پندرہویں/سولہویں صدی کے یہودی فارسی شاعر 'عِمرانی' نے اپنی مثنوی 'فتحنامه' کا آغاز اِن حمدیہ ابیات سے کیا ہے:
به نامِ آن که حیِّ لایزال است
صفاتِ ذاتِ پاکش بیزوال است
خداوندی که موجود است دایم
قدیم و حیّ و قیّوم است و قایم
خداوندی که ما را نام دادهاست
زبان را در فصاحت کام دادهاست
جهانبانی که جان بخشيد ما را
سر و چشم و زبان بخشيد ما را
کريمی کز کرم بِنْواخت ما را
ز ناگه از عدم برساخت ما را
به رحمت عقل با ما آشنا کرد
به راهِ راست ما را رهنما کرد
(عمرانی)
اُس [خدا] کے نام سے جو حیِّ لایزال ہے۔۔۔ اُس کی ذاتِ پاک کی صفات بے زوال ہیں۔۔۔ وہ خداوند کہ جو ہمیشہ موجود ہے، اور جو قدیم و حیّ و قیّوم و قائم ہے۔۔۔ وہ خداوند کہ جس نے ہم کو نام دیا ہے، اور زبان کو فصاحت سے بہرہ مند کیا ہے۔۔۔ وہ جہاں بان کہ جس نے ہم کو جان بخشی اور ہم کو سر و چشم و زبان بخشی۔۔۔ وہ کریم کہ جس نے از رُوئے کرم ہم کو نوازا اور ناگاہ عدم سے ہم کو خَلق کیا۔۔۔ اُس نے رحمت سے عقل کو ہمارے ساتھ آشنا کیا، اور [اُس کو] راہِ راست کی جانب ہمارا راہ نما بنایا۔