یہی حرکت ہے پیجے کی تو پھر امید کیسے ہو
نئی جو صبح ہو روشن تو اس کی دید کیسے ہو
جہاں پرویز جیسا شخص مقرر ہو خباثت کو
وہاں اصلی عدالت سے تری تائید کیسے ہو
رضی اختر شوق کے تین شعر!
رنگ ہوں نقش گہہِ سنگ میں ہوں
اپنے چھرے کے لئے جنگ میں ہوں
تم تماشائی ہو دیکھے جاؤ
رنگ مجھ میں ہے کہ میں رنگ میں ہوں
اپنی وسعت سے پریشاں خاطر
یعنی اک پیرہنِ تنگ میں ہوں