تصحیح: عشق کا کوئی غم گُسار نہیں مِلتا، [لہٰذا] درد [ہی] کو مزید سازگار کر لو۔عشق را غمگسار پیدا نیست
درد را سازگار تر گردان
صوفی تبسم
عشق کا کوئی غمگسار پیدا نہیں ہوا درد کو ہی سازگار کیجیے
بہت شکریہ بھائیتصحیح: عشق کا کوئی غم گُسار نہیں مِلتا، [لہٰذا] درد [ہی] کو مزید سازگار کر لو۔
قاریوں کے ذہن میں رہے کہ یہاں لفظِ «اندازه» حد و مرتبہ و قدر کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جو فارسی میں اِس لفظ کا ایک معنی ہے۔ یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ جو عشق مجھ درویش کے پاس ہے، وہ خواہشِ نفْس کے پیروؤں کی حد و استطاعت سے بیرون ہے، اور اُن کی لیاقت اِتنی نہیں کہ وہ اِس عشق کی نعمت کے مالک ہو سکیں۔ فارسی میں اردو کی طرح یہ لفظ «تخمین» اور «گُمان» کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا۔ز اندازۂ ہر ہوس پرستے بیش است