حسان خان

لائبریرین
رُخِ لیلیٰ شُنیدستم که مجنون را کند مجنون
چه حُسن است این تعالی الله، که مجنون کرد لیلیٰ را

(سید عمادالدین نسیمی)
میں نے سُنا ہے کہ لیلیٰ کا چہرہ مجنون کو مجنون کرتا ہے۔۔۔ [لیکن،] سُبحان اللہ! یہ کیسا حُسن ہے کہ جس نے لیلیٰ کو مجنون کر دیا!
 

محمد وارث

لائبریرین
من خود چنیں خرابم و مردم گماں برند
کایں بے خودی ز غایتِ اُستادیِ منست


بابا فغانی شیرازی

میں تو خود ایسا خراب حال و مست ہوں اور لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میری یہ بے خودی، میری اُستادی کے کمال و انتہا کی وجہ سے ہے۔
 
جگر آتش ،دل آتش، سینہ آتش ،دیدہا آتش
بایں ہر چار آتش کاروبارے کردہ ام پیدا
شاہ نیاز احمد
میرا جگر آگ ہے ، دل آگ ہے ، سینہ آگ ہے ، آنکھیں آگ ہیں ، ان چار قسم کی آگ سے میں اپنا کاروبار کر رہا ہوں ( زندگی گزار رہا ہوں )
 

حسان خان

لائبریرین

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در آرزویِ بوس و کنارت مُردم
وز حسرتِ لعلِ آب‌دارت مُردم
قصّه نکنم دراز کوتاه کنم
بازآ بازآ کز انتظارت مُردم

(حافظ شیرازی)
میں تمہارے بوسے و آغوش کی آرزو میں مر گیا۔۔۔ اور میں تمہارے لعلِ آب دار [جیسے لب] کی حسرت سے مر گیا۔۔۔ [چلو] میں قِصّہ دراز نہیں کرتا، کوتاہ کر دیتا ہوں۔۔۔ واپس آ جاؤ، واپس آ جاؤ، کہ میں تمہارے انتظار سے مر گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
جَور و بیداد و جفا کردن و عاشق کُشتن
زیبد آن را که چُنین شکل و شمایل دارد

(عُبَید زاکانی)
ظُلم و سِتم و جفا کرنا اور عاشق قتل کرنا اُس [فرد] کو زیب دیتا ہے کہ جو ایسی [خوب] شکل و صورت رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رنجیدم از دل، خواهَمَش زُلفِ سِتم‌کاری بَرَد
گردد هزاران پاره و هر پاره را تاری بَرَد

(محمد فضولی بغدادی)
میں [اپنے] دل سے رنجیدہ ہو گیا، میں چاہتا ہوں کہ کسی ستم گر [محبوب] کی زُلف اُس کو لے جائے!۔۔۔ [میرا وہ دل] ہزاروں پاروں میں [مُنقَسِم] ہو جائے اور ہر پارے کو [اُس زُلف کا] کوئی تار لے جائے!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مثنویِ مولانا رُومی سے چند ابیات:

صد هزاران سال ابلیسِ لعین
بود ز ابدال و امیر المؤمنین
پنجه زد با آدم از نازی که داشت
گشت رسوا همچو سَرگین وقتِ چاشت
[پنجه با مردان مزن ای بُوالْهَوَس
برتر از سلطان چه می‌رانی فرَس]
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اِبلیسِ لعین صد ہزاروں سال تک ابدال میں سے تھا اور امیر المؤمنین تھا۔ [لیکن] اُس کو جو غرور و تکبُّر تھا، اُس کے باعث اُس نے آدم سے پنجہ لڑایا، [اور نتیجتاً] وہ چاشت کے وقت کے گوبر کی مانند رُسوا ہو گیا۔ اے [شخصِ] بُوالْہَوَس! مردانِ [خدا] کے ساتھ پنجہ مت لڑاؤ!۔۔۔ سُلطان سے برتر و تیزتر تم اسْپ کس لیے دوڑاتے ہو؟

======================

محمد تقی جعفری نے اپنی کتاب «تفسیر و نقد و تحلیلِ مثنویِ جلال‌الدین محمّد بلخی» میں مندرجۂ بالا ابیات کی یوں تشریح کی ہے:

"نمی‌بینید که صدها هزار سال شیطان لعین جزء اولیاء‌الله بود، هنگامی که امتحانی پیش آمد و به او دستور داده شد که به آدم سجده کند، چگونه رسوا گشت؟ هرگز در اندیشهٔ آن مباشید که با برگزیدگان خدا پنجه درافکنید، زیرا - به سقوط شما خواهد انجامید."

ترجمہ:
"کیا آپ نہیں دیکھتے کہ شیطانِ لعین صدہا ہزار سال تک اولیاء اللہ کے زُمرے میں سے تھا، [لیکن] جس وقت ایک امتحان پیش آیا اور اُس کو حُکم دیا گیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے، تو وہ کیسے رُسوا ہو گیا؟ ہرگز اِس فکر میں نہ رہیے کہ آپ برگُزیدگانِ خدا کے ساتھ پنجہ لڑائیں گے، کیونکہ اِس کا انجام آپ کا سُقوط ہو گا۔"

× مندرجۂ بالا فارسی ابیات میں سے بیتِ ثالث صرف چند ایک نُسخوں میں نظر آئی ہے، اِس لیے اُس کو مُربّع قَوسین میں لکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بنگر بہ نقشِ ریگِ بیاباں کہ عاشقاں
تاریخِ عشقبازیِ مجنوں نوشتہ اند


ابوالفیض فیضی دکنی

بیابان کی ریت پر بنے ہوئے نقش و نگار کو (ذرا غور سے) دیکھ کہ (یہ اصل میں) عاشقوں نے مجنوں کے عشق کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حذر کن ز هم‌صُحبتِ ناپسند
که از تُخمِ حَنظَل مُحال است قند

(نِزاری قُهِستانی)
ناپسندیدہ و مذموم ہم صُحبت سے اجتناب و پرہیز کرو، کیونکہ حَنظَل کے تُخْم (بیج) سے قند [حاصل کرنا] مُحال ہے۔
× حَنظَل = ایک نہایت تلخ میوے کا نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ماهِ کشمیری‌رُخِ من، از ستم‌کاری که هست
می‌پسندد بر منِ بی‌چاره هر خواری که هست
(اَوحدی مراغه‌ای)

میرا کشمیری چہرے والا ماہ (معشوق)، اپنی سِتمکاری کے باعث مجھ بے چارے پر ہر وہ ذلّت و تحقیر پسند کرتا اور روا رکھتا ہے کہ جو [دُنیا میں] وجود رکھتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از حور و ماه و روح و پری هیچ دم مزن
کان‌ها به او نمانَد او چیزِ دیگر است
(مولانا جلال‌الدین رومی)

حُور و ماہ و رُوح و پری کے بارے میں ہرگز تکلُّم مت کرو کیونکہ یہ چیزیں اُس [محبوب] سے مشابہت نہیں رکھتیں، وہ [محبوب] چیزِ دیگر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پردهٔ شرم است مانِع در میانِ ما و دوست
شمع را فانوس از پروانه می‌سازد جدا
(صائب تبریزی)

ہمارے اور دوست کے درمیان پردۂ شرم مانِع ہے۔۔۔۔ شمع کو پروانے سے فانوس جدا کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ فخرالدین عراقی

عشقِ تو کہ سرمایۂ ایں درویش است
ز اندازۂ ہر ہوس پرستے بیش است
شورے است کہ از ازل مرا در سر بُود
کارے است کہ تا ابد مرا در پیش است


تیرا عشق کہ یہ اِس درویش کا (کُل) سرمایہ ہے، اور یہ سرمایہ اتنا ہے کہ ہر ہوس پرست کے اندازوں سے زیادہ ہے۔ تیرے عشق کا جنون، ایسا جنون ہے کہ جو ازل ہی سے میرے سر میں تھا، اور تیرا عشق ایک ایسا کام ہے کہ جو ابد تک میرے سامنے ہے اور مجھے یہ کام کرنا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز اندازۂ ہر ہوس پرستے بیش است
قاریوں کے ذہن میں رہے کہ یہاں لفظِ «اندازه» حد و مرتبہ و قدر کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جو فارسی میں اِس لفظ کا ایک معنی ہے۔ یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ جو عشق مجھ درویش کے پاس ہے، وہ خواہشِ نفْس کے پیروؤں کی حد و استطاعت سے بیرون ہے، اور اُن کی لیاقت اِتنی نہیں کہ وہ اِس عشق کی نعمت کے مالک ہو سکیں۔ فارسی میں اردو کی طرح یہ لفظ «تخمین» اور «گُمان» کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از دلِ خون‌گرمِ ما پَیکان کشیدن مشکل است
چون توان کردن دو یک‌دل را ز یک‌دیگر جدا؟
(صائب تبریزی)

ہمارے دلِ خوں‌گرم و بامحبّت سے تیر کی نوک کو [بیرون] کھینچنا مشکل ہے۔۔۔ دو یک‌دل [افراد] کو ایک دوسرے سے جُدا کیسے کیا سکتا ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دُعائیہ بیت:
به وصلِ خُراسان دلم شاد کن
ز هندِ جگرخوارم آزاد کن

(قُدسی مشهدی)
[اے خُدا!] خُراسان کے وصل سے میرے دل کو شاد کر دو، [اور] مجھ کو ہندِ جِگرخوار سے آزاد کر دو۔

× روایات کے مطابق ہِند بنت عُتبہ نے غزوۂ اُحُد میں حضرتِ حمزہ بن عبدالمُطّلب کا جگر کھایا تھا، اُسی کی مناسبت سے دیارِ ہِند کو بھی مندرجۂ بالا بیت میں جگرخوار (یعنی ظالم و ستمگر و بدبخت وغیرہ) کہا گیا ہے۔
 
Top