حسان خان

لائبریرین
بنده‌وار آمدم به زِنهارت
که ندارم سِلاحِ پَیکارت

(سعدی شیرازی)
میں غُلام کی مانند تمہاری پناہ و امان میں آ گیا۔۔۔ کیونکہ میں تمہارے ساتھ جنگ و نبرْد کے لیے اسلِحہ نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای دلِ پاره پاره‌ام، دیدنِ اوست چاره‌ام
اوست پناه و پُشتِ من، تکیه بر این جهان مکن

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے میرے دلِ پارہ پارہ! میرا چارہ و علاج اُس کا دیدار ہے۔۔۔ میری پُشت و پناہ وہ ہے، اِس جہان پر تکیہ و اعتماد مت کرو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہ یک کرشمۂ چشمِ فسونگرِ تو شود
یکے ہلاک، یکے زندہ، ایں چہ بوالعجبیست


ہاتف اصفہانی

تیری فسوں گر، جادو بھری آنکھوں کے ایک ہی کرشمے سے، کوئی ہلاک ہو جاتا ہے اور کوئی زندہ ہو جاتا ہے، یہ کیا بوالعجبی ہے؟ یہ کیسا عجیب و غریب معاملہ ہے؟
 
بِیا یک لحظه با یلدا نشینیم
بِیا تا فارغ از غم‌ها نشینیم
بِیا تا در کنارِ عشق و مستی
همین شب تا دمِ فردا نشینیم

(شفیقه یارقین 'دیباج')
آؤ، ایک لحظہ ہم [شبِ] یلدا کے ساتھ بیٹھیں!۔۔۔ آؤ، تاکہ ہم غموں سے فارغ و آسودہ بیٹھیں!۔۔۔ آؤ تاکہ عشق و مستی کے پہلو میں ہم اِسی شب فردا طُلوع ہونے تک بیٹھیں!

آو ایک لمحه شب یلدا مناکر بیٹھیں
آو غموں سے فارغ هوکر بیٹھیں
آجاو عشق و مستی کو ساتھ لیکر
اسی رات کو صبح تک بیٹھیں
یلدا : فارسی کیلندر میں 30 آذر کی رات جو سال کی طویل ترین رات ھے

یہ میں نے ترجمہ کیا ہے کیا یہ صحیح ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
عمر خیام کی ایک رباعی ہے جس کا مذکورہ شعر یاد ہے مجھے باقی بھی مل جائے ترجمہ کے ساتھ بہت نوازش ہوگی
حسان خان محمد وارث

بنشستہ ہمیں گفت کہ کو کو کو کو؟
اردو محفل ہی پر ایک مضمون میں یہ رباعی مع ترجمہ ملی ہے:
خیام ---- ایک مطالعہ (انور مسعود)
آں قصر کہ بر چرخ ہمی زد پہلو
بر در گہِ او شہان نہادندے رو
دیدیم کہ بر کنگرہ اش فاختہ اے
بنشستہ ہمی گفت کہ کو کو، کو کو
(وہ قصرِ شاہی جو اپنی رفعت کے اعتبار سے رشکِ فلک تھا۔ جس کے دربار میں بڑے بڑے سلاطین سجدہ ریز ہوتے تھے۔ اب اس کے کلس پر ایک فاختہ بیٹھی ہوئی کو کو کر رہی ہے۔ اس کا نوحہ یہ پوچھ رہا ہے کہ اس ایوان کے رہنے والے کہاں چلے گئے ہیں؟)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
جانم به دو لعلِ جان‌فزایِ تو فدا
روحم به نسیمِ عطرسایِ تو فدا
آشُفته دلم به عِشوه‌هایِ تو فدا
فرسوده تنم به خاکِ پایِ تو فدا

(امیر علی‌شیر نوایی)
میری جان تمہارے لعل جیسے دو جاں فزا لبوں پر فدا!۔۔۔ میری روح تمہاری [جانب سے آنے والی] مُعَطّر کُن بادِ نسیم پر فدا!۔۔۔ میرا دلِ آشُفتہ تمہارے ناز و عِشووں پر فدا!۔۔۔ میرا تنِ فرسُودہ تمہاری خاکِ پا پر فدا!
 

حسان خان

لائبریرین
خواهی نریزد از مژه‌ات اشکِ آتشین
در رُویِ آفتاب‌جبینان نظر مکن

(صائب تبریزی)
[اگر] تم چاہتے ہو کہ تمہاری مِژہ (پلک) سے اشکِ آتشیں نہ بہے تو تم آفتاب جیسی جبینوں والے [خُوباں] کے چہرے پر نظر مت کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
خدایا! ز قیدِ مجازم رهان
دلم را به عشقِ حقیقی رسان

(عبدالمجید تبریزی)
اے خدا! مجھ کو قیدِ مجاز سے رَہا و آزاد کر دو، [اور] میرے دل کو عشقِ حقیقی تک پہنچا دو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر ز غمت شکست دل، رازِ تو فاش کی شود
گنج نہفتہ تر شود، خانہ اگر خراب شد


ملک الشعرا ابوطالب کلیم کاشانی

اگر تیرے غم کی وجہ سے (میرا) دل ٹوٹ پھوٹ گیا اور شکست و ریخت کا شکار ہو گیا تو اِس سے تیرا (تیرے عشق کا) راز فاش کیسے ہو؟ کیونکہ اگر کوئی گھر یا جگہ ویران ہو جائے تو وہاں چُھپا خزانہ اور گہرا ہو کر مزید چُھپ جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای ما و صد چو ما ز پَیِ تو خراب و مست
ما بی‌تو خسته‌ایم تو بی‌ما چگونه‌ای؟

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے کہ ہم اور ہمارے جیسے صدہا افراد تمہارے لیے خراب و بدمست ہیں۔۔۔ ہم تمہارے بغیر خستہ حال و آزُردہ و دردمند ہیں، تم ہمارے بغیر کیسے ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
افغان-اُزبک شاعرہ «شفیقه یارقین 'دیباج'» کی ایک فارسی رُباعی:

(بِیا)
گُل بی تو به چشمِ من چو خار است، بِیا
پاییز به غارتِ بهار است، بِیا
یک عاشقِ بی‌قرار و یک قلبِ فِگار
این‌جا به رهِ تو انتظار است، بِیا

(شفیقه یارقین 'دیباج')

(آ جاؤ)
گُل تمہارے بغیر میری چشم میں خار کی طرح ہے، آ جاؤ
خَزاں موسمِ بہار کو غارت و تاراج کر رہی ہے، آ جاؤ
ایک عاشقِ بے قرار اور ایک دلِ مجروح
یہاں تمہاری راہ کا مُنتَظِر ہے، آ جاؤ
 

حسان خان

لائبریرین
افغان-اُزبک شاعرہ «شفیقه یارقین 'دیباج'» کی ایک رُباعی:

(طهارت)
نامِ تو به لب حلاوتی می‌بخشد
یادِ تو به جان طراوتی می‌بخشد
تو مظهرِ لُطف و پاکیِ ایمانی
مِهرِ تو به دل طهارتی می‌بخشد

(شفیقه یارقین 'دیباج')

(‌طہارت)
تمہارا نام لب کو اِک شیرینی بخشتا ہے
تمہاری یاد جان کو اِک تازگی و شادابی بخشتی ہے
تم ایمان کے لُطف و پاکی کا مظہر ہو
تمہاری محبّت دل کو اِک طہارت بخشتی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
بس کہ در جانِ فگار و چشمِ بیدارم توئی
ہر کہ پیدا می شود از دُور، پندارم توئی


مولانا عبدالرحمٰن جامی

بس کہ میری تار تار جانِ فگار اور چشمِ بیدار (راہ پر لگی آنکھوں) میں تُم ہی تُم سمائے ہوئے ہو، اِس لیے دُور سے جو کوئی بھی ظاہر ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ تم ہو۔
 

انیس جان

محفلین
یکِ ذی علم در اسکول روزے
ترجمہ،، میں ایک صاحبِ علم سے سکول میں ملا

فتاد از جانبِ پبلک بدستم
اس کا ترجمہ حسان خان کریں گے

بدو گفتم کہ کفری یا بلائی
میں نے کہا کہ تو کافر ہے یا کوئی اور بلا

کہ پیشِ اعتقاداتِ تو پستم
کہ تیرے عقائد کے آگے میں بھی پست ہوں

بگفتا مسلمِ مقبول بودم
کہنے لگا میں بھی ایک اچھا مسلمان تھا

ولے یک عرصہ با ملحد نشستم
لیکن عرصے سے ایک ملحد کی صحبت میں رہا ہوں

جمالِ نیچری در من اثر کرد
اس کے کفریہ عقائد نے مجھ پہ بھی اثر کیا

وگرنہ من ہماں شیخم کہ ہستم
اگر اس کی صحبت میں نہ رہتا تو میں بھی ایک شیخ ہوتا

اکبر الہٰ آبادی
 

حسان خان

لائبریرین
روز در فکرِ شبِ دیجورم
شب در اندوه و غمِ فردایم

(شفیقه یارقین 'دیباج')
میں روز کے وقت شبِ تاریک کی فکر میں ہوتی ہوں، اور شب کے وقت روزِ فردا کے اندوہ و غم میں ہوتی ہوں۔
 
ڈیرا اسماعیل خان کے شاعر عطا اللہ خان گنڈاپور کی ایک غزل سے چند ابیات :
پیری و هر لحظه بیماری عذابِ اکبر است
خوش بُوَد یک‌بار مردن از به بستر زیستن

عمر رسیدگی اور ہر وقت بیماری بہت بڑا عذاب ہے. ایک بار (میں) مرنا بستر پر پڑے زندہ رہنے سے بہتر ہے.

ناتوانی‌ها و بیماری و تنگیِ معاش
گر همین پیری‌است، از مرگ است بدتر زیستن

ناتوانیاں، بیماری اور تنگیِ معاش، اگر یہی پیری(بڑھاپا) ہے تو یہ موت سے بدتر زندگی ہے.

چیست مردن از وبالِ زندگی وا رستن است
خوش بُوَد نازیستن از خوار و مضطر زیستن
(عطا الله خان 'عطا')

مرنا کیا ہے؟ زندگی کے وبال سے نجات پانا ہے!
زندہ نہ رہنا خوار و مضطر جینے سے بہتر ہے
 
گفتم که تو چون مصرعِ من گوهرِ نابی
یا قطره‌ی خونِ جگری؟ گفت که هر دو
(عطا الله خان 'عطا')

میں نے کہا کہ تو میرے مصرع کی مانند خالص گوہر ہے یا خونِ جگر کا قطرہ؟
اس نے کہا :دونوں
 
چیزی‌که گویی نغز بگو مختصر بگو
یک شعرِ ارجمند به دیوان برابر است
(عطا الله خان 'عطا' )

جو کچھ بھی کہو، بہتر کہو اور مختصر کہو (کیونکہ) ایک اعلیٰ شعر دیوان کے برابر ہوتا ہے.
 
Top