ہمارا کام تو نام لینا تھا، سو ہم نے لے لیے ۔۔۔ تفصیلات میں جانے کا محل نہیں حضورِ والا! ۔۔۔ ان پارٹیوں کی جن کم زوریوں کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں، کم و بیش وہی کم زوریاں تحریک انصاف میں بھی ہیں ۔۔۔
اب اتنی بڑی ڈنڈی کی تو کم سے کم آپ سے توقع نہیں تھی مجھے۔
پیپلز پارٹی جب شروع ہوئی تو اس میں بھی بڑے بڑے نام تھے اور لوگ تبدیلی کے نعرے پر جوق در جوق اس پارٹی میں جمع ہوئے تھے ۔ شروع میں کئی انقلابی کام بھی ہوئے اور بہت سی نئی چیزوں کی بنیاد بھی ڈالی گئی مگر اب اس چیز کو کئی عشرے ہو گئے ہیں۔
اب عشروں کی روایتی سیاست اور اصل مقصد سے ہٹے بھی ان پارٹیوں کو عشرے بیت گئے ہیں اور ان کی کمزوریاں اب کمزوریاں نہیں بلکہ خطائے عظیم اور مرقع اغلاط بن چکی ہیں۔ ان میں اگر کوئی پرانا اور کام کا بندہ رہ گیا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ اب وہ کسی اور پارٹی میں جانے اور جگہ بنانے کی یا تو ہمت نہیں کر پا رہا یا اب وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہ کر ان پارٹیوں کی سوچ سے مفاہمت کر چکا ہے۔
بے پناہ فرق ہے تحریک انصاف اور ان موروثی پارٹیوں میں جن میں پارٹی چیئرمین ایک شہنشاہ سے کم کا درجہ نہیں رکھتا جس کا کہا ہوا پارٹی میں قانون کا درجہ رکھتا ہے جو اختلاف کرتا ہے وہ نہ پارٹی میں جگہ پاتا ہے نہ کسی اہم عہدے پر۔ اپنے خاندانوں ، عزیزوں اور دوست احباب کو نوازنے کا جو بے مثال سلسلہ ان پارٹیوں نے شروع کیا ہوا ہے اس کی مثالیں ذرا تحریک انصاف میں بھی دکھائیں۔
ابھی اقتدار پر نہیں پہنچی مگر عمران خان نے اپنے بہنوئی اور کزن کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس پر وہ ان کے خلاف ہوئے پڑے ہیں بلکہ اپنے بدترین مخالف کے بیٹے کو ترجیح دی کہ پارٹی کا یہی فیصلہ تھا۔ اس کے قریب قریب کی بھی کوئی مثال آپ ان شاہی پارٹیوں میں دکھائیں ذرا ۔
ایک ہی جملے میں سب کو لپیٹنے کی جس تن آسانی اور صرف حقیقت کے ہم لوگ عادی ہو چکے ہیں اس سے ذرا بلند ہونے کی ضرورت ہے۔
کتنی دولت ان لوگوں کی ملک کے اندر موجود ہے اور کتنی ان کے اپنے نام پر ہے اور کتنا ٹیکس یہ لوگ دیتے ہیں۔
عمران کا ٹیکس ریکارڈ اور اثاثے ظاہر ہیں ، کیا زرداری ، شریف برادران اور باقی لوگ اس قدر جرات مند اور فرض شناس ہیں ؟
پھر یہ کہنا کہ سب ایک جیسے ہیں کس قدر ناانصافی اور تساہل سے کام لینے والی بات ہے کہ ایک جماعت معیار مقرر کر رہی ہے اور اس کے لیے اس کی قیادت اپنے عمل سے مثال بن رہی ہے اور اسے ان لٹیروں کے ساتھ ملا کر ایک ہی جملہ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کیا فرق ہے ان میں اور تحریک انصاف میں۔
اگر اب بھی آپ کو فرق نظر نہیں آ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتیوں کا نظریہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بھی اپنے لیڈر اور قائدین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ باقی سب بھی ایسے ہی ہیں ، فرق کیا ہے اس لیے ہم انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے کہ حقیقی تقابل اعداد و شمار سے کرکے دیکھا جائے کہ کون اپنے دعوی میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔