بیت بازی

عیشل

محفلین
اپنی ہر اک شام ہر اک رات بیچ کر
اب آگیا ہے جینا ہمیں ذات بیچ کر
ہم بھی کیا عجب ہیں کہ کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر
 

عیشل

محفلین
اس دہر اضطراب میں سب کچھ ہے مضطرب
ہر لمحہ میں نے دیکھا یہاں چیختا ہوا
شاید کہ پھر بہا ہے کہیں آدمی کا خون
سورج نکل رہا ہے بڑا کانپتا ہوا
 

عمر سیف

محفلین
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے فرق تھا کتنا دونوں میں
اس کی باتیں یاد رہیں اور اس کا لہجہ بھول گئے
پیاسی دھرتی کے ہونٹوں پر میرا نام نہیں تو کیا
میں وہ بادل کا ٹکرا ہوں جس کو دریا بھول گئے
 

حجاب

محفلین
نہ میں پاس اُس کو بلا سکا
نہ میں دل کی بات سنا سکا
وہ ہنسی ہنسی میں ہی چل دیا
میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا۔
 

عمر سیف

محفلین
یادوں کی بوچھاڑ سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
کتنی سوہانی لگتی ہے تب مانجھی کی رسوائی بھی
 

عمر سیف

محفلین
اِک پشیماں سی حسرت سے مجھے سوچتا ہے
اب وہی شہرِ محبت سے مجھے سوچتا ہے
جس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا مُمکن ہونا
دُکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے مجھے سوچتا ہے
 
Top