محمد وارث

لائبریرین
حاصلِ خاقانی است دفترِ غم ہائے تو
زاں چوں قلم بر درت راہ بہ سر می رود


(خاقانی شروانی)

خاقانی کا حاصل تیرے غموں کے قصے ہیں کہ قلم کی طرح تیرے در کے راستے پر سر کے بل چلتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

(غالب دہلوی)

وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ خاک مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہزادہ سلیم کی بیوی نور جہاں کا ایک شعر جو آج بھی اسکے لاہور میں واقع مزار پر صادق آتا ہے -
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغِ نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صداے بلبلے
مجھ اجڑے ہوئے کے مزار پر نہ ہی کوئی چراغ (جلتا) ہے اور نہ کوئی پھول(کھلتا) ہے،(اسی لیے) نہ ہی پروانہ اپنا پر جلاتا ہے اور نہ ہی بلبل کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے - (یعنی میرے مزار پر ویرانی اور حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں)
 

محمد وارث

لائبریرین
با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش


(عبدالقادر بیدل)

ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یک نگہ، یک خندۂ دزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دگر

(اقبال لاہوری)

ایک نگاہ، (پھر) ایک زیرِ لب تبسم، (اور اسکے بعد آنکھوں سے بہتا ہوا) ایک چمکتا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ناخدا در کشتیٔ ما گر نباشد گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست


(امیر خسرو دہلوی)

اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر، فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است

(عرفی شیرازی)

عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں جیسے نادان بچے کا پہلا سبق ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
در کعبہ و بُتخانہ سنگ او شُد و چوب اُو شُد
یک جا حجر الاسود، یک جا بُتِ ہندو شد


(سرمد شہید)

کعبے اور بت خانے میں پتھر بھی وہ ہی ہے اور لکڑی بھی وہ ہی ہے، ایک جگہ (اگر وہ مسلمانوں کا) حجرِ اسود ہے تو ایک جگہ ہندو کا بت ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
عمر ہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات
تاز ِبزم ِعشق، یک دانائے راز آید بروں
(اقبال)
اور ترجمے کے لیے وارث صاحب سے گزارش :)
 

محمد وارث

لائبریرین
عمر ہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات
تا زِ بزم ِعشق، یک دانائے راز آید بروں
(اقبال)
اور ترجمے کے لیے وارث صاحب سے گزارش :)


شکریہ فرخ صاحب اس خوبصورت شعر کیلیئے۔ اقبال کے اس شعر کا مفہوم وہی ہے جو 'نرگس' اور 'دیدہ ور' والے اردو شعر کا ہے، یعنی عمروں تک کعبے اور بتخانے میں زندگی روتی (نوحہ گراں ہوتی) ہے اور پھر کہیں جا کر بزمِ عشق سے ایک راز جاننے والا ( سخنور بھی کہہ سکتے ہیں ;) ) آتا ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بزمِ ترا شمع و گُل، خستگیِ بُو تراب
سازِ ترا زیر و بم، واقعۂ کربلا

(غالب دہلوی)

(اے خدا)، ابو تُراب (حضرت علی ع) کی خستگی (جد و جہد) تیری محفل کی شمع اور سجاوٹ ہے، واقعۂ کربلا تیرے ساز کے زیر و بم ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش


(حافظ شیرازی)

حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من نگویم کہ مرا از قفَس آزاد کُنید
قفسم بردہ بہ باغی و دلم شاد کنید


(ملک الشعراء بہار)

میں نہیں کہتا کہ مجھے قفس سے آزاد کر دو، (بلکہ) میرا پنجرہ کسی باغ میں لے جاؤ اور میرا دل شاد کر دو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ

(اقبال لاہوری)

عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن


(نظیری نیشاپوری)

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما


(سعدی شیرازی)

وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
 
Top