توضیح: یعنی عاشق کے وصلِ یار تک پہنچ پانے کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی شخص [اِس ظالم] دُنیا اور زمانے کے قاعدوں قانونوں کو تبدیل کر دے، ورنہ تو وصلِ یار عاشقوں کے لیے مُحال ہے۔عاشق بوصلِ یار کجا می رسد مگر
آئینِ روزگار دگرگوں کند کسے
اہلی شیرازی
عاشق وصلِ یار تک کہاں بھی پہنچتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی اس جہان کے قانون قاعدوں اور رسم و رواج کو اُلٹ پلٹ کر دے۔
مشہور عُثمانی البانوی ادیب شمسالدین سامی فراشری نے اپنی تُرکی کتاب 'خُردهچین' میں فردوسی طوسی کو "شعرایِ ایرانزمینڭ استادِ نامدارې و بلکه بۆتۆن نظمگویانِ عالمڭ سالارې حضرتِ حکیم فردوسی" (شُعَرائے ایران زمین کے اُستادِ نامدار، بلکہ تمام نظم گویانِ عالَم کے سالار حضرتِ حکیم فردوسی) کہہ کر یاد کیا ہے۔هر آن کس که دارد هُش و رای و دین
پس از مرگ بر من کند آفرین
(فردوسی طوسی)
جو بھی شخص عقل و فکر و دین رکھتا ہے، وہ [میری] موت کے بعد مجھ پر آفرین کرے گا۔
'شاہنامہ' کے شاعر و مُؤلِّف حکیم ابوالقاسم فردوسی طوسی پر سلام ہو!