حسان خان

لائبریرین
نگاهم را تماشایِ گُل و شبنم نمی‌باید
من و در کُنجِ عُزلت یادِ رُخسارِ عرَق‌ناکی

(جُنیدالله حاذق)
میری نگاہ کو تماشائے گُل و شبنم کی حاجت نہیں ہے۔۔۔ [فقط یہ کافی ہے کہ] میں ہوؤں، اور گوشۂ تنہائی میں اِک رُخسارِ عرَق ناک کی یاد ہو۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
آن که از بهرِ بُتی نعل در آتَش دارد
قاصدِ عشق برایش خبری خْوَش دارد

(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
جو شخص کسی بُت (محبوبِ زیبا) کے لیے مضطرب و بے قرار ہے، قاصدِ عشق کے پاس اُس کے برائے ایک خوش خبری ہے۔
کیا خوشخبری ہے؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
فلک گر سِفله را عزّت دِهد خوارش کند آخر
هوا زد بر زمین برداشت بالا چون کفِ خاکی

(جُنیدالله حاذق)
فلک اگر شخصِ پست کو عزّت دیتا ہے تو آخرِ‌ کار اُسے ذلیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ ہوا نے جب کسی کفِ خاک کو بالا اُٹھایا تو [بعد ازاں] زمین پر دے مارا۔
 

لاریب مرزا

محفلین
اگر ز محنتِ دنیا خلاص می‌طلبی
بِنوش بادهٔ گُل‌گون ز شیشهٔ حلَبی

(کمال خُجندی)
اگر تمہیں رنجِ دنیا سے خلاصی و نجات کی آرزو و جستجو ہے ہو تو شیشۂ حلَبی سے شرابِ گُلگُوں نوش کرو۔
× بِلادِ شام کے شہر حلَب کے شیشے مشہور تھے۔
شام کے شیشے کا ذکر چہ معنی دارد؟؟ کیا شراب کا ذکر استعارہ نہیں؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
نباشد هیچ داغ از داغِ هجرِ یار سوزان‌تر
(جُنیدالله حاذق)
داغِ ہجرِ یار سے سوزاں تر داغ کوئی نہیں ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
فلک گر سِفله را عزّت دِهد خوارش کند آخر
هوا زد بر زمین برداشت بالا چون کفِ خاکی

(جُنیدالله حاذق)
فلک اگر شخصِ پست کو عزّت دیتا ہے تو آخرِ‌ کار اُسے ذلیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ ہوا نے جب کسی کفِ خاک کو بالا اُٹھایا تو [بعد ازاں] زمین پر دے مارا۔
کیا خوب بات کی!
 
تہمتِ خانہ نشینی نہ پسندید بخویش
ورنہ مجنوں گلہ از سختیِ زنجیر نداشت


غنی کاشمیری

اُس نے اپنے لیے خانہ نشیں ہونے کی تہمت قبول نہ کی (اور اس لیے زنجیریں توڑ کر صحرا کی طرف نکل گیا)، ورنہ مجنوں کو سختیِ زنجیر کا تو کوئی گلہ نہ تھا۔
بہت ہی اعلی سر آپ سے ایک مکالمے کا آغاز کیا ہو سکے تو نظر عنایت کر دیں
 

حسان خان

لائبریرین
دل را ز جان عزیز‌تر آید هزار بار
تیری کزان دو نرگسِ مستانه می‌رسد

(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
جو تیر اُن نرگس جیسی دو چشم ہائے مستانہ کی جانب سے آتا ہے وہ دل کو جان سے ہزار بار عزیز تر محسوس ہوتا ہے۔
 
شمع است و شراب و مہتاب اے ساقی
شاہدز شراب ہم خراب اے ساقی
از خاک ابرآر ایں دل پر آتشیں را
برباد مدہ بیار آب اے ساقی

ترجمہ
شمع وماہ و شراب اے ساقی
شاہد بے حجاب اے ساقی
آج ماحول کی مروت تک
میری نیت خراب ہے ساقی

عبدالحمید عدم
✍دوجام
 

حسان خان

لائبریرین
امیر علی‌شیر نوایی ایک مقطعِ غزل میں اپنے شہر ہِرات، کہ حالیہ افغانستان میں واقع ہے، کے بارے میں فرماتے ہیں:
شه‌راه سویِ جنّتِ فردوس که جویند
فانی به یقین دان که خیابانِ هِرات است

(امیر علی‌شیر نوایی 'فانی')
اے فانی! بِالیقین جان لو کہ [مردُم] جنّتِ فردوس کی جانب [جانے والی] جس شاہراہ کی جستجو کرتے ہیں، وہ شہرِ ہِرات کی خیابان ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر ماه نه‌ای، چون شده از دُور گُذارت؟
گر عُمر نه‌ای، در شُدن از چیست شِتابت؟

(امیر علی‌شیر نوایی)
[اے یار!] اگر تم ماہ نہیں ہو تو تمہارا گُذر و عُبور دُور سے کیوں ہوا ہے؟۔۔۔ [اور] اگر تم عُمر نہیں ہو تو جانے میں تمہیں جلدی کس لیے ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
بِگُفتمش: چه شِتابت به رفتن است، ای عُمر؟
بِگُفت: عُمر چو گُفتی مگو دِگر مشِتاب!

(امیر علی‌شیر نوایی)
میں نے اُس سے کہا: اے [میری] عُمر! تمہیں جانے میں [اِس قدر] جلدی کیا ہے؟۔۔۔ اُس نے کہا: جب تم نے مجھ کو 'عُمر' کہہ دیا تو اب یہ مت کہو کہ جلدی مت کرو!
 

محمد وارث

لائبریرین
شرابِ گُلگو‌ں اگر شیشۂ حلَبی میں ہو تو فارسی شعری روایت میں وہ دوآتشہ ہو جاتی ہے۔
اردو شاعری میں اگر شیشہ و جام و پیالہ نہ بھی ہو تو پھر بھی چلتی ہے، بقول مرزا
پلا دے اوک سے ساقی، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے، شراب تو دے
:)
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

گر با غمِ عشق سازگار آید دل
بر مرکبِ آرزو سوار آید دل
گر دل نبود کجا وطن سازد عشق
ور عشق نباشد بہ چہ کار آید دل


اگر غمِ عشق کے ساتھ دل ہم آہنگ ہو جائے تو ایسے ہے جیسے آرزؤں کی سوار پر دل سوار ہو جائے (اُس کی تمام آرزوئیں پوری ہو جائیں)۔ اگر دل نہ ہوتا تو عشق اپنا ٹھکانہ کہاں بناتا اور اگر عشق نہ ہوتا تو پھر دل کس کام آتا؟
 

حسان خان

لائبریرین
عشقِ تو در درونم و مِهرِ تو در دلم
با شِير اندرون شد و با جان بدر شود

(خواجه سعیدالدین هِروی)
میرے اندرُون میں تمہارا عشق اور میرے دل میں تمہاری محبّت شِیرِ [مادر] کے ساتھ اندر آئی تھی اور [میری] جان کے ساتھ بیرون جائے گی۔

× چند جگہوں پر اِس بیت کو حافظ شیرازی سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن ذبیح‌الله صفا کی کتاب 'تاریخِ ادبیاتِ ایران: جلدِ سوم' کے حوالے سے نظر آیا ہے کہ یہ خواجه سعیدالدین هِروی کے ایک قصیدے کی بیت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به قتلِ من چه کَشَد غمزه‌ات صفِ مِژگان
ز بهرِ مُورکُشی حاجتِ سِپاهی نیست

(امیر علی‌شیر نوایی)
میرے قتل کے لیے تمہارا غمزہ صفِ مِژگاں کس لیے کھینچتا ہے؟۔۔۔ چیونٹی کو قتل کرنے کے لیے کسی لشکر کی حاجت نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عشق کاریست کہ دشوار تر از ہر کاریست
مشکل ایں است کہ آساں بنظر می آید


واقف لاہوری (بٹالوی)

عشق ایک ایسا کام ہے کہ ہر کام سے دشوار تر ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ آسان نظر آتا ہے۔
 
نصیبِ ماست بهشت ای خداشناس برو
که مستحقِ کرامت گناهکارانند
(حافظ شیرازی )


مولوی محمد احتشام الدین حقی دہلوی اپنی کتاب مطالعہء حافظ میں اس کے دو قسم کے ترجمے تحریر کرتے ہیں
١)اے خداشناس، تو ہٹ جا کہ بہشت ہماری قسمت میں ہے کہ (ہم) گناہگار ہی مستحقِ کرامت ہے
٢)بہشت ہم (خداشناسوں) ہی کی قسمت میں ہے اے خداشناس(خوفزدہ مت ہو اور جنت میں) چلا جا ( اگر ہم گناہگار ہوئے بھی تو کیا ہوا) کہ گناہگار ہی مستحقِ کرامت ہیں
 
آخری تدوین:
Top