گر بدانی حال من گریان شوی بی‌اختیار
ای که منع گریه بی‌اختیارم می‌کنی
(وحشی بافقی)
اے وہ کہ مجھے گریہء بےاختیار سے منع کرتا ہے، اگر تو میرے حال سے واقف ہوجائے تو تو بھی بےاختیار گریہ کرنے لگے گا
 

حسان خان

لائبریرین
آذربائجانی شاعر سید ابوالقاسم نباتی حافظِ شیرازی کی ایک بیت پر تخمیس میں فرماتے ہیں:
فرح‌افزاست دُرَرهایِ سُفتهٔ حافظ

غنی نمود مرا گنجِ خُفتهٔ حافظ
ملالِ دل بِبَرَد شعرِ رُفتهٔ حافظ
بر آسمان چه عجب گر ز گُفتهٔ حافظ
سماعِ زُهره به رقص آورَد مسیحا را

(سید ابوالقاسم نباتی)
حافظ کے پِروئے ہوئے دُر فرح افزا ہیں؛ مجھے حافظ کے گنجِ پوشیدہ نے غنی کر دیا؛ حافظ کے شُستہ اشعار دل کا ملال لے جاتے ہیں؛ کیا عجب اگر آسمان پر کلامِ حافظ سے زُہرہ کا سماع مسیحا کو رقص میں لے آئے؟
× سیّارۂ زُہرہ کو مُطرِبۂ فلک کہا جاتا تھا۔
× دُرَر خود ہی دُرّ (موتی) کی جمع ہے۔ لہٰذا مصرعِ اول میں 'دُرَر' کے ساتھ فارسی علامتِ جمع 'ھا' کا اضافہ کرنا شاید فصیح نہیں مانا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
ندانم از منِ خسته‌جگر چه می‌خواهی
دلم به غمزه ربودی دگر چه می‌خواهی

(سعدی شیرازی)
میں نہیں جانتا کہ تم مجھ خستہ جگر سے کیا چاہتے ہو۔۔۔ تم نے میرا دل چشم کے اشارے سے چرا لیا، [اب] دیگر کیا چاہتے ہو؟
واہ!! خوب!!
 

لاریب مرزا

محفلین
ایں خراباتِ مغانست درو زندہ دلاں
شاہد و شمع و شراب و غزل و رُود و سرود


شیخ فخرالدین عراقی

یہ پیرِ مُغاں کا میخانہ ہے، یہاں اس کے اندر زندہ دل لوگ ہیں، اور محبوب ہے اور شمع ہے اور شراب ہے اور غزل خوانی ہے اور بربط ساز ہے اور صدائے نغمہ ہے۔
واہ!! کیا خوب منظر ہے!!
 

حسان خان

لائبریرین
دیده از آتشِ دل غرقهٔ آب است مرا
کارِ این چشمه ز سرچشمه خراب است مرا
(خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی')
میری چشم آتشِ دل کے سبب آب میں غرق ہے؛ میرے اِس چشمے کا کام سرچشمے سے خراب ہے۔
تشریح: 'سرچشمہ' اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے کوئی چشمہ زمین سے بیرون آتا اور جاری ہوتا ہے۔ شاعر نے اپنی چشم کو ایک چشمے اور اپنے دل کو سرچشمے سے تشبیہ دی ہے۔ پھر شاعر کہتا ہے کہ میرا چشمہ اپنے مبدأ و منبع اور اپنے آغاز ہی سے، یا اپنی جائے آغاز ہی کے سبب، خراب ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ساقیا مَی به کسی دِه که ندارد عشقی
مستم از عشق چه حاجت به شراب است مرا
(سُلطان سُلیمان قانونی 'مُحِبّی')

اے ساقی! شراب [کسی] ایسے شخص کو دو جو کوئی عشق نہ رکھتا ہو۔۔۔ میں عشق سے مست ہوں، مجھے شراب کی کیا حاجت ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ناله کآید ز رگِ جانِ مُحِبّی شبِ غم
از پَیِ حال بِه از چنگ و رباب است مرا
(خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی')

جو نالہ شبِ غم 'مُحِبّی' کی رگِ جاں سے [بیرون] آتا ہے، وہ میرے حال کے لیے چنگ و رباب سے بہتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پَیکِ بلا و قاصدِ درد و رسولِ غم
اِمشب برِ منند بِیا ای اجل تو هم
(رِضایی افندی قصّاب‌زاده)
بلا، درد اور غم کے قاصد اِس شب میرے پاس [آئے ہوئے] ہیں۔۔۔ اے اجل، تم بھی آ جاؤ۔

× شاعر کا تعلق دیارِ آلِ عثمان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہنامہ میں فردوسی لکھتے ہیں کہ فریدون نے اپنے نوادے (پوتے) منوچہر کی ایسے ناز کے ساتھ پرورش کی تھی کہ وہ یہ بھی نہیں روا رکھتا تھا کہ منوچہر پر سے باد و ہوا گذرے اور اُس کے نازک بدن کو آزار پہنچائے:
"چنان پروریدش که باد و هوا
بر او برگذشتن ندیدی روا"

[فریدون] نے [منوچہر] کی ایسے پرورش کی وہ اُس پر سے باد و ہوا کے گذرنے کو بھی روا نہیں رکھتا تھا۔

ولیم شیکسپیئر نے بھی 'ہیملٹ' میں ایک جا ایسا ہی مضمون بیان کیا ہے۔ ہیملٹ اپنے وفات کردہ پدر کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
"So loving to my mother
That he might not beteem the winds of heaven
Visit her face too roughly."
"او آنقدر با مادرم مهربان بود
که حتی حاضر نبود اجازه دهد که نسیم‌های آسمانی
به تندی صورتش را بنوازند."
(مترجم: بهزاد جزایری)

"اُسے میری مادر کے ساتھ اِس قدر محبت تھی
کہ وہ حتیٰ یہ اجازت نہیں دیتا تھا کہ آسمانی ہوائیں
تُندی کے ساتھ اُس کے چہرے پر سے گذریں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
ز گُل فروش ننالم کز اہلِ بازار است
تپاکِ گرمیِ رفتارِ باغبانم سوخت


مرزا غالب دہلوی

میں گُل فروش کی وجہ سے نہیں روتا کہ وہ تو اہلِ بازار میں سے ہے (اُس کا تو یہ کام ہے)، مجھے تو باغبان کی گرمیِ رفتار (پھول توڑنے کی جلدی) کی تپش نے جلا دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اۏلدو مغلوبِ هوایِ نفس استیلایِ عقل
آلدېلار حاکم الیندن اختیار اوباشلار
(صائب تبریزی)

عقل کا غلبہ و تسلط، ہوائے نفس کے دستوں (ہاتھوں) مغلوب ہو گیا۔۔۔ اوباشوں نے حاکم کے دست سے اختیار لے لیا۔

Oldu məğlubi-həvai-nəfs istilai-əql
Aldılar hakim əlindən ixtiyar ovbaşlar
حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
گشت مغلوبِ هوایِ نفس اِستیلایِ عقل
اختیار اوباش بِگْرفتند از سرهنگ‌ها

عقل کا غلبہ و تسلط، ہوائے نفس کے دستوں مغلوب ہو گیا۔۔۔ اوباشوں نے کوتوالوں سے اختیار لے لیا (یعنی چھین لیا)۔

× 'اوباش' عربی لفظ 'وبش/بوش' کی جمعِ شکستہ ہے، لیکن معاصر اردو میں عموماً یہ مفرد مستعمل ہے۔ صائب تبریزی نے بھی تُرکی بیت میں اِسے مفرد ہی استعمال کیا ہے، اور اُس کے بعد علامتِ جمع 'لار' کا اضافہ کیا ہے، جبکہ فارسی میں بھی یہ لفظ گاہے مفرد استعمال ہوتا ہے۔ فرہنگِ عمید میں لکھا ہے:
"کلمۀ اوباش را گاهی در فارسی به طور مفرد استعمال می‌کنند."
لفظِ اوباش کو فارسی میں گاہے بطورِ مفرد استعمال کرتے ہیں۔"
×
'سرهَنگ' فارسی میں کرنل کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگر صائب مقیمِ گلشنِ فردوس خواهد شد
نخواهد رفت از خاطر هوایِ سیرِ بغدادش
(صائب تبریزی)

اگر صائب گلشنِ فردوس میں [بھی] مُقیم ہو جائے گا، [تو بھی] اُس کے ذہن سے بغداد کی سیر کی آرزو نہیں جائے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
یادِ بغداد و طوافِ مرقدِ شاهِ نجف
از دلِ صائب حُضورِ اصفهان را می‌بَرَد
(صائب تبریزی)

شہرِ بغداد، اور مرقدِ شاہِ نجف کے طواف کی یاد صائب کے دل سے اصفہان کی موجودگی کو لے جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
منگول نژاد مسلمان شاہی خاندان 'آلِ جلایِر' سے تعلق رکھنے والے 'سلطان احمد جلایِر' اپنی ایک غزل میں کہتے ہیں:
مُقتدای اهلِ علم و عقل را با ما چه کار
در طریقِ عشق ما را مُقتدایی دیگر است
(سلطان احمد جلایِر)

اہلِ علم و عقل کے پیشوا کو ہمارے ساتھ کیا کام؟۔۔۔ [ہم اہلِ عشق ہیں اور] راہِ عشق میں ہمارا ایک دیگر پیشوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقت گمان مبر که ز جانم شود برون
خود نافِ من نخُست به مِهرت بُریده‌اند
(سلطان احمد جلایِر)

یہ گمان مت رکھو کہ تمہارا عشق میری جان سے بیرون چلے جائے گا، کہ اوّلاً خود میری ناف کو تمہارے محبّت سے کاٹا گیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُدّعی گر طَرَفِ ما نشود، صَرفهٔ اوست
زِشت آن بِه که به آیینه برابر نشود
(ابوطالب کلیم کاشانی)

"دشمن اگر ہمارا مقابلہ نہ کرے تو اس میں اسی کا فائدہ ہے، بدصورت کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آئینہ کے سامنے نہ آئے۔"
(مترجم: شبلی نعمانی)

× مندرجۂ بالا بیت میں 'طرف' شخصِ مُقابل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
در شب گذشت عمر و ندیدیم روئے صبح
اے بخت از گرانیِ خوابِ تو سوختیم


عرفی شیرازی

ہماری ساری عمر رات کے اندھیروں میں گزر گئی اور صبح کا چہرہ نہ دیکھا، اے ہمارے بخت ہم تیری گراں خوابی (ازلوں کی نیند) سے جل گئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رایج سیالکوتی اپنے ایک نعتیہ شعر میں کہتے ہیں:
کنند انبیاء سُبحهٔ ذکرِ نامت
به خاکی که آمیزد آبِ وضویت
(رایج سیالکوتی)

[اے رسول!] جس خاک کے ساتھ آپ کا آبِ وضو مخلوط ہو جاتا ہے، اُس سے انبیاء آپ کے نام کا ذکر کرنے کے لیے تسبیح بناتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتنِ حق پیشِ دنیادار کم
از انا الحق گفتنِ منصور نیست
(رایج سیالکوتی)

[کسی] دنیادار کے سامنے حق کہنا منصور کے انا الحق کہنے سے کم نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
لذتِ دردِ طلب کم‌تر ز وصلِ یار نیست
حسرتِ دیدار اگر داری مگو دیدار نیست
(رایج سیالکوتی)

دردِ طلب کی لذت وصلِ یار سے کم نہیں ہے؛ اگر تم حسرتِ دیدار رکھتے ہو تو یہ مت کہو کہ دیدار [میسّر] نہیں ہے۔
 
Top