فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہ سکوں بھی نہیں
میری زباں کی لکنت سے بد گماں نہ ہو
جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملوں بھی نہیں
فراز جیسے کوئی دیا تربت ہوا چاہے ہے
تو پاس آئے تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں