلسل اس پر ظلم کرتا رہے گا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ قانون میں ڈومسٹک وائلنس(گھریلو ظلم) کے خلاف قانون کے تحت عورت اپنی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کرا سکتی ہے۔ ایسے ظاہم شوہر کو پھر پولیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قصہ مختصریہ ہے کہ انڈیا میں خواتین کو اب مرد کے تین طلاق کےسائے تلے جینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسلم ومن پروٹکشن بِل 2017 خواتین کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف کسی پارٹی کی سازش نہیں سمجھنی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ پہلے سے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اب جا کر منظوری ملی ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
اس بل پر مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک ذمہ دارمولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تحریر پیش کی جارہی ہے،جس میں بل پر تفصیلی تونہیں لیکن خاصی بحث موجود ہے :

قوموں کی بدبختی اور زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل سے غافل ہوجائیں اور اپنی صلاحیتیں ایسے کاموں میں صرف کرنے لگیں ، جن کا کوئی فائدہ نہیں ، اس وقت ہمارا ملک اسی صورت حال سے گذر رہا ہے ، ملک کی معیشت مسلسل انحطاط پذیر ہے ، شرح ترقی گھٹتی جارہی ہے ، کارخانے بند ہورہے ہیں ، ہمارے وزیر اعظم شاید آدھی دنیا کا سفر کرچکے ہیں ؛ لیکن سرمایہ کاری میں اضافہ تو کجا ، ہمارا سفرتنزل کی طرف جاری ہے ، روزگار کے مواقع گھٹتے جارہے ہیں ، ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی ہے ، بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار بینکوں سے بھاری قرض حاصل کرکے عوام کی گاڑھی کمائی کوڈبو رہے ہیں ، امن و قانون کی صورت حال اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ پوری دنیا ہم پر خندہ زن ہے ، یہ اور اس طرح کی بہت سی ناکامیاں ہیں ،جو دوپہر کی دھوپ کی طرح معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے پر بھی واضح اور عیاں ہیں ۔
بجائے اس کے کہ حکومت ان حقیقی مسائل پر توجہ کرتی ، اپنے نفرت کے ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے اقلیتوں اور دلتوں کو پریشان کرنے اور فرقہ وارانہ بنیادپر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی بے فائدہ کوششوں میں لگی ہوئی ہے ، ایسی ہی نامسعود اور ناروا کوششوں میں ایک مطلقہ خواتین سے متعلق مجوزہ قانون ہے ، جسے ’’مسلم خواتین سے متعلق حقوق کے تحفظ کابل ۲۰۱۷ء‘‘کانام دیاگیا ہے ، بل میں کہاگیاہے کہ طلاق بدعت ( ایک ساتھ تین طلاق ) اور اس کی مماثل طلاق کی وہ تمام شکلیں جو فوری طورپر اثر انداز ہوں اور جن میں رجعت کی گنجائش نہیں ہو ،باطل اور غیر قانونی ہوںگی ، خواہ زبانی طلاق دی جائے یا تحریر کے ذریعہ یا کسی اور ذریعہ سے، اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تواس کو تین سال کی جیل ہوگی اور اس کے علاوہ جرمانہ ہوگا ، نیز اس مطلقہ عورت اور اس کے زیر کفالت بچوں کا نفقہ طلاق دینے والے شخص پر ہوگا اور مجسٹریٹ اس کو طے کرے گا ، نابالغ بچوں کی نگہداشت و پرورش کا حق بھی عورت کو حاصل ہوگا ، نیز مجرم کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوگا اور یہ قابل دست اندازی پولس گا۔
غور کیا جائے تو یہ مجوزہ قانون شریعت ِاسلامی میں مداخلت بھی ہے اوردستور کی روح کے مغائر بھی ،نامنصفانہ بھی ہے اور خود عورتوں کے مفاد کے خلاف بھی، نیزتضادات کا حامل بھی ۔
اس میں ایک پہلو تو شریعت اسلامی میں مداخلت کا ہے اور یہ مداخلت ایک آدھ مسئلہ تک محدود نہیں ہے ؛ بلکہ یہ کئی جہتوں سے شریعت کے عائلی قوانین کو متاثر کرتا ہے ، جس کو درج ذیل نکات میں سمجھا جاسکتا ہے :
(۱) اولاً یہ قانون ’’طلاق ِبدعت ‘‘جس سے خود اس بل کی توضیحات کے مطابق ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں مراد ہیں ،باطل ،کالعدم اور غیر مؤثر قرار دیتا ہے ، یعنی تین طلاق دینے کی صورت میں ایک طلاق بھی نہیں پڑے گی ، یہ ایسی بات ہے جس کے غلط ہونے پر مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر متفق ہیں ، ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کا کیا اثر مرتب ہوگا ؟ اس میں فقہاء کے درمیان اس بارے میںضرور اختلاف ہے کہ یہ تینوں طلاقیں واقع ہوںگی یا ایک ہی طلاق واقع ہوگی ؟ جمہور اہل سنت کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی ؛ لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسانہیں ہوگاکہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں بالکل ہی بے اثر ہوجائیں گی، اور ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی،اور یہ بات عقل عام کے بھی خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے حق طلاق کا استعمال کرتے ہوئے ایک طلاق دے تو وہ تو واقع ہوجائے اور تین طلاق دے تو ایک بھی واقع نہیں ہو۔
(۲) مجوزہ قانون کے مطابق طلاق بدعت کے ساتھ ساتھ اس کے مماثل طلاق کی وہ تمام صورتیں بے اثر ہوں گی ، جن سے فوری طورپر رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہو اور رجعت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہو،گویاطلاق بائن بھی واقع نہیں ہوگی، اس کے دُور رس اثرات پڑیں گے ، اگر نکاح کے بعد رُخصتی کی نوبت نہیں آئی اور کوئی ایسی صورت پیدا ہوگئی ، جس کی وجہ سے نوبت طلاق کی آگئی ، خواہ یہ صورت لڑکی والوں کی طرف پیدا ہوئی ہو یا لڑکا اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ، تو ایسی صورت میں اگر اس نے ایک طلاق دے دی تو یہ بھی طلاق بائن میں شامل ہے ، قانون کی رو سے یہ طلاق بھی کالعدم ہوگی ۔
(۳) اگر شوہر تین طلاق سے بچتے ہوئے فوری طورپر رشتۂ نکاح ختم کرنا چاہے تو اس کی صورت یہی ہے کہ ایک طلاق بائن دے دی جائے ؛ تاکہ نکاح ختم ہوجائے ؛ لیکن دونوں فریق کی رضامند ی سے دوبارہ نکاح کی گنجائش باقی رہے، اکثر سنجیدہ فیصلہ کے تحت اسی طرح طلاق دی جاتی ہے، اگر باہمی تعلقات خراب ہوگئے ، خاندان اور سماج کے لوگوں نے محسوس کیا کہ اس رشتہ کو ختم کردیا جائے تو شوہر سے یہی طلاق دلوائی جاتی ہے اور عورت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد رہتی ہے ، شوہر اپنی رضامندی کے بغیر اس کو اپنے نکاح میںواپس نہیں لاسکتا ، اس قانون کی رو سے یہ طلاق غیر معتبر ہوجائے گی اور چاہے عورت راضی نہ ہو مرد کو حق حاصل ہوگا ، وہ اس کو واپس آنے پر مجبور کرے ۔
(۴) بعض دفعہ شوہر و بیوی آپسی رضامندی سے’’ خلع‘‘ کا معاملہ طے کرتے ہیں ،خلع کے ذریعہ واقع ہونے والی طلاق بھی طلاق بائن ہے ، مجوزہ قانون میں طلاق بائن کی ایسی صورت کومستثنیٰ کرنے کی کوئی صراحت نہیں ہے ، جو عورت کی رضامندی سے دی گئی ہو ،؛اس لئے عدالتیں اس طلاق کو بھی کالعدم قرار دے سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت نے اپنے لئے نجات و آزادی کا جو راستہ نکالا تھا، وہ بند ہوکر رہ جائے گا اور اسے ناپسندیدگی کے باوجود اس رشتہ کو باقی رکھنا پڑے گا ۔
(۵) طلاق بائن ہی کی ایک صورت’’ ایلاء ‘‘ہے ، یعنی اگر شوہر چار ماہ یا اس سے زیادہ یا ہمیشہ کے لئے بیوی کے ساتھ شوہر و بیوی کے مخصوص تعلقات قائم نہ کرنے کی قسم کھالے اور اس پر عمل کرنے لگے ، یہاں تک کہ چار ماہ گزر جائے تو اس کی بیوی پر آپ سے آپ ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ؛ تاکہ وہ شوہر کے اس تکلیف دہ عمل سے نجات پاسکے ؛ چوںکہ طلاق کی اس صورت میں بھی رجعت کی گنجائش نہیں ہے ؛ اس لئے بظاہراِس پر بھی اِس قانون کا اطلاق ہوگا ، اس کو بھی کالعدم سمجھا جائے گا اور عورت شوہر کے ظالمانہ رویہ کے باوجود اس کی قید ِنکاح سے آزاد نہیں ہوسکے گی ۔
(۶) اس مجوزہ قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ طلاق کی صورت میں ایک شادی شدہ مسلمان عورت اپنے نابالغ بچوں کی نگہداشت اور پرورش کی حقدار ہوگی ، اسلام نے یقینا حق پرورش کے معاملہ میں ماں کو باپ پر ترجیح دی ہے ؛ لیکن شریعت میں اصل اہمیت بچہ کے مفاد کی ہے ؛ اسی لئے عام حالات میں لڑکی کے بالغ ہونے تک حق پرورش ماں کو دیا گیا ہے ؛ کیوںکہ وہ زیادہ بہتر طورپر بیٹی کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرسکتی ہے اور اس کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتی ہے ، لڑکے چھ سات سال تک ماں کے زیر پرورش رہیں گے، اس کے بعد باپ کو حق پرورش حاصل ہوگا ؛ کیوںکہ اس عمر کے بعد باپ زیادہ بہتر طورپر بچے کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے ؛ اوریہ مشاہدہ ہے کہ لڑکے عام طورپر ماں کے قابو میں نہیں رہتے ؛ البتہ اگر بالغ ہونے کے بعد بھی لڑکی کو باپ کے حوالہ کرنا اس کے مفاد میں نہیں ہو، یا لڑکے کو سات آٹھ سال تک ماں کے پاس رکھنا یا اس کے بعد اس کے باپ کے حوالہ کردینا کسی وجہ سے بچہ کے مفاد میں نہیں ہوتو بچہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی ، اس اُصول کو شریعت میں اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اگر شوہر و بیوی کے درمیان اس شرط پر خلع ہو کہ بیوی بچہ کے حق پرورش سے دستبردار ہوجائے گی؛ حالاںکہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو اور ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا ہو ، تب بھی بچہ کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے یہ معاہدہ کالعدم ہوجائے گا اور ماں کو حق پرورش حاصل رہے گا ؛ البتہ بچہ جب بھی ماں باپ میں سے ایک کے زیر پرورش ہو تو دوسرے فریق کو وقتاً فوقتاً بچوں سے ملاقات کا حق حاصل رہے گا ۔
شرعاً حق پرورش بعض دفعہ ماں کے علاوہ باپ ہی کو نہیں ؛ بلکہ دوسرے رشتہ داروں جیسے نانی ، دادی ، بہن ، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کو بھی حاصل ہوتا ہے اور جب عورت کسی ایسے مرد سے نکاح کرلے جو زیر پرورش لڑکے یا لڑکی کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو ماں کا حق پرورش ختم ہوجاتا ہے ؛ کیوںکہ ایسی صورت میں بچے کو ماں کے زیر پرورش رکھنا بچوں کے مفاد میں نہیں ہوتا ؛ لیکن اس مجوزہ قانون کے رو سے مطلقاً ماں کو پرورش کا حقدار قرار دے دیا گیا ہے ، اس سے باپ اوردوسرے حقداروں کے حقوق متأثر ہوں گے اور خود بچوں کو نقصان پہنچے گا ۔
(۷) اس مجوزہ قانون میں مطلقہ اوراس کے بچوں دونوں کانفقہ مردپرعائدکیاگیاہے؛حالاں کہ طلاق کے بعدعورت کانفقہ سابق شوہرپرواجب نہیں ہوتا،ہاں، بچے چوںکہ اسی کی اولاد ہیں ؛ اس لئے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہوگا اور جب تک حق پرورش حاصل ہونے کی بناپر عورت ان بچوں کی پرورش کرے گی تو پرورش کی اُجرت اس مرد کے ذمہ واجب ہوگی۔
(۸) مجوزہ قانون کی دفعہ :۴؍ میں فوری اثر کے ساتھ پڑنے والی ناقابل رجعت طلاق پر تین سال کی جیل کی سزا اور اس کے علاوہ جرمانہ کی بات کہی گئی ہے ؛ایک تواس لئے یہ سزاغیرمنصفانہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت میں ضرورناپسندیدہ عمل ہے اور یہ گناہ کے دائرہ میں آتا ہے ؛ لیکن طلاق بائن ایسا عمل نہیں ہے جوبہرحال گناہ کے دائرہ میں آتا ہو، یا فقہاء کی اصطلاح میں طلاق بدعت ہو ؛ اس لئے اس پر سزا دینا شرعاً ناقابل قبول ہے ۔
(۹) مجوزہ مسودہ قانون میںاگرچہ مقاصد و اسباب کے تحت بین القوسین طلاق بدعت کے ساتھ ایک وقت اور ایک ہی بار میں تین طلاق کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن عدالتیں عام طورپر قانون کے متن کو پیش نظر رکھتی ہیں ،اس میں اس کی صراحت نہیں ہے،اور صورت حال یہ ہے کہ طلاق بدعت صرف یکبارگی تین طلاق تک محدود نہیں ؛ بلکہ فقہاء نے حالت حیض میں طلاق دینے کو بھی بدعت قرار دیا ہے ،چاہے ایک ہی طلاق دی جائے ، تو عدالتیں اس سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار ہوسکتی ہیں اور وکلاء جو الفاظ کی بازی گری سے اپنے کیس کو ثابت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ ایسے شخص کے لئے بھی اس طرح کی سزا کا مطالبہ کرسکتے ہیں ،جس نے اس دوسرے پہلوسے طلاق بدعت دی ہو۔
یہ تو اس مجوزہ قانون کا شرعی پہلو ہے ، اب اس بات کو دیکھئے کہ از روئے انصاف یہ قانون کس حد تک قابل قبول ہے اور کہیں یہ خود تضادکا حامل تو نہیں ہے، اس سلسلہ میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے :
(۱) اس قانون کی رو سے ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں بالکل نامعتبراور کالعدم ہیں ، جن کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا ، یعنی ایک بھی طلاق نہیں پڑے گی تو سوال یہ ہے کہ جوعمل وجود ہی میں نہیں آیا اور قانون کی رو سے عورت اس سے متاثر ہی نہیں ہوئی ، تو پھر اس پر سزا دینے کے کیا معنی ہوں گے ، اگر کسی شخص نے فضاء میں فائرنگ کی اوراس کی فائرنگ سے کسی شخص کی جان نہیں گئی تو کیا ایسے شخص کو قتل کی سزا دی جائے گی ؟
(۲) اس قانون کی روسے ایک طرف مرد کو تین سال کے لئے جیل بھیجا جائے گا اور دوسری طرف اس پر عورت اور اس کے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی، یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، جب وہ جیل میں ہوگا اور محنت و مزدوری نہیں کرے گا تو وہ عورت اور بچوں کی کفالت کس طرح کرے گا ؟ خاص طورپر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق دینے کے واقعات زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ،غریب ، اور معمولی روزگار کے حامل لوگوں کے یہاں پیش آتے ہیں، جوبے چارے روزکماتے اورروزکھاتے ہیں ۔
(۳) یہ بات بھی نامنصفانہ ہے کہ دنگے فساد میں شامل ہونے والے اورمذہبی مقامات کونقصان پہنچانے والے کو تو دو سال کی سزا ہو ، کرپشن اور چار سو بیسی کرنے والے کو ایک سال کی سزا ہو ؛ لیکن تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دی جائے اور اس کے علاوہ جرمانہ بھی عاید کیا جائے ، یہ نہایت غیر متوازن، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ سزا ہے ۔
(۴) اس سزا کو مزید سخت کرنے کے لئے اس کو ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی پولس قراردیا گیا ہے ؛ حالاںکہ یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے ، جس میں کسی کو جسمانی مضرت پہنچائی گئی ہو ، یا عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالا گیا ہو،کیااس میں کوئی معقولیت ہے؟
(۵) پھر اس قانون میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ عورت کے دعویٰ کرنے پر کارروائی کی جائے گی ، مجوزہ قانون مطلق ہے ، بظاہراس کا تقاضا ہے کہ اگر اس شخص کا پڑوسی یا کوئی بدخواہ بلا کسی ثبوت کے یاعورت اور اس کے گھر کے لوگ مرد کے خلاف پولیس میں شکایت کردیں تو اس بیچارے کو ہتھکڑی لگ جائے ، ایسا بے قید قانون ظلم و زیادتی کے دروازے کو کھول دے گا ۔
(۶) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق کے کالعدم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب شوہر تین سال کی سزا کاٹ کر آئے گا، تو پھر وہ اس عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرے گا ، غور کیجئے !جو مرد اپنی بیوی کی طرف سے تین سال کی طویل سزا کاٹ کر اور خطیر جرمانہ اداکرکے آیا ہے ، کیا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرسکیں گے اور انھیں بزور طاقت ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا عقلمندی کی بات ہوگی ؟
(۷) اس طرح کے قوانین عورت کے لئے مشکلات پیدا کریں گے ، جو لوگ اپنی بیوی سے علاحدگی چاہیں گے اور ان کے لئے تین طلاق یا طلاق بائن کا راستہ بند ہوجائے گا ، وہ بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے ، نہ اس کے حقوق ادا کریں گے اور نہ طلاق دیں گے ، ایسی معلقہ عورت کی صورتِ حال مطلقہ سے بھی بدتر ہوتی ہے ؛ کیوںکہ نہ وہ اپنے حقوق پاتی ہیں اور نہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد ہوتی ہیں۔
(۸) یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے، جن کے دلوں میں کچھ نہ کچھ اللہ کا خوف ہے ، جن کو حلال و حرام کی فکر نہ ہو، وہ سوچیں گے کہ ساری مصیبت نکاح کرنے اور نکاح کے بعد طلاق دینے سے پیداہورہی ہے ؛ اس لئے نکاح ہی نہ کیا جائے ؛ بلکہ چوںکہ قانون بالغ مرد و عورت کو آپسی رضامندی سے ایک ساتھ زندگی گزارنے اور صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ اس لئے جب تک جس کے ساتھ موافقت رہے ،زندگی اس کے ساتھ گزاری جائے ،اور جب جی اُکتا جائے، نیا رفیق تلاش کرلیا جائے ، طلاق کو مشکل بنانا ان اہم اسباب میں سے ہے ، جن کی وجہ سے اس وقت مغربی ملکوں میں نکاح کی شرح گھٹتی جارہی ہے ، خاندانی نظام بکھرتا جارہا ہے اور اپنی پہچان سے محروم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر بننے والا یہ قانون اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے خود خواتین کے لئے نقصاندہ ہے ۔
البتہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کے چند اہم نکات یہ ہوسکتے ہیں :
(۱) صرف ایک ساتھ تین طلاق دینے پر ایک مناسب اور متوازن سزا تجویز کی جائے، اور وہ سزا ایسی ہو جس سے مطلقہ عورت کو فائدہ ہو ۔
(۲) بچوں کا نفقہ تو شرعاً اس کے باپ پر واجب ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ جب تک عورت بچوں کی پرورش کرے، اس کو سابق شوہر کی طرف سے مناسب اُجرت پرورش بھی دلائی جائے ، جو فقہاء کی تصریحات کے مطابق اتنی ہونی چاہئے کہ اس کے خورد و نوش اور رہائش کا انتظام ہوجائے ۔
(۳) مہر اور نفقۂ عدت جلد سے جلد ادا کرایا جائے ۔
(۴) اس نوعیت کے مقدمات کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جائیں ، جو ایک مقررہ مدت مثلاً تین ماہ کے اندر فیصلہ سنادے ۔
(۵) حکومت ایسی مظلوم عورتوں کی طرف سے وکیل کی ذمہ داری قبول کرے اور متاثرہ عورت پر اخراجات مقدمہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ۔
ٍ یہ تو اس مجوزہ قانون کے اثرات و نتائج اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو تھی ؛ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہندوستان کے دستور کی بنیاد کثرت میں وحدت اور اقلیتوں کی مذہبی و تہذیبی آزادی پر ہے ؛اسی لئے دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات میں اس کی ضمانت دی گئی ہے ، حکومت کو ہرگز کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے ،جو دستور سے انحراف پر مبنی ہو، اس کی روح کو متاثر کرتا ہو ، اوراس سے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو۔
خالد سیف اللہ صاحب نے کئی باتوں کو ملا دیا ہے.اسلام میں نکاح کو آسان بنانے کا ذکر ہے آپ نے طلاق کو آسان بنانے پر اسے فِٹ کر دیا ہے
 

محمدظہیر

محفلین
مسلمان شروع سے بی جے پی کو انڈیا میں اپنا دشمن سمجھتے آئے ہیں۔ تین برس قبل ، جب سے اس پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے جی پی نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ انہیں خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں موب لنچنگ کے ذریعے گائے اور چوپایوں کا ٹرانسپورٹ کرنے والے غریب مسلم ٹرک ڈرئیوروں پر تشدد ہوتا رہا ہے ۔ جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی آزادی مل گئی ہے کیوں کہ حکومت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہے نہ سرکار ان کی خیر خواہ ہے۔ موب لنچنگ اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر مسلمان واقعی اس پارٹی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع یہ پارٹی نہیں بلکہ خواتین اور تین طلاق پر بنائے گئے قانون پر اپنا موقف بتانا ہے، اس لیے میں حکومت میں بیٹھی پارٹی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کیے بغیراس موضوع پر اپنے خیال کا اظہار کر رہا ہوں۔

پچھلے چار پانچ مہینوں سے طلاق پر زور و شور سےہمارے ملک میں بحثیں ہو رہی ہیں۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اس لیے نیوز پروگرام میں کانگریس و بی جے پی ممبران، مسلم رہنما، اور عورتوں کی نمائندگی کرنے والی غیر سرکاری اداروں کی خواتین کے درمیان بحثیں نہیں دیکھ پاتا۔ لیکن کبھی کبھار میں فرصت میں رہوں اور کوئی خبر نظر آ جائے تو یوٹیوب پر ایسی بحثیں دیکھ لیتا ہوں۔

سچ کہوں تو مجھے ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوتی نظر آتی ہے۔ میں صرف مسلم عورتوں کی بات نہیں کر رہا، عورت چاہے کسی بھی مذہب کی ہو ، انہیں ہمیشہ سے یہاں تکالیف سہنی پڑی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم دیگر مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے ۔ ہماری موجودہ صورتحال میں مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں۔

تین طلاقیں شادی شدہ مسلم خواتین کے گلے کے سامنے چھری کے جیسے ہمیشہ لٹکتی رہی ہیں۔ عورتیں بس اسی لیے خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں ان کا شوہر کسی بات پر غصے میں انہیں طلاق نہ دے دے۔مجھے یاد ہے ،جب میں نے پہلی دفعہ "نکاح" فلم کو دیکھا تھا۔ وہ طلاق کا منظر میری یادداشت میں اس طرح قید ہوا ہے کہ فلم کا وہ ڈائلاگ اب بھی یاد آجائے تو میں سہم جاتا ہوں۔ پتا نہیں ایسی اتھاریٹی شوہر کو کس نے دی ہے کہ عورت کو طلاق دے کر یوں بُری طرح گھر سے بے دخل کر دے۔

میں نے گزشتہ دنوں تین طلاق کی تاریخ جاننے کے لیے کچھ مطالعہ کیا ۔ سپریم کورٹ کی شاہرہ بانو اور دیگر تین کیس کی فائل میں مختلف جگہوں میں تین طرح کے طلاقوں کا ذکر ہوا ہے۔ طلاقِ احسن، طلاق ِحسن اور طلاقِ بدعت۔ میں نے مذہبی کتابوں کی طرف رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے کبھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا ۔ مسلمانوں کے چار بڑے مذاہب میں احناف کے پاس تین طلاق ایک وقت میں واقع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلم اکثریت حنفی مذہب کے مقلدہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ احناف میں کس بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔ میں نے یہ سنا ہے کہ صحابی رسول حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں تین طلاقوں کی ابتدا ہوئی ۔ سپریم کورٹ اکٹھی طلاقوں کو طلاقِ بدعت شاید اسی لیے کہتی ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے کے بعد مجلس کی تین طلاقیں وجود میں آئیں ۔اکثر احناف تین طلاق کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جاری ہونے کی وجہ سے اب بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بہر حال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ کس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔

انڈیا میں تین طلاق کے نئے قانون کے تحت شوہر اگر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ اگر نئے قانون کے تحت طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو شوہر کو کس بنیاد پر سزا دے رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شوہر کے ہاتھ میں چاقو ہے اور اس نے غصے میں بیوی کے پیٹ میں ڈال دیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ چاقو نقلی تھا ۔ عورت کی موت واقع نہ ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ شوہر مجرم نہیں ہے۔ اس نے جرم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کو سز ا دی جا رہی ہے ۔

کچھ لوگ تین طلاق دینے والےمرد پر ضرورت سے زیادہ رحم کھا رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہو کہ عورت اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے ۔جھوٹی گواہی دے کر شوہر کو مجرم ثابت کر سکتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے ، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کبھی اپنے شوہر پر جھوٹا الزام لگا کر یوں نہیں پھنسائے گی۔ ان کی فطرت میں رحم دلی ہوتی ہے۔ عورت کو محبت کرنے والے شوہر کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کا خیال رکھ سکے ۔ مرد چاہے کتنا ہی بُرا شخص کیوں نہ ہو ، اگر اپنی بیوی سے محبت سے پیش آئے تو بیوی کبھی شوہر کو غیر ضروری طور پر پھنسانے کا سوچے گی بھی نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض عورتیں صرف دولت چاہتی ہیں اور وہ شوہر سے محبت نہیں کر سکتی ، پیسہ جائیداد کی لالچ میں یا کسی دوسری وجہ سے مرد کو ایسے قانون کے سہارے پھنسا سکتی ہیں تو میرا خیال ہے یہ سب باتیں باطل ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ سب عورتیں محفوظ عنی الخطا ہیں یا صرف مرد ہی بُرا ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے ٹھیک سے پیش نہیں آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کہیں نہ کہیں بیوی کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ انہیں پیار سے سمجھا کر پوچھنے سے تمام مسائل کر حل ممکن ہے۔ بہر حال میرا موضوع میاں بیوی کے تعلقات نہیں، بلکہ شوہر کا ظالمانہ رویہ اور طلاق کا غلط استعمال ہے۔ ایسے مرد حضرات جو اپنی بیوی کو تین طلاقوں کی دھمکی دیتے ہیں اب انہیں اچھی طرح پتہ چل جائے گا کہ بیوی سے غلط پیش آنے کا کیا انجام ہوگا۔

کچھ احباب کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شوہر تین طلاق کی سزا کے ڈر سے طلاق نہیں دے سکے گا تو جب تک بیوی کے ساتھ ہوگا ، مسلسل اس پر ظلم کرتا رہے گا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ قانون میں ڈومسٹک وائلنس(گھریلو ظلم) کے خلاف قانون کے تحت عورت اپنی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کرا سکتی ہے۔ ایسے ظاہم شوہر کو پھر پولیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قصہ مختصریہ ہے کہ انڈیا میں خواتین کو اب مرد کے تین طلاق کےسائے تلے جینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسلم ومن پروٹکشن بِل 2017 خواتین کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف کسی پارٹی کی سازش نہیں سمجھنی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ پہلے سے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اب جا کر منظوری ملی ہے۔
گزارش ہے کہ اس تحریر کی اصل کاپی جہاں تھی وہیں رکھ دیں. میں نہیں چاہتا کہ اس لمبی بحث میں میرا آرٹیکل کہیں کھو جائے. شکریہ.
محمد تابش صدیقی
 
مجھے معلوم نہیں کہ احناف میں کس بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔

اس پر پہلے کافی بحث ہوچکی ہے کہ تین طلاق کا کیا حکم ہے اور اس میں کتنی ناپسندیدگی پائی جاتی یے۔ لیکن اگر آپ بات کرتے ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے احناف کے ہاں تین ہی کیوں واقع ہوتی ہیں؟ احناف کے ہاں اس کی بنیاد کیا ہے؟ تو بھائی اس کی لاجک تو بہت سمپل ہے کہ:
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شوہر کے ہاتھ میں چاقو ہے اور اس نے غصے میں بیوی کے پیٹ میں ڈال دیا
ایک چاقو سے ایک زخم آتا ہے اور تین سے تین ہی۔
اس پر اصولی نوعیت کی بحث کرنے والے ہم لوگ نئے نہیں ہیں بلکہ مسلکی نوعیت کے جزئی مسائل پر بحث سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہیں اور اس پر جانبین سے اتنا مواد موجود ہے کہ آپ کسی ایک جانب پر نہ کسی کو قائل کرسکیں گے اور نہ ہی یہ طلاق کے معاشرتی نقصانات کے سد باب کا فطری طریقہ ہوگا۔
جب ہم تین طلاقوں سے ہونے والے معاشرتی نقصانات کا سد باب کرنے جا رہے ہیں تو اس کے لیے "شعور اور تعلیم" کو مؤثر ذریعہ بنانا چاہیے نہ کہ مسائل کی تبدیلی کو۔ لوگوں میں شعور کو عام کیا جائے اور انہیں تحمل اور جذبات کو کنٹرول کرنے کی تعلیم دی جائے۔
آپ کا اور ہمارا مقصد ایک ہی ہے لیکن ہم اس سِرے سے زیادہ فائدہ ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مسلمان شروع سے بی جے پی کو انڈیا میں اپنا دشمن سمجھتے آئے ہیں۔ تین برس قبل ، جب سے اس پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے جی پی نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ انہیں خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں موب لنچنگ کے ذریعے گائے اور چوپایوں کا ٹرانسپورٹ کرنے والے غریب مسلم ٹرک ڈرئیوروں پر تشدد ہوتا رہا ہے ۔ جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی آزادی مل گئی ہے کیوں کہ حکومت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہے نہ سرکار ان کی خیر خواہ ہے۔ موب لنچنگ اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر مسلمان واقعی اس پارٹی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
صرف آپ کے بی جے پی والے جملے پر کچھ تبصرہ: اس کی وجہ یہ ہے کہ بھاج پا نے کامیابی سے polarization کی پالیسی اپنائی ہے۔ ہندوستانی مسلمان شروع ہی سے "مسلم ووٹ بینک" کی سیاست کا شکار تھے، سیکولر اور سو کالڈ سیکولر جماعتوں کو مسلم ووٹ بینک کے لیے مسلمانوں کو خوش رکھنا پڑتا تھا ۔ 2009ء میں لوک سبھا کی مسلسل دوسری شکست کے بعد بی جے پی نے ایک واضح پالیسی اپنائی اور 2012ء کے گجرات انتخابات میں اس کو اپنا کرٹیسٹ کر لیا کہ تھوڑے سے مسلم ووٹ بینک کو چھوڑ کر کثیر ہندو ووٹ بینک سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے سو اب وہ کسی مسلمان امیدوار کو علامتی طور پر بھی اپنا ٹکٹ نہیں دیتے اور مسلسل جیت رہے ہیں۔
 
Top