محمدظہیر
محفلین
سوئے اتفاق، آپ کی حالیہ رپورٹ مسترد کر دی گئی ہے: 'بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!' لڑی کا مراسلہ - اس موضوع پر تمام گفتگو ایک جگہ ہی ہو تو مناسب ہے۔مسلمان شروع سے بی جے پی کو انڈیا میں اپنا دشمن سمجھتے آئے ہیں۔ تین برس قبل ، جب سے اس پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے جی پی نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ انہیں خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کام کیا ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں موب لنچنگ کے ذریعے گائے اور چوپایوں کا ٹرانسپورٹ کرنے والے غریب مسلم ٹرک ڈرئیوروں پر تشدد ہوتا رہا ہے ۔ جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی آزادی مل گئی ہے کیوں کہ حکومت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہے نہ سرکار ان کی خیر خواہ ہے۔ موب لنچنگ اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر مسلمان واقعی اس پارٹی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع یہ پارٹی نہیں بلکہ خواتین اور تین طلاق پر بنائے گئے قانون پر اپنا موقف بتانا ہے، اس لیے میں حکومت میں بیٹھی پارٹی اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کیے بغیراس موضوع پر اپنے خیال کا اظہار کر رہا ہوں۔
پچھلے چار پانچ مہینوں سے طلاق پر زور و شور سےہمارے ملک میں بحثیں ہو رہی ہیں۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اس لیے نیوز پروگرام میں کانگریس و بی جے پی ممبران، مسلم رہنما، اور عورتوں کی نمائندگی کرنے والی غیر سرکاری اداروں کی خواتین کے درمیان بحثیں نہیں دیکھ پاتا۔ لیکن کبھی کبھار میں فرصت میں رہوں اور کوئی خبر نظر آ جائے تو یوٹیوب پر ایسی بحثیں دیکھ لیتا ہوں۔
سچ کہوں تو مجھے ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوتی نظر آتی ہے۔ میں صرف مسلم عورتوں کی بات نہیں کر رہا، عورت چاہے کسی بھی مذہب کی ہو ، انہیں ہمیشہ سے یہاں تکالیف سہنی پڑی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم دیگر مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے ۔ ہماری موجودہ صورتحال میں مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں۔
تین طلاقیں شادی شدہ مسلم خواتین کے گلے کے سامنے چھری کے جیسے ہمیشہ لٹکتی رہی ہیں۔ عورتیں بس اسی لیے خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں ان کا شوہر کسی بات پر غصے میں انہیں طلاق نہ دے دے۔مجھے یاد ہے ،جب میں نے پہلی دفعہ "نکاح" فلم کو دیکھا تھا۔ وہ طلاق کا منظر میری یادداشت میں اس طرح قید ہوا ہے کہ فلم کا وہ ڈائلاگ اب بھی یاد آجائے تو میں سہم جاتا ہوں۔ پتا نہیں ایسی اتھاریٹی شوہر کو کس نے دی ہے کہ عورت کو طلاق دے کر یوں بُری طرح گھر سے بے دخل کر دے۔
میں نے گزشتہ دنوں تین طلاق کی تاریخ جاننے کے لیے کچھ مطالعہ کیا ۔ سپریم کورٹ کی شاہرہ بانو اور دیگر تین کیس کی فائل میں مختلف جگہوں میں تین طرح کے طلاقوں کا ذکر ہوا ہے۔ طلاقِ احسن، طلاق ِحسن اور طلاقِ بدعت۔ میں نے مذہبی کتابوں کی طرف رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے کبھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا ۔ مسلمانوں کے چار بڑے مذاہب میں احناف کے پاس تین طلاق ایک وقت میں واقع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلم اکثریت حنفی مذہب کے مقلدہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ احناف میں کس بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔ میں نے یہ سنا ہے کہ صحابی رسول حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے میں تین طلاقوں کی ابتدا ہوئی ۔ سپریم کورٹ اکٹھی طلاقوں کو طلاقِ بدعت شاید اسی لیے کہتی ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے زمانے کے بعد مجلس کی تین طلاقیں وجود میں آئیں ۔اکثر احناف تین طلاق کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جاری ہونے کی وجہ سے اب بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بہر حال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ کس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔
انڈیا میں تین طلاق کے نئے قانون کے تحت شوہر اگر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ اگر نئے قانون کے تحت طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو شوہر کو کس بنیاد پر سزا دے رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شوہر کے ہاتھ میں چاقو ہے اور اس نے غصے میں بیوی کے پیٹ میں ڈال دیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ چاقو نقلی تھا ۔ عورت کی موت واقع نہ ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ شوہر مجرم نہیں ہے۔ اس نے جرم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس کو سز ا دی جا رہی ہے ۔
کچھ لوگ تین طلاق دینے والےمرد پر ضرورت سے زیادہ رحم کھا رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہو کہ عورت اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے ۔جھوٹی گواہی دے کر شوہر کو مجرم ثابت کر سکتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے ، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کبھی اپنے شوہر پر جھوٹا الزام لگا کر یوں نہیں پھنسائے گی۔ ان کی فطرت میں رحم دلی ہوتی ہے۔ عورت کو محبت کرنے والے شوہر کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کا خیال رکھ سکے ۔ مرد چاہے کتنا ہی بُرا شخص کیوں نہ ہو ، اگر اپنی بیوی سے محبت سے پیش آئے تو بیوی کبھی شوہر کو غیر ضروری طور پر پھنسانے کا سوچے گی بھی نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض عورتیں صرف دولت چاہتی ہیں اور وہ شوہر سے محبت نہیں کر سکتی ، پیسہ جائیداد کی لالچ میں یا کسی دوسری وجہ سے مرد کو ایسے قانون کے سہارے پھنسا سکتی ہیں تو میرا خیال ہے یہ سب باتیں باطل ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ سب عورتیں محفوظ عنی الخطا ہیں یا صرف مرد ہی بُرا ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے ٹھیک سے پیش نہیں آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کہیں نہ کہیں بیوی کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ انہیں پیار سے سمجھا کر پوچھنے سے تمام مسائل کر حل ممکن ہے۔ بہر حال میرا موضوع میاں بیوی کے تعلقات نہیں، بلکہ شوہر کا ظالمانہ رویہ اور طلاق کا غلط استعمال ہے۔ ایسے مرد حضرات جو اپنی بیوی کو تین طلاقوں کی دھمکی دیتے ہیں اب انہیں اچھی طرح پتہ چل جائے گا کہ بیوی سے غلط پیش آنے کا کیا انجام ہوگا۔
کچھ احباب کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شوہر تین طلاق کی سزا کے ڈر سے طلاق نہیں دے سکے گا تو جب تک بیوی کے ساتھ ہوگا ، مسلسل اس پر ظلم کرتا رہے گا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ قانون میں ڈومسٹک وائلنس(گھریلو ظلم) کے خلاف قانون کے تحت عورت اپنی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کرا سکتی ہے۔ ایسے ظاہم شوہر کو پھر پولیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قصہ مختصریہ ہے کہ انڈیا میں خواتین کو اب مرد کے تین طلاق کےسائے تلے جینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسلم ومن پروٹکشن بِل 2017 خواتین کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف کسی پارٹی کی سازش نہیں سمجھنی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ پہلے سے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اب جا کر منظوری ملی ہے۔
یہ میرا آرٹیکل میں نے خبروں میں شامل نہیں کیا تھا. میں نے اپنے آرٹیکل کے لیے علیحدہ لڑی کا تقاضہ کیا ہے. انتظامیہ چاہے تو اسے علیحدہ لڑی بنا کر مقفل کر دے. لیکن مجھے اس کے لیے علیحدہ لڑی چاہیے.