یہ چیز تو خیر ادبیات فارسی کے علاوہ عام مذہبی تاریخ کے طالب علموں کو بھی معلوم ہونی چاہیئے اور میرے خیال میں ہوتی بھی ہے!ادبیاتِ فارسی کے طالبِ علموں کو یہ چیز معلوم ہونی چاہیے کہ کلاسیکی فارسی میں لفظِ 'مذہب' عموماً فقہی مذاہب یا اسلامی فرقوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
افغانستان کے ادبیات شناس و بیدل شناس محمد کاظم کاظمی نے بیدل کی شاعری کی تفہیم میں مدد کے لیے 'کلیدِ درِ باز' کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اُس میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ بیدل نے ایک بیت میں فقہی مذاہب کو طنزاًَ یاد کیا ہے، کیونکہ اکثر اہلِ تصوف اہلِ مدرَسہ اور خشک فقیہوں کو زیادہ خوب نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور فقہی اختلافات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ لیکن چونکہ اُنہوں نے لفظِ 'مذہب' استعمال کیا تھا، اور چونکہ 'مذہب' معاصر فارسی میں معمولاً 'دین' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اِس لیے بالشویکوں نے اُس بیت کو بنیاد بناتے ہوئے بیدل جیسے از سر تا پا متصوّف شاعر کو دین مخالف قرار دے دیا تھا۔یہ چیز تو خیر ادبیات فارسی کے علاوہ عام مذہبی تاریخ کے طالب علموں کو بھی معلوم ہونی چاہیئے اور میرے خیال میں ہوتی بھی ہے!
مجھے بھی کچھ یاد آ گیا یہ پڑھ کرمنوچهری دامغانی اپنے حاسدوں اور دشمنوں کو مخاطَب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
من بِدانم علمِ طبّ و علمِ دین و علمِ نحو
تو ندانی دال و ذال و راء و زاء و سین و شین
(منوچهری دامغانی)
میں علمِ طبّ، علمِ دین اور علمِ نحو جانتا ہوں؛ [جبکہ] تم تو دال و ذال و را و زا و سین و شین [بھی] نہیں جانتے۔
بردم دستش سوی دل سودایی(رباعی)
گفتم به طبیب: "دارُویی فرمایی؟"
نبضم بِگرفت از سرِ دانایی
گفتا که "چه درد میکند؟ بِنْمایی؟"
بُردم دستش سُویِ دلِ سودایی
(مولانا جلالالدین رومی)
میں نے طبیب سے کہا: "کیا تم کوئی علاج فرماؤ گے؟" اُس نے از رُوئے دانائی میری نبض پکڑ لی۔ اُس نے کہا کہ "کیا چیز درد کر رہی ہے؟ دِکھاؤ گے؟" میں اُس کا دست [اپنے] دلِ دیوانہ کی جانب لے گیا۔
خوبصورت شعر ۔ الفاظ کے معمولی رد و بدل کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ ممکن ہےمنوچهری دامغانی اپنے حاسدوں اور دشمنوں کو مخاطَب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
من بِدانم علمِ طبّ و علمِ دین و علمِ نحو
تو ندانی دال و ذال و راء و زاء و سین و شین
(منوچهری دامغانی)
میں علمِ طبّ، علمِ دین اور علمِ نحو جانتا ہوں؛ [جبکہ] تم تو دال و ذال و را و زا و سین و شین [بھی] نہیں جانتے۔
منوچهری دامغانی اپنے حاسدوں اور دشمنوں کو مخاطَب کرتے ہوئے کہتے ہیں:دورِ جاہلیت کے شاعر عَمرو بن کلثوم کے مُعلّقہ کا مطلع:
أَلاَ هُبِّي بِصَحْنِكِ فَاصْبَحِيْنَا
وَلاَ تُبْقِي خُمُوْرَ الأَنْدَرِيْنَا
(عَمرو بن کلثوم)
الا [اے ساقی!] بیدار ہو جاؤ اور اپنے قدحِ بزرگ سے شرابِ صبحگاہی پلاؤ، اور اَندَرِین (شام کا ایک قریہ) کی شرابوں کو بچائے مت رکھو۔