ہوتے ہوں گے۔۔۔ لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے قائل ہیں۔اور اسی کے مطابق اپنے اعمال کی درستگی کرتے ہیں۔
الحمد للہ ۔۔ ہم شاعروں کی پیروی نہیں کرتے۔ وہ کوئی انہونیاں تو لکھتے نہیں ہیں۔ ایک عام انسان جس بات کو نثری طور پہ بیان کرتا ہے، شاعر اگر اس بات کو منظوم طور پر کہہ دے تو اس میں قباحت کیا ہےَ؟
اگر کسی معاملے کا مضمون ہی غلط ہو تو پھر وہ چاہے نثری ہو یا منظوم، ہر دو صورت میں ٖغلط اور قابلِ اعتراض ہے۔
شعراء احساس کو بیان کر کے اس کا نتیجہ مجازی یا دنیاوی نکالتے ہیں جس سے انسان اس دنیا سے بلند نہیں ہو پاتا اور دائمی مریض غم بن جاتا ہے۔
یہ دیکھیں
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
یہاں حال کی رونق کسی کے دیکھنے سے بھی فرو نہ ہوئی۔ یعنی لا متناہی غم کی وادی ہے جو محض بھٹکنے کے لیے ہے۔
پھر کہتے ہیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یعنی رنج سے نجات ان سے خوگر ہونے میں ہے۔ کیا شدید کڑواہٹ اور کالک ہے اس شعر میں جو پڑھنے والے کو غم زدہ کر دے۔
اسکے برعکس مثنوی مولانا روم کے اشعار ہیں۔ جن سے طبعیت میں لطیف سی تازگی پیدا ہوتی ہے۔
آپکا سوچنے کا محل یعنی قلب جب تک اس غم کے بھنور لامتاہی سے نہیں نکلے گا تب تک لاکھ راجو پالیں اور سینکڑوں دعوتیں کر لیں چوٹ اور دوائیں ہی آپ کے حصے میں آئیں گی۔ آپ کے قلب میں اللہ کی محبت کی لطیف روشنی کی ضرورت ہے۔ ورنہ فی الحال قہقہ لگانے سے قلب کی تاریکی بڑھے گی۔ جس سے حادثات میں اضافہ ہو گا۔