حسان خان

لائبریرین
در صَومَعه چند خود پرستی؟
رَو باده‌پرست شو چو اوباش
(فخرالدین عراقی)

خانقاہ میں کب تک خود کی پرستِش کرو گے؟۔۔۔ جاؤ اوباش کی مانند بادہ پرست ہو جاؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جُز نقشِ نگار هر چه بینی
از لوحِ ضمیر پاک بِخْراش
(فخرالدین عراقی)

محبوب کے نقش کے بجز تم جو کچھ بھی دیکھو اُس کو لوحِ ضمیر سے خراش کر بالکل محو و محذوف کر دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
دردِ رسوایی نخواهد داشت درمان، ای طبیب!
خویش را رسوا مکن، ما را مرنجان، ای طبیب!
(محمد فضولی بغدادی)

اے طبیب! دردِ رُسوائی کا کوئی درمان و علاج نہ ہو گا۔۔۔ [لہٰذا،] اے طبیب!، خود کو رُسوا مت کرو، [اور] ہم کو رنجیدہ مت کرو۔ (یعنی ہمارے درد کے درمان کی کوشش تَرک کر دو، وگرنہ ناکام ہو کر رُسوا ہو جاؤ گے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
به خُلدم دعوت ای زاهد مفرما
که این سیبِ زنَخ زان بوستان بِه
(حافظ شیرازی)

اے زاہد! مجھے بہشت کی جانب دعوت مت فرماؤ۔۔۔ کیونکہ [محبوب کا] یہ سیبِ زنَخداں اُس گلستان سے بہتر ہے۔
× زنَخداں = ذقن، چانہ، ٹھوڑی
 

حسان خان

لائبریرین
به آبِ رُویِ هِمّت خاک را زر می‌توان کردن
غلط کردم که عُمرِ خویش صَرفِ کیمیا کردم

(صائب تبریزی)
اِرادهٔ بُلند و عزمِ قوی (یا سعی و کوشش) کی آبرو و شرَف (یا پسینے) سے خاک کو زر کیا جا سکتا ہے۔۔۔ میں نے غلط کیا کہ میں نے خود کی عُمر کو کیمیا میں صَرف کیا۔

تشریح:
کِیمیا اُس فرضی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے گویا مِس (تانبے) کو زر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ شاعر بیتِ ہٰذا میں اِس بات پر افسوس ظاہر کر رہا ہے کہ اُس نے اپنی قیمتی عُمر کو کیمیا کی تلاش میں صَرف کیا، کیونکہ ظاہراً اُس کو معلوم ہوا ہے کہ در اصل حقیقی کیمیا تو خود انسان کا بُلند عزم و اِرادہ ہے جس سے خاک کو بھی زر کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر انسان عالی عزم ہو اور یہ قصد کر لے کہ میں کسی طرح اِس خاک کو زر کروں گا تو یقیناً اُس کی کوشش ثمرآور ہو گی، لیکن اگر خود کوشش کیے بغیر صرف کِیمیا و اِکسیر کی تلاش میں سرگرداں رہے گا تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ شاعر کہتا ہے کہ کاش اُس کو یہ چیز قبلاً معلوم ہو جاتی تاکہ اُس کی عُمر تلاشِ لاحاصل میں ضائع نہ ہوتی اور وہ اپنا عزم و اِرادہ عالی کر کے اور سعی و کوشش کر کے خود ہی خاک کو زر میں تبدیل کر لیتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
با این که سُخن به لُطف آب است
کم گُفتنِ هر سُخن صواب است

(نظامی گنجوی)
باوجود اِس کے کہ سُخن لُطف میں آب [جیسا] ہے۔۔۔ [تاہم] ہر سُخن کو کم بولنا [کارِ] دُرُست و معقول ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ شرف الدین (المعروف بُو علی قلندر)

آوازۂ عشقِ من بہ ہر خانہ رسید
دردِ دلِ من بخویش و بیگانہ رسید
اندر غمِ عشقِ تو بہر جا کہ رَوَم
از دُور بگویند کہ دیوانہ رسید


میرے عشق کا چرچا گھر گھر تک پہنچ گیا، اور میرے دل کے درد سے اپنے بیگانے سبھی آشنا ہو گئے۔ تیرے عشق کے غم میں (مارا مارا) میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں، لوگ دُور ہی سے (مجھے دیکھ کر) کہتے ہیں کہ لو دیوانہ پہنچ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز حبیبِ خود شُنیدم که به نزدِ ما جمادی
بِه از آن وُجود باشد که درو هوا نباشد
(سلمان ساوجی)

میں نے اپنے حبیب سے سُنا کہ: ہمارے نزدیک اِک بے جان چیز اُس وُجود سے بہتر ہے کہ جس میں عشق و آرزو نہ ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» کی سِتائش میں کہی گئی نظم سے ایک بیت:

گنجِ گنجه می‌فشاند چون سراید مثنوی
بُویِ جامی می‌دِهد چون جام پُرصهبا کند

(خلیل‌الله خلیلی)

جس وقت وہ مثنوی کہے تو وہ «گنجہ» کا خزانہ افشاں کرتا ہے۔۔۔ جس وقت وہ جام کو پُرشراب کرے تو وہ «جامی» کی خوشبو دیتا ہے۔

× «گنجِ گنجه» سے «نظامی گنجوی» کی جانب اشارہ ہے، کیونکہ وہ شہرِ «گنجه» سے تعلق رکھتے تھے جو فی زمانِنا جمہوریۂ آذربائجان میں واقع ہے۔ صِنفِ مثنوی میں «نظامی» کو اُستاد مانا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مزاجِ عشق را نیکو ‌نمی‌داند کسی ور نه
ز اِکسیرِ محبّت خاک را زر می‌توان کردن

(اکبر اصفهانی)
عشق کے مِزاج و فطرت کو کوئی شخص بخوبی نہیں جانتا، ورنہ محبّت کی اِکسیر سے خاک کو زر کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای دل همیشه عاشق و همواره مست باش
کان کس که مستِ عشق نشد هوشیار نیست
(عُبَید زاکانی)

اے دل! ہمیشہ عاشق اور دائماً مست رہو۔۔۔ کیونکہ جو شخص مستِ عشق نہ ہوا، وہ ہوشیار نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه یادت می‌دهد لختی تسلّی بر دلم
بی تو شب‌ها بدتر از شامِ غریبان می‌شود
(نسرین حُسینی شیرازی)

اگرچہ تمہاری یاد میرے دل کو ذرا سی تسلّی دیتی ہے، [تاہم] تمہارے بغیر [میری] شبیں شامِ غریباں سے بدتر ہو جاتی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
رسید مُژده که ایّامِ غم نخواهد مانْد
چُنان نمانْد چُنین نیز هم نخواهد مانْد
(حافظ شیرازی)

مُژدہ (خوش خبری) پہنچا [ہے] کہ ایّامِ غم باقی نہ رہیں گے۔۔۔ ویسا [وقت] باقی نہ رہا، [پس] ایسا [وقت] بھی باقی نہ رہے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
عشق داغی‌ست که تا مرگ نیاید نرَوَد
(سعدی شیرازی)

عشق اِک [ایسا] داغ ہے کہ جب تک موت نہ آجائے، نہیں جاتا۔

× اِس مصرعے میں «داغ» دھبّے کے معنی میں نہیں، بلکہ اُس داغ و نشان کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو جلتے ہوئے آہن کے ذریعے حیوان یا انسان کی پوسْت (کھال) پر لگایا جاتا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
ای آسمان بِنال که هنگامِ ماتم است
شادی حرام گشت که ماهِ مُحرّم است
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

اے آسمان! نالہ کرو کیونکہ وقتِ ماتم ہے۔۔۔ شادمانی حرام ہو گئی، کیونکہ ماہِ مُحرّم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای دل بِنال زار که هنگامِ ماتم است
وز دیده اشک بار که ماهِ مُحرّم است
(وقار شیرازی)

اے دل! زاری کے ساتھ نالہ کرو کیونکہ وقتِ ماتم ہے۔۔۔ اور چشم سے اشک برساؤ کیونکہ ماہِ مُحرّم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای دیده خون بِبار که ماه مُحرّم است
نزدِ خُدای، دیدهٔ گریان مُکرّم است
(سروش اصفهانی)

اے چشم! خون برساؤ کہ ماہِ مُحّرم ہے۔۔۔ خدا کے نزدیک چشمِ گِریاں مُکرّم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چشمی که در عزایِ حُسین اشک‌بار نیست
ایمِن ز هولِ محشر و روزِ شُمار نیست
(هُمای شیرازی)

جو چشم عزائے حُسین میں اشک بار نہیں ہے۔۔۔ وہ محشر و روزِ حساب کے خوف و ہَول ناکی سے محفوظ نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از آسمان هِلالِ مُحرّم چو شد بُرون
رفت از دلِ زمین و زمان، طاقت و سُکون
(جلال‌الدین هُمایی 'سنا')

آسمان سے جوں ہی ہِلالِ مُحرّم بیرون آیا، زمین و زماں کے دل سے طاقت و سُکون چلا گیا۔
 
Top