خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

م حمزہ

محفلین
م حمزہ بھائی بہت دنوں..
مزاج کیسے ہیں؟
میری شادی ان شاء اللہ بہت جلد ہے.
بگڑا لڑکا امام بن جاتا ہے میرے جیسے سیدھا سادہ تو انجوائے کرتا ہے شادی کو
عبد اللہ بھائی! الحمد للہ۔ بالکل ٹھیک ہوں آپ کی دعاؤں سے۔

اللہ آپ کی زندگی کو خوشیوں سے بھردے۔

وہاں تو عورتیں مارچ کرتی ہیں۔ کون سے حقوق کیلئے، وہ جانتی ہیں۔

یہاں عورت کیا مرد بھی مارچ نہیں کرسکتے۔ اسی لیے آپ سے دور رہا ہوں۔
 

م حمزہ

محفلین
جاسم محمد صاحب! آپ کو نہیں لگتا کہ محفل پر بس آپ ہیں جو عورتوں کے "حقوق" کیلئے ثابت قدمی سے لڑ رہے ہیں؟

پتا نہیں آپ ایسے ایسے مضامین کہاں سے کھنگال کھنگال کر لاتے ہیں۔

چلئے چھوڑیے اب یہ لڑائی یہاں ہی رہنے دیں۔ اب کچھ نیا سوچیے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
شوہر سے گھن آئے تو۔۔۔
06/03/2020 عفت نوید

میرا جسم میری مرضی

میرا جسم، میرا اختیار، میرا حق، میری خوشی، میری خواہش، میری سہولت۔

میرا جسم میری مرضی

کسی بھی انسان کی خواہش پر خواہ وہ میرا شوہر ہی کیوں نہ ہوں میں اپنے بنیادی حق سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔

عورت اور مرد کچھ نہیں دونوں کے بنیادی حقوق کا احترام ہونا چاہیے۔

میرا جسم میری مرضی

میں اپنی سہولت اور ماحول کے مطابق اپنے جسم کو ڈھانپنے کے لیے لباس کے انتخاب کا فیصلہ خود کر سکتی ہوں۔

اپنے لیے لباس کے انتخاب کا حق صرف مجھے ہے۔

میرا جسم میری مرضی

اس احتجاج میں جانے کتنی زیادتیوں، اور زنا بالجبر کی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔

میرا جسم میری مرضی

افسوس اس احتجاج کوکچھ ذہنوں نے وہی سمجھا جو ان کے اندر ہمیشہ سے پوشیدہ ہے، اورجو ان کی اخلاقی گراوٹ کی آئنہ دار ہے۔ اس نعرے کو مقدور بھر ذہنی خرافات کے مطابق معنی دیے گئے۔

میرا جسم میری مرضی

ماروی سرمد نے واضح طور پر شوہر کے لئے کہا کہ اسے جسم تک رسائی دوں یا نہ دوں میری مرضی۔

ماروی سرمد کے اس جملے میں شوہر کی نا فرمانی یا فحاشی کا کوئی پہلو نہیں، اور یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں، ہمارے ہاں کتنی عورتیں اپنی مرضی، خوشی اورخواہش کے بغیر یہ فرض توہاً و کرہاً انجام دیتی ہیں۔

میرا جسم میری مرضی

یہ بات عین اسلامی تقاضوں اور ہمارے نبی کے ایک انصاف پسندانہ فیصلے کی عکاس ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار آخری نبی کے پاس ایک عورت اپنے شوہر سے خلع کی درخواست لے کر آئی۔ آپ نے فرمایا، تمہارا شوہر تمہارا خیال نہیں رکھتا، کھانے پینے کو نہیں دیتا، محبت نہیں کرتا، ضروریات کا خیال نہیں رکھتا؟ اس عورت نے بتایا کہ وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے، اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ اس حوالے سے اسے کوئی شکایت نہیں۔ آپ نے سوال کیا پھر تم اس کے ساتھ کیوں رہنا نہیں چاہتیں۔ اس عورت نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ مجھے اس سے گھن آتی ہے۔ آپ نے اس کے شوہر سے اسے آزاد کر دیا۔

اس تاریخی فیصلہ کی روشنی میں عورت کی خلع کی درخواستوں کو منظور کرنے کے لیے ججز کو کسی دلیل اور وکیل کی ضرورت نہیں رہتی۔

عورت کو اپنے شوہر سے گھن آئے تو وہ کہہ سکتی ہے۔

میرا جسم میری مرضی۔

میں تمہارے قریب نہیں آسکتی۔

مجھے تم سے گھن آتی ہے۔

میرا جسم میری مرضی


اس کے بجائے جو نعرہ یہ ہوتا کہ میرا جسم تیری مرضی۔

سوچتی ہوں تب منہ سے جھاگ اڑانے کے بجائے ایک خاص حظ اٹھایا جاتا۔ دعوت عام کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔

میرا جسم میری مرضی

، شکر مناؤ کہ اس نعرے کی گونج ابھی مدھم ہے۔ آبھی تو آدھی عورت نے بھی اسے آدھا ہی لیا ہے۔ جس دن پوری عورت نے اس نعرے کو کو پوری طرح جان لیا اور نبی کے انقلابی فیصلے کے تحت تم سے گھنیانا شروع کر دیا تو اگاؤ گے کیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا عورت مارچ والوں / والیوں نے اپنا منشور یا اغراض و مقاصد تحریری شکل میں پیش کیے ہیں؟
جی یہاں پڑھ لیں:
عورت مارچ کی تیاریاں، 15 نکاتی منشور جاری
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا مارچ 06, 2020
155E3B54-81B9-47FB-BEB4-E491C355337E_w1023_r1_s.jpg

(فائل فوٹو)
لاہور —
آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی تیاریاں جاری ہیں۔ خواتین منتظمین پرامید ہیں کہ اس سال 'عورت مارچ' میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ خواتین شریک ہوں گی۔

لاہور کی مقامی انتظامیہ نے تاحال عورت مارچ کی باضابطہ اجازت نہیں دی۔ لیکن اس کے انعقاد کے لیے خواتین پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔

عورت مارچ کے لیے سرگرم کارکن لینا غنی کہتی ہیں کہ اُنہوں نے آٹھ مارچ کی ریلی کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ لیکن ابھی تک اس پر کارروائی نہیں ہوئی۔

لینا غنی نے بتایا کہ عورت مارچ کے لیے وہ کسی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتیں بلکہ تمام خواتین خود فنڈز اکٹھے کرتی ہیں۔

عورت مارچ کی منتظمین نے بتایا کہ اِس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اُن کا منشور 15 نکات پر مشتمل ہے۔ جس کے تحت ایک ایسے معاشرے کا مطالبہ کرنا ہے جس میں خواتین کو عزت دی جائے۔ اُن کا استحصال نہ کیا جائے۔

منشور کے مطابق 2020 کے عورت مارچ کے مقاصد میں خواتین کی معاشی خود مختاری، صحت، تعلیم اور نظام عدل میں اُنہیں بااختیار اور خود کفیل بنانا شامل ہے۔ منشور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خواتین کو اپنے جسم پر خود مختاری ہو۔

منشور میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد جیسے جرائم کو روکنے کے لیے اِسے پاکستان بھر میں غیرقانونی قرار دیا جائے۔ اور تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد روکنے کے لیے خود مختار کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔ عورت مارچ منشور میں اِس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی اور تحفظ کے نام پر طلبہ کی نگرانی اور ریاستی اداروں کی مداخلت ختم کی جائے۔


846E8C69-15CB-4811-88DB-168002809DA8_w650_r1_s.jpg

عورت مارچ میں شرکت کا ارادہ رکھنے والی ڈاکٹر ویرتا علی کہتی ہیں کہ عورت مارچ کی مخالف کرنے والے افراد کی اخلاقیات تب کہاں ہوتی ہے جب خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ویرتا علی نے 'میرا جسم میری مرضی' کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اِس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے سانس لے۔ عورت اپنا تحفظ کر سکے، وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ باہر جانا چاہیں تو تحفظ کے ساتھ باہر جائیں، اگر وہ کام کرنا چاہیں تو تحفظ کے ساتھ کام کر سکیں، یہ ایک سادہ سی بات ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ 'میرا جسم میری مرضی' کی مخالف کرنے والوں پر ہم غضہ کیوں نہ کریں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 96 فی صد خواتین جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔ آئے روز پاکستانی خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عورت مارچ کے منتظمین کے ساتھ ریلی کے روٹ اور سیکیورٹی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک 'کوڈ آف کنڈکٹ' ریلی کے منتظمین کے حوالے کیا گیا ہے۔ جس میں اُنہیں پابند کیا گیا ہے کہ کوئی نفرت انگیز مواد یا تقریر نہیں ہو گی۔

اُن کے بقول اگر وہ اِس سے اتفاق کرتی ہیں اور اپنے دستخط کر کے دے دیتی ہیں تو مارچ کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اعلٰی عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عورت مارچ کا ممکنہ روٹ شملہ پہاڑی لاہور سے براستہ ایجرٹن روڈ الحمرا ہال ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے عورت مارچ کےخلاف دائر درخواست کو مسترد کر کے اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے تحت کسی بھی ریلی کو نہیں روکا جا سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مارچ میں ایسے پلے کارڈز نہ ہو جس سے کسی کے جذبات مجروح ہو۔

یاد رہے گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ کو لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے نام سے ریلیاں نکالی گئیں تھیں۔ جس میں شریک خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے پوسٹرز اور بینرز کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک سوال -
یہ مارچ کی جدو جہد کرنے والے ان اقدامات کے خلاف ہیں جو چھوٹی بچیوں اور بچوں وغیرہ سے جسمانی زیادتی وغیرہ کے قوانین کو سخت تر کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں ۔
اس میں کہاں تک صداقت ہے ؟
 

جاسمن

لائبریرین
جو حق حقوق اسلام نے عورت کو دئے ہیں وہی پوری طرح مل رہے ہوتے تو پاکستان میں کسی عورت مارچ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس لئے اب مسلمانوں کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگاکہ جتنا وقت وہ اپنے عقائد کی درستگی میں صرف کرتے ہیں ، اس کی بجائے وہ صرف اسے اپنے دین پر عمل کرنے میں لگا دیتے تو ان کے معاشرے واقعتا جنت نظیر بن سکتے تھے۔

کیا یہ لوگ بھی اسلام کے دیے حقوق کو نافذ کرنے کے حق میں ہیں؟
کیا انھوں نے کوئی ٹوٹتا گھر بسانے کی کوشش کی کبھی؟
کیا ان میں سے کسی نے حقیقتاً عورت کے حقوق دلوانے میں کوئی عملی پیش رفت کی ہے؟
ہم جو سماجی بہبود کے کام کرتے ہیں تو الحمدللہ کہیں کسی کے شوہر کو نصیحت، کہیں کسی کی بیوی کو منانا۔ کسی بچی کو سکول داخل کرانے کے لیے والدین کو قائل کرنا۔ کسی بچے، بچی کو سکول میں داخل کرانا۔ کسی کی تعلیم کا خرچہ اٹھانا۔کسی کی شادی کروانے کے لیے کوشش۔ کسی لڑکی ، لڑکے کی نوکری کے لیے کوشش کرنا۔ اپنے خاندان میں بیٹی کو حصہ دینے کے لیے مقدور بھر کوشش۔
ہماری ایک سہیلی نے تو یہ جنگ جیت بھی لی اپنی نندوں کو حصہ دلوا کر۔
میں اس مارچ کے نعروں میں سے اکثر نعروں سے بیزار ہوں۔ لیکن جن نعروں کی میں نے اپنے مراسلے میں حمایت کی ہے، الحمدللہ انھیں نافذ کرنے، کرانے میں مقدور بھر عملی جدوجہد بھی کی ہے اور کرتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
اس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِ خدادا سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(علامہ اقبال)
 

سید ذیشان

محفلین
علماء ویسے ہی مدرسوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔۔ یہاں اجائیں تو افاقہ ہوں۔۔۔۔
ضائع نہیں کر رہے۔

چونکہ یہ لڑی اب علامہ اقبال کے اشعار پر آ گئی ہے تو ایک شعر ہماری طرف سے بھی:

دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد (علامہ اقبال)
 

عدنان عمر

محفلین
ضائع نہیں کر رہے۔

چونکہ یہ لڑی اب علامہ اقبال کے اشعار پر آ گئی ہے تو ایک شعر ہماری طرف سے بھی:

دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد (علامہ اقبال)
ظاہر ہے جو ملا ظالم کفار سے نبرد آزما ہونے کے بجائے فروعی اختلافات کو ہوا دیں گے، انھیں اقبال کے الفاظ میں یہی کہا جائے گا۔
ویسے آج کل فساد کا ٹھیکہ لبرل فسادیوں نے اٹھایا ہوا ہے، اور اس کام کو وہ انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
ظاہر ہے جو ملا ظالم کفار سے نبرد آزما ہونے کے بجائے فروعی اختلافات کو ہوا دیں گے، انھیں اقبال کے الفاظ میں یہی کہا جائے گا۔
ویسے آج کل فساد کا ٹھیکہ لبرل فسادیوں نے اٹھایا ہوا ہے، اور اس کام کو وہ انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔
یہ کر رہے ہیں بقول اقبال فسادی علماء


یعنی جو عورتیں اس مارچ میں شرکت کرتی ہیں وہ سب ایڈز زدہ ہیں۔ تہمت لگانے کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
 

عدنان عمر

محفلین
یہ کر رہے ہیں بقول اقبال فسادی علماء


یعنی جو عورتیں اس مارچ میں شرکت کرتی ہیں وہ سب ایڈز زدہ ہیں۔ تہمت لگانے کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
تہمت لگانا یقیناً گناہِ کبیرہ ہے، اور عورت مارچ کے نام پر جس مادر پدر آزادی کی تعلیم دی جا رہی ہے، وہ گناہِ کبیرہ ہی نہیں حیوانیت سے بھی بدتر ہے۔
کمال ہے، آپ صورتِ حال کو مجموعی تناظر میں دیکھنے کے بجائے کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ صادر فرما رہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
تہمت لگانا یقیناً گناہِ کبیرہ ہے، اور عورت مارچ کے نام پر جس مادر پدر آزادی کی تعلیم دی جا رہی ہے، وہ گناہِ کبیرہ ہی نہیں حیوانیت سے بھی بدتر ہے۔
کمال ہے، آپ صورتِ حال کو مجموعی تناظر میں دیکھنے کے بجائے کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ صادر فرما رہے ہیں۔
ان میں سے کون سے مطالبے پر آپ کو اعتراض ہے؟

 

عدنان عمر

محفلین
ان میں سے کون سے مطالبے پر آپ کو اعتراض ہے؟

بس یہی مطالبات؟
یہ تو شوگر کوٹڈ مطالبات ہیں، اور وہ بھی مبہم انداز میں تحریر کردہ۔
براہِ مہربانی ان ٹوئیٹر اکاؤنٹس کی دیگر پوسٹس بھی دیکھیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔
مختصراً یہ کہ ان عورتوں اور مردوں کامسئلہ خواتین کو حقوق دینا نہیں بلکہ ان کے سر سے دوپٹہ چھیننا ہے۔
واضح رہے کہ دوپٹہ چھیننے کے الفاظ میں نے اشارتاً استعمال کیے ہیں، اصل اس سے کہیں بدتر ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے عورت مارچ والوں کی آئیڈلز مثلاً قندیل بلوچ اور عاصمہ جہانگیر کی سرگزشت، ان کے خیالات، تعلیمات اور ان کی ذریت کا مشاہدہ انتہائی مفید و معاون ہوگا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top