دیوانہ شد و زو عشق ھم، نا گہہ بر آوارد آتشی
شد رخت شھری سوختہ خاشاک این ویرانہ ھم

کچھ ایسے شعلے بھڑک اٹھے، سب دشت و چمن ویران ہوئے
اس شہر کی خاکستر میں میں کہیں سویا ہے مرا ویرانہ بھی

امیر خسرو
 

حسان خان

لائبریرین
آمدم تا رُو نِهم بر خاکِ پایِ یارِ خود
آمدم تا عُذر خواهم ساعتی از کارِ خود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں آیا ہوں تاکہ خود کے یار کی خاکِ پا پر [خود کا] چہرہ رکھوں۔۔۔ میں آیا ہوں تاکہ ایک ساعت خود کے [کیے گئے] کام کی معذرت چاہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آمدم کز سر بِگیرم خدمتِ گُل‌زارِ او
آمدم کآتش بِیارم درزنم در خارِ خود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں آیا ہوں تاکہ از سرِ نو اُس کے گُلزار کی خدمت [شروع] کروں۔۔۔ میں آیا ہوں تاکہ آتش لاؤں اور خود کے خار میں [آتش] لگا دوں [اور اُس کو جلا ڈالوں]۔
 

حسان خان

لائبریرین
شکر می‌گویم خدایم را که نیست
خونِ گند و نحسِ نازی در رگم

(مهدی اخوان ثالث)
میں اپنے خدا کا شکر گزار ہوں کہ میری رگ میں نازیوں کا تعفُّن زدہ و نحس خون نہیں ہے۔

× نازی = ہِٹلر کی حِزبِ نازی کا پیروکار
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
من خمُش کردم به ظاهر لیک دانی کز درون
گُفتِ خون‌آلود دارم در دلِ خون‌خوارِ خود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں بظاہر خاموش ہو گیا ہوں، لیکن تم جانتے ہو کہ باطناً مَیں خود کے خوں نوش دل میں خوں آلود گُفتار رکھتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
این غزل کوتاه کردم باقیِ این در دل است
گویم ار مستم کنی از نرگسِ خَمّارِ خود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں نے اِس غزل کو کوتاہ کر دیا، اِس کا باقی [حصّہ میرے] دل میں ہے۔۔۔ میں وہ [باقی حصّہ] کہوں گا اگر تم مجھ کو خود کی مَے فروش اور نرگس جیسی چشم سے مست کر دو۔
 
قآآنی شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:۔

به جایِ آب شعر من اگر برند در چمن
ز فکرِ آب و رنجِ تن رهند آبیارها
(قاآنی شیرازی)

اگر چمن میں آب کے بجائے میرے شعر لے جائے جائیں تو آبیار فکرِ آب اور تن کی تکلیف سے نجات پا جائیں۔

آبیار=تقسیم کنندہء آب
 

محمد وارث

لائبریرین
سعی کردم کہ شود یار ز اغیار جدا
آں نشد عاقبت و من شدم از یار جدا


ہلالی چغتائی

میں نے کوشش کی کہ یار اغیار سے جدا ہو جائے، آخر کار یہ تو نہ ہوا اور میں یار سے جدا ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نبیذ چند مرا دِه برایِ مستی را
که سیر گشتم از این زیرکی و هُشیاری

(ابوعلی سرَخسی)
مجھے مست ہو جانے کے لیے ذرا سی شراب دو کہ میں اِس زِیرکی و فِراست و ہوشیاری سے سیر ہو گیا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تَرکِ خرِ کالبُد بگویید
کان شاهِ بُراق‌تاز آمد

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اپنے خر جیسے جسم و قالب کو ترک کر دیجیے، کہ وہ شاہِ بُراق سوار آ گیا [ہے]۔

× 'شاہِ بُراق‌تاز' سے شاید رسول مراد ہیں۔
 
آخری تدوین:
گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا، گفتا کہ این کار منست

امیر خسرو
"میں نے کہا عاشقوں کا طریق کیا ہے؟ کہا محبوب سے وفاداری
میں نے کہا کہ جور و جفا نہ کیجیے، کہا یہ تومیرا کام ہے "
 

محمد وارث

لائبریرین
پیشِ درِ تو ہر نَفَس، از ہوسِ دہانِ تو
بوسہ زنم بر آستاں، یک دو سہ چار و پنج و شش


امیر خسرو

تیرے در کے سامنے، ہر دم، تیرے دہان کی خواہش میں، تیرے آستاں کو بوسے دیتا ہوں، ایک دو تین چار اور پانچ اور چھ۔
 

حسان خان

لائبریرین
قآآنی شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:۔

به جایِ آب شعر من اگر برند در چمن
ز فکرِ آب و رنجِ تن رهند آبیارها
(قاآنی شیرازی)

اگر چمن میں آب کے بجائے میرے شعر لے جائے جائیں تو آبیار فکرِ آب اور تن کی تکلیف سے نجات پا جائیں۔

آبیار=تقسیم کنندہء آب
تشریح: یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میرے اشعار اِس قدر آبدار و تر و تازہ ہیں کہ چمن کی آبیاری کے لیے زحمتِ آب کھینچنے کی حاجت نہیں ہے، بلکہ اگر میرے اشعار کو وہاں لے جایا جائے تو چمن کی آبیاری بغیر کسی زحمت و رنج کے ہو جائے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر بِگویم گُل به پیشِ عارِضت خار است حق
ور بِگویم غُنچه همچون آن دهن خوش‌گوست نیست

(علی قُلی خان واله داغستانی)
اگر میں کہوں کہ گُل تمہارے رُخسار کے پیش میں خار ہے تو [یہ] حقیقت [ہے]
اور اگر میں کہوں کہ غُنچہ اُس دہنِ [یار] کی مانند خوش گو ہے تو [یہ حقیقت] نہیں ہے
 
رُخت ز آه دلم گر نهان کنی چه عجب!
کسی چگونه نهد شمع در دریچهِ باد
(آبوگویچ)

میرے دل کی فغاں سے اگر تو اپنا چہرہ نہاں رکھتا ہے تو جائے ہیچ شِگفتی نیست! کوئی ہوا والے دریچے میں شمع کیسے رکھ سکتا ہے؟

٭نہاں رکھنا=چھپانا
٭دریچہ=کھڑکی

٭آبوگویچ قرنِ نہم کے بوسنیائی شاعر ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
روزگاری شد که مأوایِ فضولی کربلاست
نیست او را مَیلِ مأوایی ورایِ کربلا

(محمد فضولی بغدادی)
ایک زمانہ ہو گیا ہے کہ فضولی کا مسکن کربلا ہے۔۔۔۔ اُس کو کربلا کے سوا کسی مسکن کی رغبت و خواست نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر غُباری که ز راهت خیزد
کُحلِ چشمِ منِ محزون بادا

(کامران میرزا)
تمہاری راہ سے جو بھی غُبار بلند ہو، وہ مجھ غمگین کی چشم کا سُرمہ ہو جائے!

× کامران میرزا سلطنتِ مغلیہ کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کے پسر تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که گِردِ تو چو پرگار نگشت
او ازین دایره بیرون بادا

(کامران میرزا)
جو بھی شخص تمہارے گِرد پَرکار کی طرح نہ گھوما، وہ اِس دائرے سے بیرون ہو جائے!

× کامران میرزا سلطنتِ مغلیہ کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کے پسر تھے۔
 
آخری تدوین:
Top