عجب مدار اگر خون بِگِریم از غمِ دین
دِلم ز تفرِقهٔ مُسلِمین دو صد چاک است
(محمد حُسین طالب قندهاری)

اگر میں دین کے غم کے باعث خون روؤں تو تعجُّب مت کرو۔۔۔ مُسلمانوں [کے مابین] تفرِقے سے میرا دل صد چاک ہے۔
برادرم حسان صاحب!
کیازبانِ فارسی میں جمعِ مسلم فقط مسلمین ہی استعمال کی جاتی ہے یا مسلمان بھی؟
جیساکہ جمعِ جانداربذریعہ"ان"بنانے کا بھی قاعدہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادرم حسان صاحب!
کیازبانِ فارسی میں جمعِ مسلم فقط مسلمین ہی استعمال کی جاتی ہے یا مسلمان بھی؟
جیساکہ جمعِ جانداربذریعہ"ان"بنانے کا بھی قاعدہ ہے۔
فارسی میں «مُسَلمانان» اور «مُسلِمین» دونوں درست ہیں، اور دونوں ہی استعمال ہوئے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مسلمانان تو جمع الجمع ہو گی۔۔۔ مسلم کی جمع مسلمان اور مسلمان کی مسلمانان ۔۔۔
«مُسَلْمان» میں جمع کا لاحقہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مُفرَد لفظ ہے۔ جبکہ «مُسْلِمان» (مُسْلِم‍ + ان) معیاری فارسی میں رائج نہیں رہا۔
 

حسان خان

لائبریرین
منَما سِتم تو هرگز به ضعیفِ مُستْمَندی
که جَوی نیَرزَد آن دل که دِلی شکسته باشد

(داراب افسر بختیاری)
تم کسی کمزورِ غمگین و بے نوا پر ہرگز سِتم مت کرو!۔۔۔ کیونکہ جس دل نے کسی دل کو توڑا ہو، وہ ایک جَو قدر [بھی] قیمت نہیں رکھتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی زبانِ فارسی کی سِتائش میں بیت:
گرچه الفاظِ عرب باشد فصیح
لیک همچون فارسی نبْوَد ملیح

(لُطف‌الله حلیمی)
اگرچہ زبانِ عربی فصیح ہے، لیکن وہ فارسی کی مانند ملیح (نمک دار و مزہ دار و شیریں) نہیں ہے۔
 
حسان بھائی! اس شعرِ قشنگ میں فعل مستقبل کے لئے خواہدشدن استعمال ہواہے۔
لیک بالعموم فارسی قواعدکی رو سے برای مستقبل خواہدکے بعد"شد"آتاہے۔
ضرورتِ شعری یا وجہِ دیگر؟
گروضاحت فرمادیں تو بسیارممنونم۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی! اس شعرِ قشنگ میں فعل مستقبل کے لئے خواہدشدن استعمال ہواہے۔
لیک بالعموم فارسی قواعدکی رو سے برای مستقبل خواہدکے بعد"شد"آتاہے۔
ضرورتِ شعری یا وجہِ دیگر؟
گروضاحت فرمادیں تو بسیارممنونم۔
یہ مُراسلہ دیکھیے:
مصدرِ مُرَخَّم
مبتدیوں کو فارسی کا زمانۂ مستقبل سکھاتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ زمانہ 'خواستن' کے مضارع اور موردِ نظر فعل کے بُنِ ماضی سے (مثلاً خواهد + شد) مل کر بنتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں استعمال ہونے والا صیغہ بُنِ ماضی نہیں، بلکہ مصدرِ مُرَخَّم (دُم بُریدہ) ہے۔ مصدرِ مرخّم اُس مصدر کو کہتے ہیں جس میں سے 'ن' کو حذف کر دیا گیا ہو اور یہ کسی بھی مصدر کی مُخفَّف شکل ہوتی ہے۔ 'آمد و رفت'، 'خواب و خورد'، 'گفت و شنید'، 'نشست و برخاست' وغیرہ میں مرخّم مصادر ہی کا استعمال ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تراکیب ماضی کا مفہوم نہیں، بلکہ مصدروں کا مفہوم دیتی ہیں۔ چونکہ مصدر کی یہ صورت بُنِ ماضی سے مشابہ ہوتی ہے، لہٰذا غلطی سے، یا پھر مبتدیوں کو الجھن سے دور رکھنے کے لیے، یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ زمانۂ مستقبل میں بُنِ ماضی استعمال ہوتا ہے۔ امّا، غیر مبتدیوں کے لیے مصدرِ مرخّم اور بُنِ ماضی کے درمیان فرق سمجھنا اہم ہے۔
فارسی کی کہنہ نثر میں مستقبل کے لیے 'خواستن' کے مضارع کے بعد مصدرِ کامل بھی استعمال ہوتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں اُن کا استعمال کم سے کمتر ہوتا گیا، اور پھر صرف شاعری ہی میں مستعمَل رہ گئے، ورنہ عموماً مصدرِ مرخّم ہی استعمال ہوتے ہیں۔ نثرِ کہن میں کہیں مثال نظر آئی تو ضرور پیش کروں گا۔
'بایستن' اور 'توانستن' کی مدد سے بننے والے افعال کا بھی یہی حکم ہے۔ اُن میں بھی بُنِ ماضی نہیں، بلکہ مصدرِ مرخّم استعمال ہوتا ہے۔ البتہ، شاعری میں مصدرِ کامل بھی استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔ شاعری سے مثالیں دیکھیے:

شمع را باید از این خانه بِِدر بُردن و کُشتن
تا به همسایه نگوید که تو در خانهٔ مایی
(سعدی شیرازی)

'باید بردن و کشتن' کی بجائے عموماً 'باید برد و کشت' استعمال ہوتا ہے۔

چون زلیخا هر که در عشقِ جوانان پیر شد
از ورق‌گردانیِ دوران جوان خواهد شدن
(صائب تبریزی)
در کمینِ شعلهٔ هر شمع داغی خُفته‌است
هر کجا تاجی‌ست آخر نقشِ پا خواهد شدن
(بیدل دهلوی)

'خواهد شدن' کی بجائے عموماً 'خواهد شد' استعمال ہوتا ہے۔

وصل را گرچه به کوشش نتوان یافت ولی
هجر را مانعِ سودای تو نتْوان کردن
(محتشَم کاشانی)

اِس شعر میں نتوان کے ساتھ مصدرِ مرخّم (یافت) اور مصدرِ کامل (کردن) دونوں کا استعمال ہوا ہے۔

میانِ بحر به یادِ گهر توان رفتن
هوایِ زهر به شوقِ شَکَر توان کردن
(فروغی بسطامی)

'توان رفتن' اور 'توان کردن' کی بجائے عموماً 'توان رفت' اور 'توان کرد' استعمال ہوتے ہیں۔

وعلیٰ ہذا القیاس۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرفتم این که کتابِ خِرَد فُروخواندی
حدیثِ شوق نفهمیده‌ای دریغ از تو
(علّامه اقبال لاهوری)

میں نے یہ مان لیا کہ تم نے کتابِ عقل و خِرد کا مُطالعہ کر ڈالا ہے، [لیکن] تم پر افسوس! کہ تم نے حدیثِ شوق و اشتیاق کو فہم نہیں کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
آنی که فلک با تو درآید به طرَب
گر آدمی‌ای شیفته گردد چه عجب
تا جان بُوَدم بندَگیت خواهم کرد
خواهی بِطَلب مرا و خواهی مطَلب
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تم وہ ہو کہ تمہارے ساتھ [تو] فلک بھی طرَب میں آ جاتا ہے، [لہٰذا] اگر کوئی انسان [تمہارا] شیفتہ ہو جائے تو کیا عجب؟۔۔۔ جب تک مجھ میں جان ہے میں تمہاری غُلامی و بندگی کروں گا۔۔۔ خواہ تم میری خواہش کرو، یا خواہ نہ کرو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دردا که هیچ در دلِ سختت اثر نکرد
اشکِ روان و آهِ دلِ دردناکِ ما
(فُروغی بسطامی)

آہ! کہ ہمارے اشکِ رواں، اور ہمارے دلِ دردناک کی آہ نے تمہارے دلِ سخت پر ذرا بھی اثر نہ کیا!
 
منَما سِتم تو هرگز به ضعیفِ مُستْمَندی
که جَوی نیَرزَد آن دل که دِلی شکسته باشد

(داراب افسر بختیاری)
تم کسی کمزورِ غمگین و بے نوا پر ہرگز سِتم مت کرو!۔۔۔ کیونکہ جس دل نے کسی دل کو توڑا ہو، وہ ایک جَو قدر [بھی] قیمت نہیں رکھتا۔

فارسی میں «مُسَلمانان» اور «مُسلِمین» دونوں درست ہیں، اور دونوں ہی استعمال ہوئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سوز و گدازِ زندگی، لذتِ جستجوئے تو
راہ چو مار می گزد، گر نروم بسوئے تو


علامہ محمد اقبال ۔ (زبورِ عجم)

میری زندگی میں سوز و ساز و گداز و حرارت صرف تیری جستجو اور تلاش کی لذت میں ہے اور اگر میں تیری طرف نہ جاؤں اور کسی اور طرف چل نکلوں تو راستے مجھے سانپوں کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیده پُرنور شود نرگسِ نابینا را
گر به گُلشن رسد از پیرهنِ او بویی
(مُحتَشَم کاشانی)

اگر گُلشن میں اُس (محبوب) کے پیرہن کی ذرا بُو پہنچ جائے تو نرگسِ نابینا کی چشم پُرنُور (بینا) ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشق اگر آتش نباشد، آهِ من سوزان چراست
ور دلِ من خون نشد، خوناب ازو چون می‌چکد

(عبدالرحمٰن مُشفِقی)
اگر عشق آتش نہیں ہے تو میری آہ، سوزاں (جلتی ہوئی) کیوں ہے؟۔۔۔ اور اگر میرا دل خُون نہیں ہوا، تو اُس [میں] سے خُوناب کیسے ٹپکتا ہے؟
 
Top