تو مخاطب بھی ہے قریب بھی ہےتو گرمِ سخن گفتن و از جامِ نگاهت
من مست چنانم که شنفتن نتوانم
(شفیعی کدکنی)
تو باتیں کرنے میں مستغرق ہے اور میں تیری نگاہوں کے جام سے ایسا مست ہوں کہ (تیری باتوں کو) سن نہ سکوں!
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہوتو مخاطب بھی ہے قریب بھی ہے
تجھ کو دیکھوں کہ تجھ سے بات کروں
آتش لکھنوی
جی شکریہتم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
فراق گورکھپوری
میرے خیال سے مصرعِ دوم کا یہ مفہوم ہے: جب تک وہ چپ و راست سے خدا کی آفرینش کو دیکھ رہے ہیںاز بهرِ خدا روی مپوش از زن و از مرد
تا صنعِ خدا مینگرند از چپ و از راست
(سعدی شیرازی)
خدارا مرد و زن سے چہرہ نہ چھپا تاکہ وہ خدا کی خلقت کو دیکھیں (کہ کتنا حسین تجھے بنایا ہے)