حسان خان

لائبریرین
خوش مجمعی‌ست انجمنِ نیکوان ولی
ماهی کز اوست رونقِ آن انجمن یکی‌ست
(عبدالرحمٰن جامی)

زیبا رُویوں کی انجمن ایک خوب محفل ہے، لیکن جس ماہ سے اُس انجمن کی رونق ہے، وہ ایک [ہی] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خواهیم بهرِ هر قدمش تحفهٔ دگر
لیکن مُقصِّریم که جان در بدن یکی‌ست
(عبدالرحمٰن جامی)
ہم اُس کے ہر قدم کے لیے [ایک] تحفۂ دیگر چاہتے ہیں؛ لیکن ہم قصورمند ہیں کہ [ہمارے] بدن میں جان ایک [ہی] ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک حمدیہ قصیدے میں کہتے ہیں:
در دل فروغِ مِهرِ تو کَالنّور فی البَصَر
در جان هوایِ عشقِ تو کَالرّوح فی الجَسَد
(عبدالرحمٰن جامی)

[اے خدا!] دل میں تمہاری محبت کی روشنی ایسے ہے جیسے چشم میں نور ہو؛ جان میں تمہارے عشق کی آرزو ایسے ہے جیسے بدن میں روح ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
راستان ز آمیزشِ کج‌سیرتان کج می‌شوند
کفش گردد ز اختلاطِ پایِ ناهموار کج
(منسوب به صائب تبریزی)

"صالحان اور راست کیشاں بھی کج سیرتوں کی (برے لوگ) صحبت و اختلاط سے کج ہو جاتے ہیں (بد ہو جاتے ہیں) 'صحبتِ طالح ترا طالح کند' الخ دیکھو جس طرح ہموار اور سیدھی جوتی (کفش) ٹیڑھے پیر کی صحبت (اختلاط) سے ٹیڑھی ہو جاتی ہے اسی طرح راستاں کج سِیَر کی صحبت سے کج ہو جاتے ہیں۔"
(مترجم و شارح: مولوی محمد شمس الحسن کامل شمس بریلوی)
× یہ بیت گنجور پر نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
با خار خوش برآئیم، گر گُل بدست ناید
بر خاکِ رہ نشینیم، گر بوریا نباشد


عبید زاکانی

اگر پُھول ہاتھ میں نہیں آتا تو ہم (درویش) کانٹوں کے ساتھ ہی خوش ہو جاتے ہیں، اور اگر بوریا نہیں ملتا تو ہم راہگزر کی خاک ہی پر بیٹھ جاتے ہیں۔
 
نه من انگشت نمایم به هواداریِ رویت
که تو انگشت نمایی و خلایق نگرانت

میں تیرے چہرے کے عشق میں مشہور نہ ہوں بلکہ تو (زیبائی میں) مشہور اور لوگ تیرے لئے بےقرار ہیں۔

درِ اندیشه بِبَستم ، قلمِ وهم شکستم
که تو زیباتر از آنی که کنم وصف و بیانت
(سعدی شیرازی)
میں نے عقل کا دروازہ بند کیا اور وہم کا قلم شکستہ کیا کیونکہ تو اس سے زیادہ زیبا تر ہے کہ میں (عقل سے) تیری صفت کروں اور (قلم سے) تجھے بیان کروں۔
 
عیبِ شیرین دهنان نیست که خون می‌ریزند
جرمِ صاحب‌نظران است که دل می‌بندند

خون بہانا(قتل کرنا) شیریں دہنوں کا عیب نہیں ہے (بلکہ) عاشقوں کا جرم ہے دل دےدیتے ہیں۔

مرضِ عشق نه دردی‌ست که می‌شاید گفت
با طبیبان که در این باب نه دانشمندند
(سعدی شیرازی)

مرضِ عشق ایسا درد نہیں ہے کہ اُن طبیبوں کے ساتھ سزاوارِ بیان ہو، جو اس باب میں دانشمند نہ ہوں (یعنے اُنہیں عشق نہ ہوا ہو)۔
 
آخری تدوین:
خدا کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ایک بند:۔

سألتَ عبدیِ و انت فی کنفی
وکلُّ قُلتَ قد سمعناهُ
صوتُک تَشاقُهُ ملائکتی
فَذَنبُکَ الآنِ قد غفرناه
فی جنة الخلد ما تَمَنَّاه
طوباه طوباه ثم طوباه
سلنی بلا حِشمةِِ ولا رَهَبِِ
ولا تَخَف اننی اناالله
(منسوب به شیرِ خدا حضرتِ علی کرم الله وجهه)


منظوم ترجمه:
بندهِ من در پناهم آمدی کردی سوال
هر چه از احوالِ خود گفتی شنیدم جمله را
ساکنانِ عرشِ من مشتاقِ آوازِ تو اند
من گناهانِ ترا بخشیدم از عینِ عطا
در بهشتِ عدن رو کو را تمنا کرده‌ای
ای خوشا حالت خوشا حالت در آن جنت‌سرا
کامِ خود از من بجو بی‌خشیتی و وحشتی
ترس را بگذار چون مولا منم یعنی خدا
(مولانا شوقی)


ترجمہ:
میرے بندے! میری پناہ میں آئے اور سوال کیا۔اپنے جتنے بھی احوال سنائے سب کو میں نے سنا۔میرے عرش کے ساکن تیرے آواز کے مشتاق ہیں۔میں نے تیرے گناہوں کو عینِ عطا سے بخشا ہے۔بہشتِ عدن میں جا،جس کی تمنا تو نے کی ہے۔اس جنت سرا میں کیا مبارک حالت! کیا مبارک حالت!۔اپنی خواہش میرے پاس بلا خوف و خطر تلاش کر۔خوف کو چھوڑ دے جب کہ مولا یعنے خدا میں ہوں۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مدّی که بر سرِ الفِ آدم است تاج
مضمونِ میم و معنیِ دالِ محمد است

(محمد فضولی بغدادی)

وہ مد جو آدم کے الف پر تاج کی طرح موجود ہے، وہ [در اصل] حضرتِ محمد (ص) کے میم کا مضمون اور اُن کے دال کا معنی ہے۔
مدّی که هست بر سرِ آدم علامتی
زان میم و دال دان که قدم‌گاهِ احمد است
(عبدالرحمٰن جامی)

وہ مد جو آدم کے سر پر بطورِ علامت موجود ہے، اُسے اُن میم و دال سے جانو جو احمد (ص) کی قدمگاہ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر سرِ جامی جدا سازی به تیغ
بِه که سازی ز آستانِ خود جدا
(عبدالرحمٰن جامی)

اگر تم ت
یغ سے جامی کا سر جدا کر دو تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ تم [اُسے] اپنے آستان سے جدا کر دو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دست شُستن ز اُلفتِ کونین
ھم وضو گشت و ھم دو گانۂ ما


غنیمت کنجاہی

دونوں جہانوں کی اُلفت (اور ہوس) سے ہاتھ دھونا، ہمارا وضو بھی بن گیا اور ہماری دوگانہ (صبح و شام کی) نماز بھی۔
 
امیر خسرو رح کے اس شعر کا ترجمہ کوئی صاحب فرما دیں۔

آفاق را گردیده‌ام مهر بتان ورزیده‌ام
بسیار خوبان دیده‌ام اما تو چیز دیگری

آفاق را گردیده‌ام مهرِ بتان ورزیده‌ام
بسیار خوبان دیده‌ام اما تو چیزِ دیگری
(امیر خسرو دهلوی)

کائنات میں مَیں نے بسیار سیر کی (اور بہت سے) معشوقوں سے محبت کی ہے میں نے۔۔۔بسیار خوب‌رؤوں کو میں نے دیکھا ہے اّما تو چیزِ دیگر ہے۔
 
کیا ہی خوب ہوجائے کہ ہم بھی فارسی زبان سے آشنائی حاصل کرسکیں۔۔۔۔
ہمارے کرم فرما حسان خان صاحب نے فارسی آموزی کی بسیار کتابیں اپلوڈ کر رکھی ہیں۔۔۔اگرآپ فارسی آموزی کی مشتاق ہیں تو ان کی طرف رجوع کریں۔۔۔ان میں ایک کتاب ترجمانِ پارس از مولوی ابوالحق بسیار آسان ہے۔
 
آفاق را گردیده‌ام مهرِ بتان ورزیده‌ام
بسیار خوبان دیده‌ام اما تو چیزِ دیگری
(امیر خسرو دهلوی)

کائنات میں مَیں نے بسیار سیر کی (اور بہت سے) معشوقوں سے محبت کی ہے میں نے۔۔۔بسیار خوب‌رؤوں کو میں نے دیکھا ہے اّما تو چیزِ دیگر ہے۔

اما سے کیا مراد ہے یہاں؟ میں نے کچھ قوالیوں میں و لیکن تو چیزے دیگری سنا ہے۔
 
Top