حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
دلی دارم که می‌خوانند غم‌خواران گُلستانش
گُلش داغ و فغانش عندلیب آه است رَیحانش
(نَورس افندی)

میرے پاس ایک [ایسا] دل ہے کہ جس کو غم خواراں گُلستان پُکارتے ہیں۔۔۔ اُس کا گُل داغ، اُس کا بُلبُل فغاں، اور اُس کا رَیحان آہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
جهان آیینهٔ عشق است و دل طوطیِ خندانش
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

جہان آئینۂ عشق ہے، اور [میرا] دل اُس کا طوطیِ خنداں۔
 

حسان خان

لائبریرین
زرتُشتی اور شیعی روایات کا امتزاج:
چون دودمانِ آتشِ زرتُشت، تا ابد
خاموشی از تبارِ تو دُور است، یا حُسین
(عبدالجبّار کاکایی)

یا حُسین! آتشِ زرتُشت کے خاندان و ذُرّیت کی مانند، آپ کے خانوادے سے معدومی تا ابد دُور ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی رُباعی:
(رباعی)
کُفّار به من چُنانکه مُؤمن خوانند
پیرانِ شریعتم ز مسجد رانند
چون نامهٔ اعمال به حشرم خوانند
کُفّار و مُوَحِّدان که هستم دانند
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

کُفّار جس طرح مجھ کو مؤمن پُکارتے ہیں، [اُسی طرح] پیرانِ شریعت مجھ کو مسجد سے بھگا دیتے ہیں۔۔۔ جب میرا نامۂ اعمال بہ روزِ حشر خوانا (پڑھا) جائے گا تو کُفّار و مُسلمانان جان جائیں گے کہ میں [در حقیقت] کون ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
ز قیدِ قالبِ صلصال بیرون شو که جان باشی
ز جانِ خویش هم بِگْذر که تا جانِ جهان باشی
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

خاک و گِل [سے بنے] قالِب و بدن کی قید سے بیرون آ جاؤ تاکہ جان ہو جاؤ۔۔۔ [بعد ازا‌ں] اپنی جان کو بھی تَرک کر دو تاکہ جانِ جہاں ہو جاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
به معمارِ غمت نَو ساختم ویرانهٔ خود را
به یادت کعبه کردم عاقِبت بُت‌خانهٔ خود را
(خالد بغدادی)

میں نے تمہارے غم کے مِعمار سے خود کے ویرانے کو دوبارہ تعمیر و مرمّت کر لیا۔۔۔ میں نے تمہاری یاد سے خود کے بُت خانے کو بالآخر کعبہ کر لیا۔
(مصرعِ اوّل میں محبوب کے غم کو ایک مِعمار سے تشبیہ دی گئی ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
به یادت طُور گردانیدم آتش‌خانهٔ خود را
ز نُورت مِهرِ محشر ساختم پروانهٔ خود را
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

میں نے تمہاری یاد سے خود کے آتش خانے کو کوہِ طُور میں تبدیل کر لیا۔۔۔ میں نے تمہارے نُور سے خود کے پروانے کو خورشیدِ محشر بنا دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
سال‌ها باید عدید و قرن‌ها باید مدید
تا چو ذُوالقرنَین شاهی از قُرون آید بُرون
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

کئی سال اور دراز صدیاں درکار ہوتی ہیں، تب جا کر کوئی ذُوالقرنَین جیسا شاہ زمانوں میں سے بیرون آتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سال‌ها باید که اندر آفتاب
لعل یابد رنگ و رخشانی و تاب
(مولانا جلال‌الدین رومی)

لعل کو آفتاب (دهوپ) میں [رہ کر] رنگ و درخشندگی و تابندگی پانے کے لیے سالوں درکار ہوتے ہیں۔
× قُدَماء کا باور تھا کہ سنگ نُورِ خُورشید میں صدیوں تک رہ کر لعل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
آفتابا ز چه رُو پیشِ مهِ ما بِنَمایی
خبرت نیست که در جلوه‌گهش هم‌چو سحابی
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

اے خورشید! تم کس لیے ہمارے ماہ کے پیش میں چہرہ دِکھاتے ہو؟۔۔۔ [کیا] تم کو خبر نہیں ہے کہ اُس کی جلوہ گاہ میں تم ابر کی مانند ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
فدایِ نامِ پاکِ چار یارم
به جان و دل غُلامِ چار یارم
(جعفر زتلّی)

میں چار یار کے نامِ پاک پر فدا ہوں۔۔۔ میں جان و دل سے چار یار کا غُلام ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
این دهرِ دل‌آزار عَجوزی‌ست جگرخوار
بالله کسی نیست که از مَکرَش امین است
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

یہ دل‌آزار زمانہ و دُنیا، ایک جگرخوار پِیرزَن (بُڑھیا) ہے۔۔۔ خُدا کی قسم! کوئی شخص [ایسا] نہیں ہے کہ جو اِس کے مکر و فریب سے محفوظ ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سُلیمان قانونی 'مُحِبّی' کی ایک فارسی بیت:
هر کس ز یار اگرچه وفا آرزو کند
عاشق کسی بُوَد که جفا آرزو کند

(سُلطان سُلیمان قانونی 'مُحِبّی')
اگرچہ ہر شخص یار سے وفا کی آرزو کرتا ہے، [لیکن] عاشق وہ شخص ہے کہ جو جفا کی آرزو کرتا ہے۔
 
من قدم بیرون نمی‌یارم نهاد از کویِ دوست
دوستان معذور داریدم که پایم در گل است
(سعدی شیرازی)

میں محبوب کے کوچے سے قدم بیرون رکھنے کی جرات نہیں رکھتا. اے دوستاں! مجھے معاف کرو کہ میرا پاؤں کیچڑ میں ہے
 

حسان خان

لائبریرین
نعتیہ ابیات:
محمّد که نورش جهان آفرید
به نامش خُدا اِنس و جان آفرید
از او یافته آفرینِش وُجود
وُجودش شد اسبابِ بود [و] نبود

(لاادری)
حضرتِ محمّد، کہ جن کے نُور نے جہان کو خَلق کیا۔۔۔ اُن کے نام سے خُدا نے انسانوں اور جِنوں کو خَلق کیا۔۔۔ [کُل] آفرینِش و مخلوقات کو اُن کے طُفیل وُجود مِلا۔۔۔ اُن کا وُجود ہستی و نیستی کا سبب بنا۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی رُباعی:
(رباعی)
ای ملجأِ بی‌کسان و ای بارخُدای
هم فاتحِ ابوابی و هم راه‌نمای
در کویِ بلا بِمانده‌ام بی‌سر و پای
یا راه نما مرا ویا در بِگُشای
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

اے بے کسوں کی پناہ گاہ! اور اے خُدائے بُزُرگ!۔۔۔ تم دروازے کھولنے والے بھی ہو اور راہ دِکھانے والے بھی ہو۔۔۔ میں کُوئے بلا میں عاجز و درماندہ رہ گیا ہوں۔۔۔ یا تو مجھ کو راہ دِکھاؤ، یا [کوئی] در کھول دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رُباعی)
با یارِ نو از غمِ کُهن باید گُفت
با او به زبانِ او سُخن باید گُفت
لاتَفعَل و إفعَل نکند چندین سود
چون با عجمی کُن و مکُن باید گُفت


نئے یار سے غمِ کُہَن کہنا چاہیے۔۔۔ اُس کے ساتھ اُس کی زبان میں سُخن کہنا چاہیے۔۔۔ «لاتَفعَل» اور «اِفعَل» اِتنا زیادہ فائدہ نہیں کرتا۔۔۔ جب تم عجم کے ساتھ ہوؤ تو «کُن» اور «مکُن» کہنا چاہیے۔

× میں نے یہ رُباعی «نجم‌الدین رازی» کی کتاب «مِرصاد‌ُ العِباد» میں دیکھی ہے، لیکن ایک مُحقِّقانہ مقالے میں یہ رُباعی «سیف‌الدین باخَرْزی» سے منسوب نظر آئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز سودایت چُنان بدنام گشتم در همه عالَم
به گوشِ خود شنیدم هر طرف افسانۀ خود را
(خالد بغدادی)

میں تمہارے عشق و جُنون کے باعث کُل عالَم میں اِس طرح بدنام ہو گیا کہ میں نے خود [ہی] کے کان سے ہر طرف خود کا افسانہ سُنا۔
 

انیس جان

محفلین
غریبم "یارسول اللہ" غریبم
ترجمہ کی ضرورت نہیں

ندارم در جہاں جز تو حبیبم
تیرے سوا میرا دنیا میں کوئی حبیب نہیں

بریں نازم کہ ہستم امتِ تو
میں اس بات پہ فخر کرتا ہوں کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں

گنہگارم ولیکن خوش نصیبم
اگرچہ گنہگار ہوں لیکن خوش نصیب ہوں
 
Top