سید عمران
محفلین
یہاں یہ لوگ دین سننے آئے بھی نہیں ہیں...دین میں اس بارے میں بھی ہدایات موجود ہیں جو یہاں شیئر کرنا مناسب نہیں۔
ساری جنگ دین مخالفت ہی کی ہے!!!
آخری تدوین:
یہاں یہ لوگ دین سننے آئے بھی نہیں ہیں...دین میں اس بارے میں بھی ہدایات موجود ہیں جو یہاں شیئر کرنا مناسب نہیں۔
یہ ہوئی نا بات زمینی حقائق کے مطابق!!!جاسم بھیا کے دین میں غالباً نہیں ہے اور استحصال پر یہ اقوامِ متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
کبھی آؤ نا پشاور خشبو لگا کے ہوتا ہے!!!یہ کیا ہوتا ہے؟
جی آ، جی آ !!!دینِ اسلام میں تو نہیں کہلاتا۔
کیا آپ کسی اور مذہب کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں؟
ارے بھائی ! تو میں کب محروم کر رہا ہوں ۔ میں تو صرف پوچھ رہا تھا ۔ آپ تو برا مان گئے ۔اگر اسلام میں یہ تمام ذمہ داریاں مرد کی ہیں تو بھی اس کے بدلہ میں عورت کو اپنے consent کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بیوی بھی ایک جیتی جاگتی جذبات رکھے والی انسان ہے۔ خاوند کی زر خرید غلام یا باندی نہیں جو اس کے لئے ہر وقت راضی بالرضا ہو۔
آپ نے جواب نہیں دیا ! کیا بیوی اپنے نان نفقے کی خود ذمہ دار ہے ؟ارے بھائی ! تو میں کب محروم کر رہا ہوں ۔ میں تو صرف پوچھ رہا تھا ۔ آپ تو برا مان گئے ۔
عورت بے شک مرد کی زر خرید باندی نہ ہو لیکن خدا کی پیدائشی باندی ہے...اگر اسلام میں یہ تمام ذمہ داریاں مرد کی ہیں تو بھی اس کے بدلہ میں عورت کو اپنے consent کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بیوی بھی ایک جیتی جاگتی جذبات رکھے والی انسان ہے۔ خاوند کی زر خرید غلام یا باندی نہیں جو اس کے لئے ہر وقت راضی بالرضا ہو۔
اگر مغربی تہذیب کا پوچھ رہے ہیں تو یہاں مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ چونکہ ہر عورت یہاں اتنی ہی تعلیم یافتہ، باشعور اور قانونی درجہ رکھتی ہے جتنا کہ مرد اس لئے اسے اسلامی تہذیب کی طرح اپنے نان نفقے کیلئے مردوں کی محتاجی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی، کام کاج کے انتخاب میں بھی مردوں کی طرح مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہوتی ہے۔آپ نے جواب نہیں دیا ! کیا بیوی اپنے نان نفقے کی خود ذمہ دار ہے ؟
اقوام متحدہ
مغربی تہذیب
عیسائیت
یہودیت
ان چاروں عناصر کا کیا جواب ہے ؟
کھانا گرم کرنے کے لیے!!!ہمممم اچھا کس لیے باہم رضامندی؟
اگر مسلم عورتیں اس ایمان کی وجہ سے consent نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا جسم خاوند کی نذر کر دیتی ہیں تو اسے انسانی حقوق کا چارٹر زنا بالجبر ہی سمجھتا ہے۔اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لئے بلائے اور وہ عورت انکار کر دے۔ اور پھر شوہر اس کے انکار کی وجہ سے رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں (بخاری و مسلم)
بہت اچھی ہے!!!
انہوں نے بھی کسی مارچ کو بدنام کیا تھا؟؟؟یعنی ننانوے پوائنٹ پانچ فیصد کی وجہ سے سارا مارچ بدنام
یوسفی صاحب کی یاد آگئی
اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین
نہ جانے سیدھے سادے کی کیا تعریف ہے تمہارے یہاں!!!م حمزہ بھائی بہت دنوں..
مزاج کیسے ہیں؟
میری شادی ان شاء اللہ بہت جلد ہے.
بگڑا لڑکا امام بن جاتا ہے میرے جیسے سیدھا سادہ تو انجوائے کرتا ہے شادی کو
سب سے بہتر انسانی حقوق وہی ہیں جو انسان کو پیدا کرنے والے نے انسان کو دئیے ہیں!!!اگر مسلم عورتیں اس ایمان کی وجہ سے consent نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا جسم خاوند کی نذر کر دیتی ہیں تو اسے انسانی حقوق کا چارٹر زنا بالجبر ہی سمجھتا ہے۔
جو حق حقوق اسلام نے عورت کو دئے ہیں وہی پوری طرح مل رہے ہوتے تو پاکستان میں کسی عورت مارچ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس لئے اب مسلمانوں کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگاکہ جتنا وقت وہ اپنے عقائد کی درستگی میں صرف کرتے ہیں ، اس کی بجائے وہ صرف اسے اپنے دین پر عمل کرنے میں لگا دیتے تو ان کے معاشرے واقعتا جنت نظیر بن سکتے تھے۔ہم سب مسلمان ہیں۔
ہمارا دین اسلام ہے۔
لیکن کیا دین اور خدا کی فرمانبرداری ہماری پہلی ترجیح ہے؟
چلیں ہم گناہ گار لوگ ہیں۔ دین پر عمل کرنے میں کمزور ہیں، اللہ ہمیں معاف کرے اور دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
لیکن اس بے عملی کے باوجود یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے عقائد درست ہوں، کانسیپٹس کلیئر ہوں۔ ہم ذہنی بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔
دین پر عمل کرنے میں ہم کمزور سہی لیکن شریعت پر انگلیاں نہ اٹھائیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھییہاں تو یہ حال ہے کہ ہم خدا کو بزبانِ حال یہ بتا رہے ہیں کہ آپ نے اپنے دین میں عورت کو جو حقوق دیے ہیں، وہ ناکافی ہیں۔
ہم ڈھکے چھپے لفظوں میں خدا سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب انسان نے بہت ترقی کر لی ہے۔ دنیا بھر کے عالی دماغوں نے سر جوڑ کر انسانی حقوق کا ایک چارٹر تیار کیا ہے۔
اے خدا! یہ چارٹر کئی پہلوؤں میں آپ کی شریعت سے متصادم ضرور ہے لیکن یہ چارٹر آپ کے دین سے افضل ہے کیونکہ اس پر تمام اقوامِ عالم کا اتفاق ہے۔
اے خدا! ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب ہم اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں، اس لیے اے خدا! ہمیں اپنی غلامی کے بندھن سے آزاد کیجیے۔
عقائد کی درستگی بار بار کا نہیں بس ایک بار کا کام ہے،جو حق حقوق اسلام نے عورت کو دئے ہیں وہی پوری طرح مل رہے ہوتے تو پاکستان میں کسی عورت مارچ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس لئے اب مسلمانوں کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگاکہ جتنا وقت وہ اپنے عقائد کی درستگی میں صرف کرتے ہیں اگر وہ صرف اپنے دین پر عمل کرنے پر لگا دیتے تو ان کے معاشرے واقعتا جنت نظیر بن سکتے تھے۔
ویری گڈ! تو آپ بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی نکلے۔ ملائیے ہاتھ۔آپ بیشک اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر ایک طرف رکھ دیں۔ لیکن جو حق حقوق دین اسلام نے عورت کو 14 سو سال قبل دئے ہیں۔ کم از کم ہو تو پوری طرح عورتوں کو دیں تاکہ وہ مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اولٹ پٹانگ مارچز کا سے سے انعقاد ہی نہ کریں۔
ویری گڈ! تو آپ بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی نکلے۔ ملائیے ہاتھ۔