بیت بازی

عمر سیف

محفلین
یہ جو پلکوں میں چھپا رکھے ہیں وہ آنسو نہیں
یہ وہ قطرے ہیں جو طوفاں میں سفر کرتے ہیں

جاوید اختر
 

عمر سیف

محفلین
یہی نہیں کہ خوشی کو گلے لگاتا ہوں
میں غمِ جاں کو سہنے کی تاب رکھتا ہوں
نوید آج بھی ہے خوشبوؤں ‌سے مجھ کو شغف
میں ہر کتاب میں اب بھی گلاب رکھتا ہوں
 

حجاب

محفلین
نئی رتیں ہیں نئے خواب ہیں اور چاہتوں کے سلسلے
سالِ نو کے سنگ ہیں تیری گلاب رفاقتوں کے سلسلے
 

حجاب

محفلین
ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رکتیں
بہت ارماں ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
نہ گلا کیا نہ خفا ہوئے، یونہی راستے میں جدا ہوئے
نہ تو بےوفا نہ میں بےوفا، جو گزر گیا سو گزر گیا
بشیر بدر
 
زندگی کیا ہے کبھی دل مجھے سمجھائے تو
موت اچھی ہے اگر وقت پہ آ جائے تو
مجھ کو ضد ہے، جو ملنا ہے تو فلک سے اترے
اسکی خواہش ہے کہ دامن کوئی پھیلائے تو
:?:
 
Top