'گرفتن' کا ایک مجازی معنی شعلہ ور ہو جانا یا کسی چیز میں آتش لگ جانا بھی ہے۔ یہاں 'سِرِّ دلش در زبان گرفت' کا ترجمہ یہ بھی ممکن ہے کہ 'اُس کے دل کا راز زبان میں جل گیا'، اور شاید شاعر کا مقصود بھی یہی ہے۔افشای راز خلوتیان خواست کرد شمع
شکر خدا که سر دلش در زبان گرفت
شمع نے عزلت گزینوں کا راز فاش کرنا چاہا، خدا کا شکر ہے کہ اس کے دل کا مدعا( اس کی) زبان میں قید ہو گیا۔
حافظ شیرازی
یہاں 'مُیسّر' آسانی کا معنی نہیں دے رہا، بلکہ اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے، یعنی: یہاں زیرِ تیغ لیٹنے (یا سونے) کے بجز کچھ میسّر و ممکن نہیں ہے۔شهادتگاه عشق است این مکن فکر تن آسانی.
میسر نیست اینجا جز به زیرتیغ خوابیدن
(بیدل دھلوی)
فکرِ تن آسانی نہ کر، یہ شہادت گاہِ عشق ہے۔ یہاں زیرِ تیغ لیٹنے کے سوا آسانی نہیں ہے۔
فارسی سے ترجمہ کرتے وقت ایک چیز کا خیال رہنا چاہیے کہ چند فارسی الفاظ ایسے ہیں جن کے معانی اردو میں آ کر حالا تبدیل ہو چکے ہیں۔ مثلاً 'خودداری' معاصر اردو میں "عزتِ نفس کا پاس" کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، لیکن فارسی میں اِس کا بنیادی معنی 'بُردباری و شکیبائی' ہے، جو اردو میں بھی اِس لفظ کا قدیم معنی تھا۔ نیز، فارسی میں یہ لفظ کسی چیز سے پرہیز و اجتناب کرنا کے ضمنی معنی میں بھی مستعمَل ہے۔ مثلاً، فارسی میں 'از چیزی خودداری کردن' کا مفہوم 'کسی چیز سے اجتناب کرنا' ہے۔ اگر کوئی ایسا لفظ اپنے فارسی معنی کے ساتھ بے وضاحت استعمال ہوا ہو تو فارسی اور قدیم اردو سے ناواقف قاری اشتباہ کا شکار ہو جائے گا۔ز خودداری تبرا کن اگر آرام میخواهی
که چون اشک است اینجا عافیت در رهن لغزیدن
(بیدل دھلوی)
اپنی خودداری (و انا) سے برأت کر اگر آرام چاہتا ہے کہ (بہتے) اشک کی طرح یہاں عافیت لغزیدہ رہنے میں ہے۔
ادبیاتِ فارسی کے طالبِ علموں کو یہ چیز معلوم ہونی چاہیے کہ کلاسیکی فارسی میں لفظِ 'مذہب' عموماً فقہی مذاہب یا اسلامی فرقوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔اے نازنیں پسر تو چہ مذہب گرفتہ ای
کت خونِ ما حلال تر از شیرِ مادر است
حافظ شیرازی
اے نازنیں پسر تُو نے کونسا مذہب اختیار کیا ہے؟ کہ تیرے لیے ہمارا خون، ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال ہے۔