حسان خان

لائبریرین
تا خیالِ لبِ او هم‌دمِ ما شد صرفی
زنده روح‌القُدُس است از دمِ جان‌پرورِ ما

(شیخ یعقوب صرفی کشمیری)
اے صَرفی! جب سے اُس کے لب کا خیال ہمارا ہمدم ہوا ہے، روح القُدُس (جبرئیل) ہمارے دمِ جاں پروَر سے زندہ ہے۔
× دم = نَفَس، سانس
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا جلال‌الدین رومی کی ایک غزل کی ابتدائی دو ابیات:
"ای تُرکِ ماه‌چهره چه گردد که صبح تو
آیی به حُجرهٔ من و گویی که گَل بَرُو
تو ماهِ تُرکی و من اگر تُرک نیستم
دانم من این قدر که به تُرکی‌ست آب سُو"

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے تُرکِ ماہ چہرہ! کیا ہو جائے [اگر] صبح تم میرے حُجرے میں آؤ اور [مجھ سے] کہو کہ "اِس طرف آ جاؤ!"۔۔۔ تم ماہِ تُرک ہو، اور اگرچہ میں تُرک نہیں ہوں، [لیکن] میں اِس قدر جانتا ہوں کہ تُرکی میں آب 'سُو' کہلاتا ہے۔

× گَل بَروُ' اور 'سُو' تُرکی الفاظ ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن خُروسی که تو را دعوت کند سویِ خدا
او به صورت مُرغ باشد در حقیقت انگلوس
(مولانا جلال‌الدین رومی)
جو مرغا تمہیں خدا کی جانب دعوت دیتا ہے وہ صورتاً تو پرندہ ہے [لیکن] در حقیقت وہ فرشتہ ہے۔
× اِس بیت میں مولانا رومی نے یونانی لفظ 'انگلوس' استعمال کیا ہے، جس کا معنی 'فرشتہ' ہے۔
بیتِ بعدی:
من غلامِ آ‌ن خُروسم کو چنین پندی دهد
خاکِ پایِ او بِه آید از سرِ واسیلیوس

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں اُس مُرغے کا غلام ہوں کہ جو اِس طرح کی کوئی نصیحت دیتا ہے۔۔۔۔ اُس کی خاکِ پا، شاہ کے سر سے بہتر ہے۔
× 'واسیلیوس' یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی 'شاہ' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
وه که در بحرِ فراقیم کنون چون گرداب
مانده سرگشته و پیدا نبُوَد ساحلِ ما

(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
آہ! کہ ہم بحرِ فراق میں اِس وقت گِرداب کی مانند سرگشتہ رہ گئے ہیں اور ہمارا ساحل ظاہر نہیں ہے (یعنی ساحل نظر نہیں آ رہا)۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر دُود که پیدا شود از سینهٔ چاکم
ابری شود و گریه کند بر سرِ خاکم

(سلطان بایزید خان ثانی)
میرے سینۂ چاک سے جو بھی دُود ظاہر ہوتا [اور بیرون آتا] ہے، وہ ایک ابر بن جاتا ہے اور میری تُربت پر گریہ کرتا ہے۔
× دُود = دھواں
 

حسان خان

لائبریرین
گُلِ صدبرگ به پیشِ تو فُروریخت ز خِجلت
که گمان بُرد که او هم رُخِ رعنایِ تو دارد

(مولانا جلال‌الدین رومی)
گُلِ صدبرگ تمہارے پیش میں شرم کے مارے مُرجھا کر بِکھر گیا۔۔۔ کیونکہ اُس نے گمان کیا تھا کہ وہ بھی تمہارے [جیسا] چہرۂ زیبا رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جانا به خرابات آ تا لذتِ جان بینی
جان را چه خوشی باشد بی صحبتِ جانانه

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے جان! میکدے میں آؤ تاکہ لذتِ جان دیکھو۔۔۔۔ جانانہ (معشوق) کی صُحبت کے بغیر جان کو کیا شادمانی ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گر لایقِ دولتِ وصالِ تو نَیَم
یا قابلِ دیدنِ جمالِ تو نَیَم
امّا به همین خوشم که هرگز نَفَسی
محروم ز خدمتِ خیالِ تو نَیَم

(امیری سبزواری)
اگر[چہ] میں تمہارے وصال کی دولت و خوشبختی کے لائق نہیں ہوں، یا تمہارے جمال کے دیدار کے قابل نہیں ہوں، لیکن میں اِسی پر خوش ہوں کہ میں ہرگز ایک لمحہ [بھی] تمہارے خیال کی خدمت [کرنے] سے محروم نہیں ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز نارِ دوزخم واعظ مترسان این قدر ورنه
بِگویم راز لُطفِ دوست کز منبر خطیب افتد

(میرزا محمد حسن راقم کابلی)
اے واعظ! مجھے نارِ دوزخ سے اِس قدر مت ڈراؤ ورنہ میں رازِ لُطفِ یار کہہ دوں گا کہ [جس سے] خطیب منبر سے گِر جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز غیر با دل پُرشِکوه نزدِ یار شدم
گرفت جانبِ اغیار و شرم‌سار شدم

(صادقی بیگ افشار)
میں غیر کی طرف سے پُرشکایت دل لے کر یار کے پاس گیا۔۔۔ [لیکن] اُس نے اغیار کی طرف داری کی اور میں شرمسار ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از چاکِ دل نظر به رُخِ یار می‌کنم
سیرِ چمن ز رخنهٔ دیوار می‌کنم

(غضنفر کابلی)
میں چاکِ دل سے چہرۂ یار کی جانب نظر کرتا ہوں؛ میں دیوار کے رخنے سے چمن کی سیر کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
در فراقت زان نمی‌میرم که ناید در دلت
کین ستم‌‌نادیده روزی چند با هجران نساخت

(میلی هِروی)
میں تمہارے فراق میں اِس لیے نہیں مرتا تاکہ تمہارے دل میں نہ آئے کہ اِس ستم نادیدہ نے چند روز [بھی] ہجر کو تحمُّل نہ کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر حافظ بِبیند طرحِ باغِ نملهٔ ما را
به سروِ نازِ او بخشد سمرقند و بخارا را
چو بیند سبزه و آبش، نیارد بر زبان دیگر
کنارِ آبِ رُکن‌آباد و گُل‌گشتِ مُصلّیٰ را

(محمد حسن خیّاط کابلی 'ملک')
اگر حافظ شیرازی ہمارے باغِ نملہ کی تصویر و نقش دیکھ لے تو وہ اُس کے سروِ ناز کے عِوض میں سمرقند و بخارا بخش دے۔۔۔ [اور] جب وہ اُس [باغ] کے سبزہ و آب کو دیکھ لے تو پھر دوبارہ زبان پر کنارِ آبِ رُکن آباد اور گُلگشتِ مُصلّیٰ [کا‌ ذکر] نہ لائے۔

× باغِ نملہ = افغانستان کے شہر جلال آباد کے غرب میں واقع ایک باغ
× آبِ رُکن آباد = شیراز کی ایک نہر
× گُلگشتِ مُصلّیٰ = شیراز کی ایک تفریح گاہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
من رویِ تو را به ماهِ تابان ندهم
زهرابِ غمت به آبِ رضوان ندهم
هر گاه که جان‌سِتان بیاید به سرم
تا رویِ ترا ندیده‌ام جان ندهم

(میرزا محمود خان)
میں تمہارے چہرے کو ماہِ تاباں کے عِوض میں [بھی] نہ دوں۔۔۔ میں تمہارے زہرابِ غم کو آبِ جنّت کے عِوض میں [بھی] نہ دوں۔۔۔ جب بھی فرشتۂ موت میرے سر پر آ جائے، میں جب تک تمہارا چہرہ نہ دیکھ لوں، جان نہ دوں گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چوں بر تو روشن است چگویم ز حالِ دل
گفتن چہ احتیاج کہ شمعِ سحر چہ شد


ابوطالب کلیم کاشانی

جب تُجھ پر عیاں ہے تو پھر میں اپنا حالِ دل کیا کہوں؟ آخر کہنے کی کیا ضرورت کہ (ساری رات روشن رہنے کے بعد) صبح کے وقت شمع کے ساتھ کیا ہوا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نپنداری به مرگ از جستجو فارغ شوم بیدل
به زیرِ خاک هم چون آفتابم هست شبگیری

(بیدل دهلوی)
اے بیدل! یہ مت سمجھنا کہ میں موت کے بعد جستجو سے فارغ ہو جاؤں گا۔۔۔ زیرِ خاک بھی خورشید کی مانند میری سحَرخیزی [جاری] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در پرده‌پوشی‌ام چه کنی کوشش ای رقیب
جهل است چاکِ دامنِ دیوانه دوختن

(امیر خسرو دهلوی)
اے رقیب! میری پردہ پوشی کی کیوں کوشش کرتے ہو؟ دیوانے کے چاکِ دامن کو سینا جہل و نادانی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به نزدِ خصمان گر فضلِ من نِهان باشد
زیان ندارد نزدیکِ عاقلان پیداست

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
اگر دشمنوں کے نزدیک میرا علم و فضل و کمال پنہاں ہو تو ضرر نہیں [کیونکہ] عاقلوں کے نزدیک [وہ] ظاہر و آشکار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سِتاده خواجهٔ محشر به انتظارِ شفاعت
چه تیره‌بخت کسی آن که بی‌گناه آید

(نامعلوم)
خواجۂ محشر (یعنی رسول) شفاعت کے انتظار میں کھڑے ہیں۔۔۔ وہ شخص کیا ہی بدبخت ہے جو بے گناہ آئے!
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از جمال عبدالرزاق

اے دل نکنند عشقبازی ہر جا
چوں ماہ مباش، ہر زماں دیگر جا
در عشق چو پرکار ہمی باید بود
سرگشتہ ز دستِ غم ولے پا بر جا


اے دل ہر جگہ عشق بازی نہیں کیا کرتے، اور چاند کی طرح مت ہو جا کہ ہر وقت دوسری ہی جگہ پایا جاتا ہے۔ عشق میں پرکار کی طرح ہونا چاہیئے کہ چاہے غم کے ہاتھوں سرگشتہ اور سرگرداں ہی کیوں نہ ہو لیکن پاؤں اپنی جگہ پر برقرار۔
 
Top