یہ تو مجھے بہت خوش لگ رہا ہے 🙂
واقعی؟ میری تو دُور کی نظر کمزور ہے۔یہ تو مجھے بہت خوش لگ رہا ہے 🙂
منے میاں جو کہ پنجرے میں تشریف فرما ہیں انہیں موبائل سے کھیلنے کی لت لگی ہوئی ہے۔ پہلے جب بھی بے چارہ موبائل سے کھیلنا شروع کرتا امی جان الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح پہنچ جاتیں اور پھر منے میاں کی لتر پریڈ شروع۔ شروع شروع میں تو منے میاں بہت حیران ہوئے کہ آخر مخبری کرتا کون ہے۔ جب اُسے پتا چلا کہ یہ ننھا سا پر ندہ ہی امی جان کا جاسوس ہے۔ منے میاں نے بہلا پھسلا، دانا دنکا ڈال ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا کر اسے بھی موبائل کی عادت پڑوا دی۔ اب دونوں ہر وقت موبائل پر گیمیں کھیلتے رہتے ہیں۔ اسی لیے تو افتخار عارف نے کہا تھا 😜
اور ایجاد، ضرورت کی صاحبزادی ہیں۔ضرورت ایجاد کی امی جان ہے۔
ہمارے ملک میں تو جو جو کچھ نظریۂ ضرورت کے تحت کیا گیا ان کی صاحبزادیاں یعنی کہ ایجادات تو بڑی ہی پھوہڑ، کام چور اور ٹَھگنیاں نکلیں۔اور ایجاد، ضرورت کی صاحبزادی ہیں۔
اور صاحبزادے؟ہمارے ملک میں تو جو جو کچھ نظریۂ ضرورت کے تحت کیا گیا ان کی صاحبزادیاں یعنی کہ ایجادات تو بڑی ہی پھوہڑ، کام چور اور ٹَھگنیاں نکلیں۔
ایجاد تو ہوئی صاحبزادی۔۔اور صاحبزادے؟
اور گنگنا رہے ہونگے ۔۔۔۔ قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ اکمل زیدی ہیں۔ جب موقع ملتا ہے، گھر والوں بلکہ والی کی نظر بچا کر پرندے سے سازباز کرتے ہیں کہ تم ذرا دو چار اڑانیں بھر کے آؤ ۔ بلکہ لگے ہاتھوں "اس" سے ملاقات کر آؤ ۔ جب تک میں اردو محفل کی سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کر لوں۔ لیکن پرندہ بھی اکمل زیدی کی صحبت میں رہ کر کافی محفلین ، محفلین ہو گیا ہے۔ اوپر بیٹھا علی وقار کی لڑی پڑھ رہا ہے۔ اندر بھابھی یہی سوچ کے مطمئن ہیں کہ زیدی صاحب ان کی سہیلیوں کے لیے سموسے اور جلیبیاں بس لاتے ہی ہوں گے۔
حق ہا! پیاری بھابھی! ہماری سوکھی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔
جیسے ہی بھابھی باہر آئیں تو پرندہ ڈر کے مارے اندر (پنجرے میں) اور زیدی صاحب باہر (گھر سے) ہوں گے۔
دیکھا ہے جو کچھ میں نے !تصویر برائے تبصرہ!
بہت ہی زیادہ خوش ہے بھیا😊😊😊😊😊یہ تو مجھے بہت خوش لگ رہا ہے 🙂
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو،کہ جہاںتصویر برائے تبصرہ!
وہ اہلِ نظر جنہیں اپنے لیڈر کی بصیرت پر اندھا اعتماد ہوتا ہے۔تصویر برائے تبصرہ!
یہ بھی آپ نے اچھا کیا کہ "سیاست" کے بعد "دانوں" کا اضافہ نہیں کیا ورنہ لفظ انتہائی محدود ہو جاتا 🙂وہ اہلِ نظر جنہیں اپنے لیڈر کی بصیرت پر اندھا اعتماد ہوتا ہے۔
پاکستانی سیاست سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔
آنکھوں والوں نے اپنی آنکھیں بند کرکے اندھے کو راہنما بنالیا ہےتصویر برائے تبصرہ!
اسے بھی تبصرے کے قابل سمجھا جائے۔
ازل سے بے سمت جستجو کا سفر ہے درپیش پانیوں کو