بیت بازی

شمشاد

لائبریرین
اب کوئی امید ہے “ شاہد “ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے
(شاہد کبیر)
 

شمشاد

لائبریرین
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
(فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کہنا تو نہیں کافی، کہ بس پیارے لگے ہم کو
اُنہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو
 

شمشاد

لائبریرین
نہ شکائتیں نہ گلہ کرئے
کوئی ایسا شخص ہوا کرئے
جو میرے لیے ہی سجا کرئے
مجھ ہی سے باتیں کیا کرئے
(امجد اسلام امجد)
 

شمشاد

لائبریرین
ناصح یہ گلہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تُو کب میری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
(مومن)
 

الف عین

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصال کی رات
(فراز)
شمشاد یہ فیض تھے فراز نہیں۔ درست “وصل کی رات“ ہے۔

آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سوئے اُفق اے ہم سفرو!
لاکھوں رنگ نظر آئیں گے، تنہا تنہا دیکھو تم!
بانی
 

شمشاد

لائبریرین
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
(علی سردار جعفری)
 
Top