تا شد از قهر الهی، طعمه‌ی دوزخ، یزید
نعره‌ی «هَل مِن مَزید» از آتش دوزخ نخاست
(صایب تبریزی)

قہرِ الٰہی سے جب یزید دوزخ کا لقمہ ہوگیا تو آتشِ دوزخ سے "ہل من مزید" کا نعرہ (پھر) بلند نہ ہوا۔۔

x "ہل من مزید" سورہ ق کی سی‌ام (تیسویں) آیت میں موجود ہے جس کا ترجمہ ہے "آیا بیشتر هم هست" (کیا مزید ہے)۔۔۔یہ سوال دوزخ اس وقت کرے گی جب وہ گناہ گاروں سے پر ہوتی جائے گی اور اپنے اندر مزید نفوس کی گنجائش ظاہر کرےگی۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
در دو عالَم، مقصد و مقصودِ جانِ عاشقان
نیست جز خاکِ درت، چون می‌توان زان در گذشت
(سلمان ساوجی)

دو عالَم میں عاشقوں کی جان کا مقصد و مقصود تمہارے در کی خاک کے بجز نہیں ہے۔۔۔ [پس] اُس در کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں نیاید بہ سرِ نعشِ من آں شوخ قتیل
گر ہمہ خلق بیاید بہ منِ زار چہ حظ


قتیل لاہوری

اے قتیل، جب وہ شوخ ہی میری لاش پر نہیں آئے گا تو پھر اگر ساری دنیا بھی مجھ ناتواں اور لاغر کے پاس آ جائے تو کیا لطف؟
 

حسان خان

لائبریرین
چون نخندند به دیوانگی‌ام اهلِ خِرَد؟
خسَم، از آتشی اُمّیدِ وصالی دارم
(محمد فضولی بغدادی)
میری دیوانگی پر اہلِ عقل کیسے نہ ہنسیں؟۔۔۔ کہ میں خس ہوں، اور مجھے اِک آتش سے امیدِ وصال ہے۔
× خس = تِنکا
 
آتش اصفہانی اپنے ایک قصیدے میں حضرت امام حسین علیہ سلام کی مدح میں کہتے ہیں۔

آتشا! دم چه زنی مدحِ تو نبود مقبول
آنکسی را که خداوند بود مدحت گر
(آتش اصفهانی)

اے آتش! تو کیا بات کرتا ہے۔ تیری مدح اس شخص کے لئے مقبول نہیں ہے جس کا مدح گستر خدا ہو
 
آخری تدوین:
آتش اصفہانی "قصیده در طلوعِ آفتاب و نعتِ خامسِ آلِ عبا حضرت سید الشهدا علیه سلام" میں امام حسین علیہ سلام کی مدح میں کہتے ہیں۔

بمزرعی که بکارند تخمِ مدحِ ترا
روا بود که کند جبرییل دهقانی
(آتش اصفهانی)

جس کِشت میں تیری مدح کا تخم کاشت کیا جائے، روا ہے کہ وہاں فرشتہ جبرئیل دہقانی کرے۔

کِشت=کھیت

اسی قصیدے کے ایک شعر میں اپنے اس قصیدے کے بارے میں کہتے ہیں:

گر این قصیده بخوانم ز معجزِ سخنم
سزد که زنده شوند انوری و خاقانی
(آتش اصفهانی)

اگر میں اپنے معجزہء سخن سے یہ قصیدہ خوانوں تو یہ اس لائق ہے کہ انوری اور خاقانی زندہ ہوجائیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر این قصیده بخوانم ز معجزِ سخنم
سزد که زنده شوند انوری و خاقانی
(آتش اصفهانی)

اگر میں اپنے معجزہء سخن سے یہ قصیدہ خوانوں تو یہ اس لائق ہے کہ انوری اور خاقانی زندہ ہوجائیں۔
اِس کا یہ ترجمہ بہتر ہے:
اگر میں یہ قصیدہ خوانوں تو زیب دیتا ہے کہ میرے اعجازِ سُخن سے انوری و خاقانی زندہ ہو جائیں۔

آتشا! دم چه زنی مدحِ تو نبود قبول
آنکسی را که خداوند بود مدحت گر
(آتش اصفهانی)

اے آتش! تو کیا بات کرتا ہے۔ تیری مدح اس شخص کے لئے قبول نہیں ہے جس کا مدح گستر خدا ہو
اِس بیت کا مضمون زیادہ واضح نہیں ہے، لہٰذا میں اِس بیت اور اِس کے ترجمے کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، لیکن کتابت کی ایک غلطی ضرور عرض کروں گا کہ مصرعِ اول میں 'قبول' کی بجائے 'مقبول' آئے گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کلیدِ قُفلِ ہمہ گنج ہا بما دادند
بدستِ ما چو ندادند اختیار چہ حظ


نظیری نیشاپوری

(دنیا جہان کے) سارے خزانوں کے تالوں کی چابی اُنہوں (کارکنانِ قضا و قدر) نے ہمیں دے دی لیکن ہمارے ہاتھ میں جب کوئی اختیار ہی نہیں دیا تو پھر کیا لُطف؟
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ امام حُسین کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے کی تشبیب میں آتش اصفہانی کہتے ہیں:
آتشِ عشقِ تو آن گونه مرا می‌سوزد
که شود سرد تنم چونکه روم در آذر
(آتش اصفهانی)

تمہارے عشق کی آتش مجھے اِس طرح جلاتی ہے کہ جب میں نار میں جاؤں تو میرا تن سرد ہو جائے۔
× نار = آتش
 

حسان خان

لائبریرین
آن قدر خلق به رخسارِ تو حیران شده‌اند
که برادر خبر از قتلِ برادر نشود
(آتش اصفهانی)
مردُم تمہارے رُخسار [کے دیدار] سے اِس قدر حیران ہو گئے ہیں کہ برادر کو [بھی] قتلِ برادر کی خبر نہیں ہو پاتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
بِنشین تا که بپا شورشِ محشر نشود
خنده کن تا که گران قیمتِ شکّر نشود
(آتش اصفهانی)

بیٹھ جاؤ تا کہ شورشِ محشر برپا نہ ہو۔۔۔ خندہ کرو تاکہ شَکَر کی قیمت گراں نہ ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
نکنم ترکِ صفا دادنِ آیینهٔ دل
تا در آن جلوهٔ رُویِ تو مُصوَّر نشود
(آتش اصفهانی)

جب تک اُس میں تمہارے چہرے کا جلوہ نقش نہیں ہو جاتا میں آئینۂ دل کو صاف و پاکیزہ کرنا ترک نہیں کروں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دور لعلت بُوَد از جانِ ضعیفم تا چند
تا به کَی رِشتهٔ من لایقِ گوهر نشود
(آتش اصفهانی)

تمہارا لبِ لعل میری جانِ ضعیف و کمزور سے کب تک دور رہے گا؟ [آخر] کب تک میرا دھاگا گوہر کے لائق نہ ہو گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
بر درِ گوش نِهد چرخِ برین پنبهٔ ابر
تا شبِ هجرِ تو از نالهٔ من کر نشود

(آتش اصفهانی)

چرخِ بریں [اپنے] کان کے در پر ابر کی رُوئی رکھتا ہے تاکہ تمہارے ہجر کی شب میں وہ میرے نالے سے کر نہ ہو جائے۔
× کَر = بہرا، ناشُنَوا

× شاعر نے ابر کو پَنبہ (رُوئی/کپاس) سے تشبیہ دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست از جان‌سوزیِ هجرانِ اکبر باخبر
هر که گوید چشمِ لیلا کم‌تر از مجنون گِریست
(آتش اصفهانی)
جو بھی شخص [یہ] کہتا ہے کہ لیلیٰ کی چشم نے مجنون سے کم تر گریہ کیا تھا وہ علی اکبر کے ہجر کی جاں سوزی سے باخبر نہیں ہے۔

× حضرتِ امام حُسین کے پِسر علی اکبر کی والدہ کا نام لیلیٰ تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون سایه باش یک قلم آیینهٔ نیاز
آن را که سجده جُزوِ بدن نیست بنده نیست
(بیدل دهلوی)

سایہ کی طرح سراپا آئینۂ نیاز ہو جا۔
سجدہ جس شخص کا جزوِ بدن نہ بن جائے وہ "بندہ" نہیں ہے۔
(مترجم: عین بیخود)
 
زبانِ خامه چه گوید ز ماجرایِ حسین
غمِ حسین نداند به جز خدایِ حسین
(ملا حسن آرانی داعی)

زبانِ خامہ ماجرائے حسین(علیہ سلام) کے بارے میں اور کیا کہے۔حسین(علیہ سلام) کے خدا کے سوا کوئی بھی غمِ حسین نہیں جانتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ امام حُسین کے برائے کہے گئے ایک فارسی قصیدے کے اختتام میں میرے پسندیدہ ترین ادیب محمد فضولی بغدادی کہتے ہیں:
اجرِ من این بس که گر میرم شود سرمنزلم
خاکِ پاکِ جان‌فزایِ دل‌گُشایِ کربلا
(محمد فضولی بغدادی)

میرے برائے یہی اجر کافی ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو میرا مسکن و استراحت گاہ کربلا کی جاں فَزا و دل کُشا خاکِ پاک ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذکرِ لبِ تشنهٔ شاهِ شهید
شهدِ شفایِ دلِ بیمارِ ماست
(محمد فضولی بغدادی)

شاہِ شہید کے لبِ تشنہ کا ذکر ہمارے دلِ بیمار کا شہدِ شفا ہے۔
 
Top