شہرِ کابُل کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں صائب تبریزی کہتے ہیں:اِس قصیدے کا اولین شعر:
خوشا عشرتسرای کابل و دامانِ کهسارش
که ناخن بر دلِ گل میزند مژگانِ هر خارش
(صائب تبریزی)
عشرت سرائے کابل اور اُس کے دامنِ کوہسار کی کیا ہی بات ہے کہ جس کے ہر خار کی مژگاں گُل کے دل پر ناخن مارتی ہیں۔
(یعنی کابل کے خاروں پر دیگر جگہوں کے گُل رشک کرتے ہیں۔)
علامہ اقبال نے بھی اِس بیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:شہرِ کابُل کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں صائب تبریزی کہتے ہیں:
خوشا وقتی که چشمم از سَوادش سُرمهچین گردد
شوم چون عاشقان و عارفان از جان گرفتارش
(صائب تبریزی)
خوشا وہ وقت کہ جب میری چشم [کابُل] کی خاک سے سُرمہ چُنے گی، [اور] میں عاشقوں اور عارفوں کی طرح از جان و دل اُس کا اسیر ہو جاؤں گا۔
برادرِ محترم! یہاں پر فارسی اشعار اردو ترجمے کے ساتھ شریک کیے جاتے ہیں۔ بہر حال، میں اِس بیت کا ترجمہ کر رہا ہوں:حاجی به ره کعبه و من طالب دیدار.
او خانه همی جوید و من صاحب خانه
شیخ بہائی
اِس قصیدے کا اولین شعر:
خوشا عشرتسرایِ کابُل و دامانِ کهسارش
که ناخن بر دلِ گل میزند مژگانِ هر خارش
(صائب تبریزی)
عشرت سرائے کابُل اور اُس کے دامنِ کوہسار کی کیا ہی بات ہے کہ جس کے ہر خار کی مژگاں گُل کے دل پر ناخن مارتی ہیں۔
(یعنی کابُل کے خاروں پر دیگر جگہوں کے گُل رشک کرتے ہیں۔)
افغان شاعر عزیز عزیزی کی ایک نظم کی ابتدائی چار ابیات:علامہ اقبال نے بھی اِس بیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
شهرِ کابُل خطّهٔ جنتنظیر
آبِ حیوان از رگِ تاکش بگیر
چشمِ صائب از سَوادش سُرمهچین
روشن و پاینده باد آن سرزمین
(علامہ اقبال)
شہرِ کابُل خطّۂ جنت نظیر ہے۔۔۔ تم وہاں کی رگِ تاک سے آبِ حیات حاصل کرو۔۔۔ چشمِ صائب نے اُس کی خاک سے سُرمہ چُنا ہے۔۔۔ وہ سرزمین روشن و پائندہ رہے!
× تاک = درختِ انگور