حسان خان

لائبریرین
به چشمِ مستِ خون‌ریزت که با زُنّارِ زلفِ تو
ز سر بیرون توان کردن هوایِ دین و دنییٰ را
(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)

تمہاری چشمِ مست و خوں ریز کی قسم! کہ تمہاری زلف کی زُنّار کے ساتھ، سر سے دین و دنیا کی خواہش کو بیرون کرنا ممکن ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر تو پردهٔ عزّت ز رویِ خود براندازی
بِسوزد آتشِ وحدت جهانِ زُهد و تقویٰ را

(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)
اگر تم عظمت و بزرگواری کے پردے کو اپنے چہرے سے اتار پھینکو تو آتشِ وحدت زُہد و تقویٰ کی دنیا کو جلا ڈالے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کجایی ساقیِ وحدت که مستانِ الستِ تو
ز مستی بازنشناسند از هم لات و عُزّیٰ را
(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)

اے ساقی وحدت! کہاں ہو؟ کہ تمہارے مستانِ الست مستی کے باعث لات و عُزّیٰ کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فریبِ غمزهٔ شوخت مرا سرمست می‌دارد
کسی در پیشِ چشمِ او بگو چون پارسا باشد

(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)
تمہارے غمزۂ شوخ کا فریب مجھے سرمست رکھتا ہے؛ بتاؤ کوئی شخص اُس کی چشم کے پیش میں کیسے پارسا ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
همه ذرّاتِ عالم را هوادارِ تو می‌بینم
سرِ مُویی نمی‌بینم که بی ذکرِ خدا باشد
(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)

مجهے تمام ذرّاتِ عالم تمہارے مُشتاق و عاشق نظر آتے ہیں؛ مجھے بال کا ایک سِرا بھی (یا بال کے ایک سِرے کے برابر بھی کوئی جگہ) نظر نہیں آتا جو خدا کے ذکر کے بغیر ہو۔
 
افشای راز خلوتیان خواست کرد شمع
شکر خدا که سر دلش در زبان گرفت

شمع نے عزلت گزینوں کا راز فاش کرنا چاہا، خدا کا شکر ہے کہ اس کے دل کا مدعا( اس کی) زبان میں قید ہو گیا۔

حافظ شیرازی
 
تا چشم باز کرد خدا دید دیدہ ور
اول ببیند آئنہ، آئینہ ساز را

عبدالوہاب افتخار دولت آبادی

جب دیدہ ور نے اپنی (حقیقی) آنکھ کُھولی تو اُس نے خدا کو دیکھ لیا، جیسے کہ آئینہ جب بنتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اندر آئینہ ساز ہی کو دیکھتا ہے۔
 
ساعتی گر دور گردد چشمم از دیدارِ تو
سر به سر عالَم به جسمِ من چو زندان می‌شود
(سلطان بایزیدِ ثانی 'عدلی')

اگر ایک ساعت [بھی] میری چشم تمہارے دیدار سے دور ہوتی ہے تو [یہ] تمام کا تمام عالَم میرے جسم کے لیے زندان کی مانند ہو جاتا ہے۔
 
خوابم از دیده چُنان رفت که هرگز ناید
خوابِ من زهرِ فراقِ تو بِنوشید و بِمُرد
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میری چشم سے نیند اِس طرح چلی گئی کہ [اب] ہرگز [واپس] نہیں آئے گی؛ میری نیند نے تمہارے فراق کا زہر نوش کیا اور مر گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
حافظ چو آبِ لطف ز ‌نظمِ تو می‌چکد
حاسد چگونه نکته تواند بر آن گرفت

(حافظ شیرازی)
اے حافظ! جب کہ تمہاری نظم سے آبِ لطافت ٹپکتا ہے، [تو پھر] حاسد کیسے اُس پر نکتہ چینی کر سکتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
افشای راز خلوتیان خواست کرد شمع
شکر خدا که سر دلش در زبان گرفت

شمع نے عزلت گزینوں کا راز فاش کرنا چاہا، خدا کا شکر ہے کہ اس کے دل کا مدعا( اس کی) زبان میں قید ہو گیا۔

حافظ شیرازی
'گرفتن' کا ایک مجازی معنی شعلہ ور ہو جانا یا کسی چیز میں آتش لگ جانا بھی ہے۔ یہاں 'سِرِّ دلش در زبان گرفت' کا ترجمہ یہ بھی ممکن ہے کہ 'اُس کے دل کا راز زبان میں جل گیا'، اور شاید شاعر کا مقصود بھی یہی ہے۔
 
شهادتگاه عشق است این مکن فکر تن آسانی.
میسر نیست اینجا جز به زیرتیغ خوابیدن
(بیدل دھلوی)
فکرِ تن آسانی نہ کر، یہ شہادت گاہِ عشق ہے۔ یہاں زیرِ تیغ لیٹنے کے سوا آسانی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شهادتگاه عشق است این مکن فکر تن آسانی.
میسر نیست اینجا جز به زیرتیغ خوابیدن
(بیدل دھلوی)
فکرِ تن آسانی نہ کر، یہ شہادت گاہِ عشق ہے۔ یہاں زیرِ تیغ لیٹنے کے سوا آسانی نہیں ہے۔
یہاں 'مُیسّر' آسانی کا معنی نہیں دے رہا، بلکہ اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے، یعنی: یہاں زیرِ تیغ لیٹنے (یا سونے) کے بجز کچھ میسّر و ممکن نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به رُویِ نَکهَتِ گُل غُنچه هرگز در نمی‌بندد
ز حُسنِ خُلق ممکن نیست در دل‌ها نگُنجیدن
(بیدل دهلوی)
غُنچہ، گُل کی خوشبو کے چہرے پر ہرگز در بند نہیں کرتا؛ حُسنِ خُلق سے دلوں میں نہ سمانا ممکن نہیں ہے۔
(یعنی غُنچہ نکہتِ گُل کو اپنے نزد آنے سے کبھی نہیں روکتا۔ پس معلوم ہوا کہ جو شخص اخلاقِ حسنہ اور خوش خُلقی کا مالک ہو وہ حتماً دلوں میں جا بنا لیتا ہے۔)
 
آخری تدوین:
ز خودداری تبرا کن اگر آرام می‌خواهی
که چون اشک است اینجا عافیت در رهن لغزیدن
(بیدل دھلوی)

اپنی خودداری (و انا) سے برأت کر اگر آرام چاہتا ہے کہ (بہتے) اشک کی طرح یہاں عافیت لغزیدہ رہنے میں ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اے نازنیں پسر تو چہ مذہب گرفتہ ای
کت خونِ ما حلال تر از شیرِ مادر است


حافظ شیرازی

اے نازنیں پسر تُو نے کونسا مذہب اختیار کیا ہے؟ کہ تیرے لیے ہمارا خون، ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز خودداری تبرا کن اگر آرام می‌خواهی
که چون اشک است اینجا عافیت در رهن لغزیدن
(بیدل دھلوی)

اپنی خودداری (و انا) سے برأت کر اگر آرام چاہتا ہے کہ (بہتے) اشک کی طرح یہاں عافیت لغزیدہ رہنے میں ہے۔
فارسی سے ترجمہ کرتے وقت ایک چیز کا خیال رہنا چاہیے کہ چند فارسی الفاظ ایسے ہیں جن کے معانی اردو میں آ کر حالا تبدیل ہو چکے ہیں۔ مثلاً 'خودداری' معاصر اردو میں "عزتِ نفس کا پاس" کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، لیکن فارسی میں اِس کا بنیادی معنی 'بُردباری و شکیبائی' ہے، جو اردو میں بھی اِس لفظ کا قدیم معنی تھا۔ نیز، فارسی میں یہ لفظ کسی چیز سے پرہیز و اجتناب کرنا کے ضمنی معنی میں بھی مستعمَل ہے۔ مثلاً، فارسی میں 'از چیزی خودداری کردن' کا مفہوم 'کسی چیز سے اجتناب کرنا' ہے۔ اگر کوئی ایسا لفظ اپنے فارسی معنی کے ساتھ بے وضاحت استعمال ہوا ہو تو فارسی اور قدیم اردو سے ناواقف قاری اشتباہ کا شکار ہو جائے گا۔
بہ ہر حال، بیدل کی اِس بیت میں لفظِ 'خودداری' صبر و تحمل اور بُردباری کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ بیدل کہہ رہے ہیں کہ اگر تم آرام چاہتے ہو تو صبر و بُردباری اور خود کو روکے رکھنے سے دوری کر لو۔
'تبرّا' کا ترجمہ 'برأت' درست کیا ہے کیونکہ بیزاری کرنا اور دوری کرنا ہی اِس لفظ کے بنیادی معانی ہیں۔ 'عافیت در رهنِ لغزیدن' کا لفظی ترجمہ تو 'عافیت لغزش کھانے کے رہن میں' ہے، لیکن اِس سے شاعر کا مقصود وہی ہے جو آپ نے بیان کیا یعنی اشک کی طرح لغزیدہ رہنے اور لغزشیں (پھسلنیں) کھانے ہی میں یہاں عافیت ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای بسا معنی که از نامحرمی‌هایِ زبان
با همه شوخی مقیمِ نسخه‌هایِ راز مانْد
(بیدل دهلوی)

کتنے ہی معانی [ایسے] ہیں جو [اپنی] تمام تر شوخی کے باوجود زبان کی نامَحرَمیوں کے باعث نُسخہ ہائے راز میں مُقیم رہ گئے۔
× مصرعِ ثانی میں 'نسخه‌هایِ راز' کی بجائے 'پرده‌هایِ راز' بھی نظر آیا ہے۔
 
توبهٔ من جزع و لعل و زلف و رخسارت شکست
دی که بودم روزه‌دار امروز هستم بت‌پرست
(سنایی غزنوی)
تیرے چشمِ سیاہ و لبِ سرخ و زلف و رخسار نے میری توبہ توڑ دی ہے۔ میں کہ کل روزہ دار تھا، آج بت پرست ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اے نازنیں پسر تو چہ مذہب گرفتہ ای
کت خونِ ما حلال تر از شیرِ مادر است


حافظ شیرازی

اے نازنیں پسر تُو نے کونسا مذہب اختیار کیا ہے؟ کہ تیرے لیے ہمارا خون، ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال ہے۔
ادبیاتِ فارسی کے طالبِ علموں کو یہ چیز معلوم ہونی چاہیے کہ کلاسیکی فارسی میں لفظِ 'مذہب' عموماً فقہی مذاہب یا اسلامی فرقوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
 
Top