بے وقوفانہ بات جس پر آپ بچپن میں دل و جان سے یقین رکھتے تھے!

اس لڑی میں لکھنے کے لیے بہت مواد ہے۔ کسی روز وقت نکالیں گے۔

مقناطیس کے علاوہ یہ بھی یقین تھا کہ ٹیڈی پیسہ یا دس پیسہ رکھیں گے تو وہ روپیہ بن جائے گا۔ میں نے زیادہ نہیں تو نو دس بار اس چمتکار کے لیے کوشش کی ہو گی لیکن ٹرین گزر جانے کے بعد صرف ایک بار ہی سکہ مل سکا جو پہچانا بھی نہیں جاتا تھا۔
اس عمر میں آپ کو روپے کی پہچان نہیں ہوگی نا!
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

وعلیکم السلام
ماشاءاللہ آپ کے لطیفے بھی نصیحت آموز رہتے ہیں :)

رمضان کا مہینہ ہے بھائی اور یہ لطیفہ نہیں حقیقت سنائی ہے، اگر تفصیلی پیش کرتا تو بہت طویل ہو جانا تھا اس لئے مختصر انداز میں پیش کی۔

والسلام
 
السلام علیکم

بہت سے دوستوں نے جو باتیں لکھیں ان آزمائشوں سے ہم بھی گزرے جیسے ریل کی پٹری پر سکہ کا مقناطیس بننا اور حبیب گنج اور شیرانوالہ گیٹ لاہور کے درمیان ریل ٹریک پر تجربہ بھی کیا مگر مقناطیس بننا دور اٹھنی بھی نہیں ملتی تھی۔

ایک مرتبہ گھر کے دروزہ سے باہر نکل کر کھڑا ہوا تو ایک فقیر نے مجھے دیکھ کر کہا، "اللہ بادشاہ" توں وی وڈا ہو کے دولت مند بنے گا، پھر اس کے بعد اس نے کہا "میں تینوں ایک چیز دیاں گا جدے نال تیرے کول دولت ختم نئی ہووے گی" یہ سنتے ہی میں نے اسے کہا کہ دو، تو اس نے کہا کہ دروزہ کے اندر ہو جاؤ پھر وہ بیٹھ گیا اور گھٹری سے ایک ڈبیا نکالی اس میں سے بالوں والی ایک چیز نکالی اور کہا کہ یہ "گدھرسنگی" ہے اسے ڈبیا میں ڈال کر اس میں الائچیاں بھی ڈال کر دکھنا دولت ختم نہیں ہو گی، اس کے بعد اس نے پیسے مانگے تو اس دوران ہمارے گھر میں ایک خاتون آئی ہوئی تھیں انہوں نے جب مجھے پیسے نکلاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے فقیر کو ٹھڈے مارنے شروع کر دئے اور گھر سے باہر بھگا دیا اور منہ سے بربڑاتی بھی رہیں اور مجھے بھی سمجھایا، میں نے سوچا کہ انہوں نے دولت پر پانی پھیر دیا اور تھوڑی دیر بعد باہر نکلا تو فقیر باہر کھڑا تھا، جس پر مجھے جو یاد پڑتا ہے 15 یا 20 روپے دئے فقیر نے کہا "گدھر سنگی " بڑی مشکل سے حاصل ہوتی ہے اور پیسے دو مگر میں نے مزید نہیں دئے۔

وہ گدھر سنگی کو میں نے ایک زمانہ تک ڈبیا میں الائچیوں کے ساتھ ڈال کر مگر ایسا کچھ نہیں ہوا پھر ایک دن اس بالوں والی چیز کو الائچیوں سے باہر نکال کر سونگا تو عجیب سی سمیل تھی اور پھر اسے پھینک دیا۔ سمائل!






والسلام
یہ گدھڑ سنگھی کا لفظ محاورتا بھی بہت سن رکھا ہے ۔ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ محمد یعقوب آسی ، محمد وارث ، عبدالقیوم چوہدری
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

والدہ مرحومہ، گرمیوں میں ٹھنڈا پانی یا سکنجوین بنایا کرتی تھیں تو کیوڑہ کا ایک قطرہ بھی اس میں ڈالتی تھیں جس سے مشروب پیتے ایسا محسوس ہوتا جیسے روح کو سکون مل رہا ہے، جس پر میں اکثر سوچتا کہ اگر کیوڑہ زیادہ ڈالا جانے تو ذائقہ مزید زیادہ ہو، اور والدہ کو کہا کرتا تھا کہ کیوڑہ زیادہ ڈالا کریں جس پر وہ کیوڑا کی بوتل الماری میں اونچی جگہ پر رکھا کرتی تھیں،

ایسے ہی ایک دن والدہ بازار کچھ لینے گئیں تو میں نے کسی بھی طرح کرسی کر چڑھ کے بوتل پکڑ لی اور بڑے اطمعنان سے ڈھکن کھالا اور ڈآئریکٹ منہ میں لگا کر ایک گھونٹ لیا، اور زور سے چیخ ماری اور شیشی ہاتھ سے گر گئی اور واش بیسن کی طرف بھاگا اور کلیاں شروع کر دیں۔ سمائل

منہ خراب ہو گیا والدہ گھر آئیں تھوڑی ڈانٹ پڑی اور انہوں نے سمجھایا، کچھ دن تک منہ خراب ہی رہا۔

والسلام
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

یہ گدھڑ سنگھی کا لفظ محاورتا بھی بہت سن رکھا ہے ۔ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ محمد یعقوب آسی ، محمد وارث ، عبدالقیوم چوہدری

بھائی یہ تو اس وقت مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا چیز ہے جس پر بعد میں میں نے کچھ لوگوں سے اس پر معلومات حاصل کیں تو انہوں نے بتایا کہ گدھر سنگی اتنی آسانی سے ملتی نہیں ، جس فقیر نے تمہیں گدھر سنگی دی ہے وہ یقیناً بلی کی دم کا کوئی حصہ ہو گا جس پر زردی مائل رنگ کیا ہو گا اور الائچی میں ڈالنے کا اس لئے کہا کہ الائچی کی خوشبو دم دار چیز کی بدبو کو مار دے۔

والسلام
 
یہ گدھڑ سنگھی کا لفظ محاورتا بھی بہت سن رکھا ہے ۔ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ محمد یعقوب آسی ، محمد وارث ، عبدالقیوم چوہدری



السلام علیکم



بھائی یہ تو اس وقت مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا چیز ہے جس پر بعد میں میں نے کچھ لوگوں سے اس پر معلومات حاصل کیں تو انہوں نے بتایا کہ گدھر سنگی اتنی آسانی سے ملتی نہیں ، جس فقیر نے تمہیں گدھر سنگی دی ہے وہ یقیناً بلی کی دم کا کوئی حصہ ہو گا جس پر زردی مائل رنگ کیا ہو گا اور الائچی میں ڈالنے کا اس لئے کہا کہ الائچی کی خوشبو دم دار چیز کی بدبو کو مار دے۔

والسلام

گیدڑ سنگھی کیا ہوتی ہے؟کیا حقیقت کیا داستان!
اصلی اور نقلی گیدڑ سنگھی! گیدڑ سنگھی کی اقسام!


گیدڑ سنگھی یا جیکال ہارن طلسمان Jackal horn Talisman وہ مشہور زمانہ پراسرار طلسم ہے جس کے متعلق ہندوستان و پاکستان سے تعلق رکھنے والا ہر دوسرا شخص جانتا ہے۔ ایسا کیا راز چھپا ہے بالوں کے اس گچھے میں کہ ہر شخص اس کو حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے کے نیارے ہو جائیں۔ دولت کی برسات ہو اور تمام دلدر دور ہو جائیں۔ اسی جستجو اور لالچ میں اکثر لوگ ایسے شیطان بہروپیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر بھاری قیمت پر نقلی گیدڑ سنگھی فروخت کر دیتے ہیں۔ ان شاطروں نے نقلی گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر انتہائ ہوشیاری سے اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی کو اوزاروں اور ریتی کی مدد سے کاٹ کر ایک نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ مہارت کے ساتھ دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کردی جاتی ہے۔ کیونکہ عام لوگ اس کی اصل شکل صورت سے واقف نہیں اور نہ اصل اور نقل کی پہچان رکھتے ہیں اس لئے لالچ میں آ کر با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ تفصیل سے پڑھئے

اسی طرح کچھ بھیک مانگنے والے جوگی و سپیرے بھی لوگوں کو کیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ ورنہ سوچنے ی بات ہے کہ اگر ان کے پاس اصلی گیدڑ سنگھی ہوتی تو وہ خود خوشحال ہوتے اور دربدر بھیک نہ مانگ رہے ہوتے۔ علوم رواحانیات و علم سیمیا کے ماہرین کے مطابق گیدڑ سنگھی ایک ایسا زبردست طلسم ہے جس پر کسی قسم کے علم، عمل یا چلہ کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک ایسی انمول قدرتی چیز ہے کہ جس میں بے شمار طاقتور مخفی فوائد چھپے ہیں۔ اس کے اثرات اتنے سریع الاثر ہوتے ہیں کہ کچھ ہی عرصے میں کنگلے کے بنگلے بن جاتے ہیں۔ اسی لئے علم سیمیا کے ماہرین نے ہمیشہ اس علم کو مخفی رکھا اور نہ ہی کبھی اس پر کوئ کتاب لکھی۔

گیدڑ سنگھی برصغیر پاک و ہند کے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ یہ بھی ایک طلسم کی حیثیت رکھتی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جس کے پاسگیدڑ سنگھی ہو اس پر دولت کی بارش ہوتی ہے۔ اصلی جوگی حضرات کے بقول کوئ بھی اس وقت تک مکمل جوگی نہیں ہو سکتا جب تک اس کے پاس گیدڑ سنگھی اور سانپ کا منکا موجود نہ ہو۔ گیدڑ سنگھی کیا ہے؟ کیسے اور کہاں سے ملتی ہے؟ بالوں کے اس گچھے میں ایسا کیا راز پنہاں ہے کہ لوگ اس کو حاصل کرنے کے لئے منہ مانگی رقم دینے کو تیار رہتے ہیں؟
جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بے شمار پیڑ، پودے، پھل، پھول اور جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جو ہمارے لئے غذا بھی ہیں اور دوا بھی۔ جڑی بوٹیاں بے شمار طبی خواْص بھی رکھتی ہیں جو انسان کے لئے بے شمار فوائد کی حامل ہیں اسی طرح مختلف جانور اور ان کے مختلف اعضا بھی بے شمار خواص رکھتے ہیں۔ مختلف جانوروں کے منحوس اور مبارک ہونے سے متعلق بھی بے شمار واقعات اور تصورات
زمانہ قدیم سے آج تک موجود ہیں۔
عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں پائ جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسےسر ایک بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں۔ کچھ جوگی اس کو ایک ایسے گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ جس کو تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کو سور کے خون و دیگر کچھ اشیا سے بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گیدڑ سنگھی کو صرف دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس پوسٹ میں آپ کو گیدڑ سنگھی سے متعلق تمام اصلی اور تحقیق شدہ معلومات فراہم کی جائیں گی تاکہ تمام غلط فہمیاں دور ہو جائیں۔
نوائے افتخار : گیدڑ سنگھی کیا ہوتی ہے؟ کیا حقیقت کیا داستان!
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ گدھڑ سنگھی کا لفظ محاورتا بھی بہت سن رکھا ہے ۔ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ محمد یعقوب آسی ، محمد وارث ، عبدالقیوم چوہدری
جی بالکل، پنجابی میں تو یہ محاورہ عام استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کی اچانک کامیابی وغیرہ پر کہا جاتاہے کہ تیرے ہاتھ کونسی گیدڑ سنگھی لگ گئی ہے وغیرہ ۔
 
یہ گدھڑ سنگھی کا لفظ محاورتا بھی بہت سن رکھا ہے ۔ اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ محمد یعقوب آسی ، محمد وارث ، عبدالقیوم چوہدری
میں نے ایک بار گیدڑ سنگھی پر معلومات حاصل کرنے کے لئے علامہ گوگل سے مشورہ کیا۔ موصوف نے مجھے کچھ ویب سائٹس کا پتہ دیا۔ آپ بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

بہر کیف! پوری تفصیلات تو اس وقت ذہن میں نہیں۔ ادھر ادھر سے جمع شدہ معلومات کے مطابق:
گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے کسی بیر پر گھنے بال اگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کے لئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے؛ واللہ اعلم۔ ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا۔ اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں، یہ جعلی ہوتی ہیں۔ گیدڑ سنگھی کے بارے میں یہ بات مشہور کر دی گئی کہ یہ جس کے قبضے میں آ جائے اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ یہاں میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ چیز مال و دولت لاتی ہے تو یہ بھک منگوں کے پاس ہی کیوں ہوتی ہے؟ اور اگر اصلی ہوتی ہے تو وہ لوگ اسے اپنے پاس رکھ کر امیر کیوں نہیں ہو جاتے، حیلے بہانے سے اس کو بیچتے کیوں پھرتے ہیں۔ بات وہی ہے کہ ع: ”بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئے“۔

مشک کے نافے کے بارے میں بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک خاص نسل کے نر ہرن کے نافے پر ایک گلٹی سی بنتی ہے اور وہ بھی ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ تاہم اسے اتنی مفید اور نایاب چیز مانا گیا کہ میری سطح کا شخص اس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس (نافے) کو چیرنے سے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی خوشبو والا مرطوب سفوف حاصل ہوتا ہے جسے مشک کہتے ہیں اور اس کے کچھ حیرت انگیز طبی فوائد ہیں۔ سنتے ہیں کہ اِسے شاہانہ قسم کے کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

بہت آداب!۔
 
بہت عرصے تک قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے پاکستان بنانے کا مطلب یہ رہا کہ ہمارے شہر میں بنے ہوئے سارے مکانات انھوں نے خود بنائے ہیں۔ بعد میں کچھ اور زعما کے نام بھی علم میں آئے تو سوچ نے یہ کہا کہ شاید مکانات کی تعمیر میں یہ ان کے ساتھ مزدوری کرتے ہوں گے۔
 
جی بالکل، پنجابی میں تو یہ محاورہ عام استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کی اچانک کامیابی وغیرہ پر کہا جاتاہے کہ تیرے ہاتھ کونسی گیدڑ سنگھی لگ گئی ہے وغیرہ ۔
میں نے ایک بار گیدڑ سنگھی پر معلومات حاصل کرنے کے لئے علامہ گوگل سے مشورہ کیا۔ موصوف نے مجھے کچھ ویب سائٹس کا پتہ دیا۔ آپ بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

بہر کیف! پوری تفصیلات تو اس وقت ذہن میں نہیں۔ ادھر ادھر سے جمع شدہ معلومات کے مطابق:
گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے کسی بیر پر گھنے بال اگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کے لئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے؛ واللہ اعلم۔ ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا۔ اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں، یہ جعلی ہوتی ہیں۔ گیدڑ سنگھی کے بارے میں یہ بات مشہور کر دی گئی کہ یہ جس کے قبضے میں آ جائے اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ یہاں میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ چیز مال و دولت لاتی ہے تو یہ بھک منگوں کے پاس ہی کیوں ہوتی ہے؟ اور اگر اصلی ہوتی ہے تو وہ لوگ اسے اپنے پاس رکھ کر امیر کیوں نہیں ہو جاتے، حیلے بہانے سے اس کو بیچتے کیوں پھرتے ہیں۔ بات وہی ہے کہ ع: ”بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئے“۔

مشک کے نافے کے بارے میں بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک خاص نسل کے نر ہرن کے نافے پر ایک گلٹی سی بنتی ہے اور وہ بھی ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ تاہم اسے اتنی مفید اور نایاب چیز مانا گیا کہ میری سطح کا شخص اس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس (نافے) کو چیرنے سے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی خوشبو والا مرطوب سفوف حاصل ہوتا ہے جسے مشک کہتے ہیں اور اس کے کچھ حیرت انگیز طبی فوائد ہیں۔ سنتے ہیں کہ اِسے شاہانہ قسم کے کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

بہت آداب!۔
یعنی توہم پرستی سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یعنی توہم پرستی سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اس کی حیثیت واقعی توہم پرستی سے کچھ زیادہ نہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے مجھے بھی کسی نے یہ چیز بیچنے کی کوشش کی تھی، عجب گندے سے بال تھے، مجھے تو اسے دیکھ کر ہی کراہت ہونے لگی تھی، ہاتھ لگانا اور خریدنا تو دور کی بات ہے۔
 
اس عمر میں آپ کو روپے کی پہچان نہیں ہوگی نا!
اس پر ایک بات یاد آئی، اس کا تعلق غالباً بائیو کیمیکل طریقۂ علاج سے ہے۔
پٹڑی سے ریل گاڑی گزری ہی ہو تو پٹڑی پر مقناطیس شدہ گرم گرم ذرات رہ جاتے ہیں۔ پٹڑی پر زبان لگا کر ان کو زبان پر لینا ہے۔ احتیاط رہے کہ ایک تو پٹڑی بہت گرم نہ ہو کہ زبان پر چھالے بن جائیں، دوسرے ان نادیدہ ذرات کو چاٹنا نہیں ہے، یعنی زبان پٹڑی سے مس کرے تو اٹھا لیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے خون میں ایل ڈی ایل کم ہو جاتا ہے۔
مزید: بائیو کیمیکل کے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔
 
بچپن میں میں سمجھتا تھا کہ چائے کپ کے ساتھ پرچ اس لئے دی جاتی ہے کہ چائے پرچ میں ڈال کر ٹھنڈی کر کے پی لی جائے :)
آج کل بہت سے لوگ سمجھتے تو پتہ نہیں کیا ہیں مگر پرچ کو استعمال چائے ٹھنڈا کرنے کے لئے ہی کرتے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بچپن میں جب نماز پڑھنے کا آغاز کیا تھا تو قبلہ رخ کی نشانی یہ رکھی کہ جس طرف الماری پڑی ہے اس طرف قبلہ کا رخ ہو گا۔ نانی اماں کے گھر گئے تو اتفاقاً وہاں بھی الماری موجود تھی لیکن قبلہ رخ نہ پڑی تھی۔ ہم نے اپنے "عقیدے" کے مطابق الماری کی طرف ہی جائے نماز بچھا لیا۔ نانی اماں نے بتایا کہ قبلہ رخ دوسری طرف ہے۔ ہم نے کہا لیکن الماری تو اس طرف پڑی ہے۔ نانی اماں فرماتی ہیں کہ اگر کمرے میں الماری نہ ہوتی تو کیا کرتیں؟؟ :)
 
Top