یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیےیہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
(ناصر کاظمی)
فقط توڑ کر مطمئن ہو نہ بلبل!
قفس صورتِ آشیاں اور بھی ہیں
(جگر مراد آبادی)
نجانے کن غم کے جگنوؤں کو چھپائے پھرتی ہے مٹھیوں میں
کئی دنوں سے اداس رہتی ہے ایک لڑکی سہیلیوں میں
نہاں ازو بہ رخش داشتم تماشائےنہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ انکو
ید بیضاء لیئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں
نہاں ازو بہ رخش داشتم تماشائے
نظر بہ جانب من کرد و شرمسار شدم
شرف
میری تبسم میری مسکان پر مت جا
بڑے دکھ لیے بیٹھا ھے یہ دل بیچارہ
( کاشف وارثی)
میں نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگنہاں ازو بہ رخش داشتم تماشائے
نظر بہ جانب من کرد و شرمسار شدم
شرف
انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبتوہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں)جگر مُراد آبادی (
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرواک بےبس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے توعندلیب شادانی
ونج قاصد یار دے بوہے کوں کھڑکاویں ہولے ہولےمتاں نندر ہووے میڈے دلبرکوں جگواویں ہولے ہولےجڈاں نندروں یار سجاک تھیوے، الواویں ہولے ہولےپچھے حال حویلہ شاکر دا سنڑواویں ہولے ہولے(شاکر شجاع آبادی)
شمشاد بھائی یہ بے ایمانی ہے۔ کچھ پوسٹ اوپر بھی آپنے یہی شعر لکھا ہے۔انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبتوہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں)جگر مُراد آبادی (
یہ جام نظر کی قسم ھے مجھے میں پیتا ھو لیکن شرابی نہیں
گٹھایئں نہ بہلا سکیں گی مجھے میں دیوانہ ھوں زلف دلدار کا