حسان خان

لائبریرین
برادرم حسان خان کے فیس بک پیج
فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
کو بفضلِ ایزدی گیارا ہزار پسندیدگیاں حاصل ہوگئیں جس پر انہیں از جانبِ من بے پایاں گل ہائے تبریک۔فارسی کے عاشقِ صادق اور اس کی ترویج کے لئے کوشاں ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے ایک استاذ کی بھی حیثیت رکھتے ہیں اور مخصوصاً اردو محفل کو اردو زبان میں فارسی کے علوم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بنایا اور ہمیں فارسی کے ایسے شعراء اور ادباء سے متعارف کرایا کہ جس سے ہماری ثقافتِ بزرگاں سے دور قوم بالکل بھی واقفیت نہیں رکھتی۔

میری طرف سے بارِ دگر برادرم حسان کو صد گل ہائے تبریک۔۔اللہ آپ کی ان کاوشوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور آپ کی بدولت ملک میں بارِ دیگر فارسی کی بازآفرینی ہو۔ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔

زبانِ فارسی زندہ باد
اِن کلماتِ پُرمِہر و محبت کے لیے متشکِّر ہوں، برادرِ من! اللہ آپ کو خوش رکھے!
بارِ دیگر فارسی کی بازآفرینی ہو
'آفریدن' خلق کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، اِس لیے یہاں 'بازآفرینی' (تخلیقِ نو) کی ترکیب مناسب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کامل کجا مقیّدِ اسباب می‌شود
بی نردبان مسیح به بامِ فلک رسید
(شاه فقیرالله آفرین لاهوری)

فردِ کامل کہاں پابندِ اسباب ہوتا ہے؟ مسیح زینے کے بغیر ہی بامِ فلک پر پہنچ گئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رہا کُن تا بمیرم زیرِ پایَت
کہ عمرِ جاودانیِ من اینست


امیر خسرو

مجھے رہا کر، تا کہ (آزاد ہو کر اپنی مرضی سے) تیرے پاؤں کے نیچے اپنی جان دے دوں کہ میری دایم اور ہمیشہ کی عمر اور زندگی تو بس یہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر شہی را بندگانش حارسند
شاه ما مر بندگاں را پاسباں

مولانا
ہر بادشاہ کے غلام اس کے محافظ ہوتے ہیں۔
ہمارا بادشاہ تو اپنے غلاموں کا خود محافظ ہے۔
 
ما ز هر صاحب دلی یک رشتهِ فن آموختیم
عشق از لیلی و صبر از کوه کَن آموختیم
گریه از مرغِ سحر ، خود سوزی از پروانه ها
صد سرا ویرانه شد ، تا ساختن آموختیم
(نامعلوم)

ہم نے ہر صاحب دل سے ایک رشتہء فن سیکھا۔لیلیٰ سے عشق اور کوہ کن(فرہاد) سے صبر سیکھا۔ مرغِ سحر سے گریہ اور پروانوں سے خودسوزی سیکھی۔سو خانے ویران ہوئے تب جا کر ہم نے بنانا (آباد کرنا) سیکھا
 
در جان چو کرد منزل جانان ما محمد ﷺ
صد در کشا در دل از جان ما محمد ﷺ

جب سے میرے محبوب حضرت محمد ﷺ نے میرے دل میں گھر کیا ہے میری جان و دل میں سینکڑوں دروازے محبوب کی وجہ سے کھل گئے ہیں

ما بلبلیم بالاں در گلستان احمد ﷺ
ما لولوئیم و مرجاں عمان ما محمد

ہم گلستان احمد کی بلند مرتبت بلبلیں ہیں ہم لولو اور مرجان کے موتی ہیں اور آپﷺ دریا ہیں

اے آب و گل سرودے وی جان و دل درودے
تا بشنود بہ یژب افغان ما محمدﷺ


اے پانی و مٹی کے پتلے نغمے گا اور دل و جان سے حضور پر درود بھیج تا کہ مدینے میں حضور ﷺ سنیں ہماری آہ و زاری کو

در باغ و بوستانم دیگر مخواں معینے
باغم بشست قرآں بستان ما محمد


اے معین ہمارے باغ و بوستاں میں کچھ اور نہ پڑھ حضور ﷺ کی طفیل قرآن ہمارا باغ بن چکا ہے

(خواجہ معین الدین چشتی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ما ز هر صاحب دلی یک رشتهِ فن آموختیم
یہاں 'رشتہ' اور 'فن' کے درمیان اضافت نہیں ہے۔ بہ علاوہ، 'رشتہ' یہاں پر واحدِ شمارش کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں: ایک عدد کتاب۔
'یک رشته فن' کا ترجمہ 'ایک سلسلۂ فن' یا 'فن کا ایک سلسلہ' کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
غالب ز گرفتاریِ اوہام بروں آئی
باللہ جہاں ہیچ و بد و نیکِ جہاں ہیچ


مرزا غالب دہلوی

غالب، تُو اوہام کی گرفتاری سے نکل آیا ہے، (کیونکہ تُو نے جان لیا ہے کہ) یہ دنیا بھی کچھ نہیں اور اِس دنیا کے نیک و بد بھی کچھ نہیں، واللہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
غالب ز گرفتاریِ اوہام بروں آئی
غالب، تُو اوہام کی گرفتاری سے نکل آیا ہے
تصحیح: غالب، تُو اوہام کی گرفتاری سے باہر نکل آ۔۔۔

مصرعِ اول میں 'آیی' کی بجائے 'آی' آئے گا، کیونکہ 'آیی' شرطی و تمنائی وغیرہ جملوں میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ 'آ/آی' شخصِ مخاطَب کو امر دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں نے ایک قدیم کلیاتِ فارسیِ غالب میں دیکھ لیا ہے، اُس میں بھی 'آی' ہے۔


غالب ز گرفتاریِ اوهام برون آی
بالله جهان هیچ و بد و نیکِ جهان هیچ
(غالب دهلوی)

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کائنات کا وجود، محض انسان کی قوتِ واہمہ کی تخلیق ہے۔ در حقیقت کچھ نہیں، چنانچہ کہتا ہے:
غالب، خدا کی قسم یہ جہاں اور اس جہاں کے نیک و بد سب ہیچ ہیں۔ ان اوہام اور وہم پرستیوں سے باہر آ جا (انہیں چھوڑ دے)۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
در عشق چہ یک گام و چہ صد مرحلہ عرفی
تا شوق نباشد نشود طےّ مسافت


عرفی شیرازی

اے عرفی، عشق میں کیا ایک قدم کا فاصلہ اور کیا سینکڑوں مرحلے، جب تک ذوق و شوق نہ ہو کوئی بھی مسافت طے نہیں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا بُوَد آویخته دستانِ من بر گردنی،
بی‌زمان بر گردنِ من درنیاویزد اجل.
(لایق شیرعلی)

جب تک میرے دست کسی گردن پر آویزاں ہیں، اجل میری گردن پر بے وقت نہیں چپکے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
بیا، ای دل، به حالِ هم بگرییم،
به جانِ بی‌مجالِ هم بگرییم.
زوالِ ما و تو پُشتِ در آمد،
بیا، پیش از زوالِ هم بگرییم.
(لایق شیرعلی)

آ جاؤ، اے دل، ہم یک دیگر کے حال پر رو لیں؛ [اور] یک دیگر کی جانِ بے حال پر رو لیں؛ ہمارا اور تمہارا زوال دروازے کی پُشت پر آ گیا؛ آ جاؤ، ہم یک دیگر کے زوال سے قبل رو لیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
طاقتِ غم را ندارم من دگر بهرِ خدا
تیغ برگیر و بیا کن زودتر ما را هلاک
(بی‌بی مستوره پُرچَمَنی غوری)

میں اب مزید طاقتِ غم نہیں رکھتی؛ خدارا تیغ اٹھاؤ اور آؤ مجھے جَلدتر ہلاک کر دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
طراوت‌های مویت یادم آمد،
نزاکت‌های رویت یادم آمد.
در این ساعت، که گُنگ و لالم از درد،
صدای گفتگویت یادم آمد.
(لایق شیرعلی)

مجھے تمہارے بالوں کی شادابیاں یاد آئِیں؛ مجھے تمہارے چہرے کی نزاکتیں یاد آئِیں؛ اِس ساعت میں، کہ جب میں درد سے گُنگ و بے زباں ہوں، مجھے تمہاری گفتگو کی صدا یاد آئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
آتشِ دل مُرد اندر سینه‌ام،
من چو دُودی از شرارش مانده‌ام.
(لایق شیرعلی)

میرے سینے کے اندر آتشِ دل مر گئی؛ میں اُس کے شراروں سے [نکلے] اک دھوئیں کی طرح باقی رہ گیا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
از جستجویِ خویش به دنیا رسیده‌ام،
در قطره غرق گشته به دریا رسیده‌ام.
(لایق شیرعلی)

میں اپنی جستجو سے دنیا تک پہنچ گیا ہوں؛ میں قطرے میں غرق ہو کر دریا تک پہنچ گیا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دردا و شِگِفتا، اجلِ مسخره‌باز
فرقیتِ مُردگان نمی‌بیند ساز،
صد زنده‌دلی بمیرد و خاک شود،
دل‌مُرده برون ز خاک می‌ماند باز.
(لایق شیرعلی)

افسوس و عجب! کہ اجلِ مسخرہ باز مُردوں کے درمیان تفریق کو مناسب نہیں دیکھتی؛ صدہا زندہ دل مر کر خاک ہو جاتے ہیں، جبکہ دل مُردہ شخص خاک (یعنی قبر) کے بیرون باقی رہ جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
این کوچهٔ لغزندهٔ برفی بهانه‌ست
تا دست‌هایت را کمی مُحکم بگیرم
(زهرا حاصلی)

برف سے ڈھکی یہ پھسلن والی گلی تو بہانہ ہے۔
تاکہ میں تیرے ہاتھوں کو ذرا مضبوطی سے تھام لوں۔
(مترجم: عین بیخود)
 

حسان خان

لائبریرین
از فیضِ روحِ حافظِ شیراز، ای سعید
شیرین بُوَد به شیرهٔ معنی کلامِ ما
(سعید خان ملتانی)

اے سعید! حافظ شیرازی کی روح کے فیض سے ہمارا کلام شِیرۂ معنی کی شیرینی کا حامل ہے۔
 
آخری تدوین:
Top