حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی بیت:
خُروسِ عرشِ معنایی بلالِ کعبهٔ دل شو
در این چِرکاب‌زارِ دهر تا کَی ماکیان باشی

(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)
تم عرشِ معنی کے مُرغے ہو، کعبۂ دل کے «بِلال» بن جاؤ۔۔۔ تم کب تک دُنیا و زمانہ کے اِس پلیدی‌زار میں خانَگی مُرغی بنے رہو گے؟
× خانَگی = گھریلو؛ پالتو
 

حسان خان

لائبریرین
اُمیدهاست مرا کز خودم جُدا نکنی
وگر تو قصدِ جُدایی کُنی خُدا مکُناد
(نِزاری قُهِستانی)

مجھے اُمیدیں ہیں کہ تم مجھ کو خود سے جُدا نہیں کرو گے!۔۔۔ اور اگر تم [بالفرض] جُدائی کا قصد کرو تو [میری دُعا ہے کہ] خُدا ایسا نہ ہونے دے!
 

محمد وارث

لائبریرین
دلیل و حُجتِ حق دیگر است و حق دیگر
طریقِ جہل ہزار و رہِ شناخت یکے


نظیری نیشاپوری

حق کے بارے میں دلیلیں دینا اور حجتیں اور تاویلیں بیان کرنا کوئی اور چیز ہے اور حق کچھ اور ہے۔ جہالت اور نادانی کے تو ہزاروں طریقے اور راستے (دلائل) ہیں لیکن شناخت اور عرفان کی بس ایک ہی راہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی سلطنت کے ایک شاعر کی ایک فارسی رُباعی:
(رباعی)
دیدم به درِ مَی‌کده مستی پُردرد
در دست سبُویِ مَی به لب نالهٔ سرد
گُفتم که سبُو زیرِ عبا باید داشت
گُفتا که به ماهِ رمَضان باید کرد
(یئنی‌شهرلی عَونی بیگ)

میں نے میکدے کے در پر ایک پُردرد مست کو دیکھا۔۔۔ جس کے دست میں شراب کا کُوزہ، اور لب پر نالۂ سرد تھا۔۔۔میں نے کہا کہ کُوزۂ [شراب] کو عبا کے زیر میں [پوشیدہ] رکھنا چاہیے۔۔۔ اُس نے کہا کہ [ایسا] ماہِ رمضان میں کرنا چاہیے (یا ایسا ماہِ رمضان میں کرنا ضروری ہے)۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
دلیل و حُجتِ حق دیگر است و حق دیگر
طریقِ جہل ہزار و رہِ شناخت یکے


نظیری نیشاپوری

حق کے بارے میں دلیلیں دینا اور حجتیں اور تاویلیں بیان کرنا کوئی اور چیز ہے اور حق کچھ اور ہے۔ جہالت اور نادانی کے تو ہزاروں طریقے اور راستے (دلائل) ہیں لیکن شناخت اور عرفان کی بس ایک ہی راہ ہے۔

ویسے وارث صاحب اس شعر سے اختلاف ممکن ہے کیونکہ آیت ہے

(آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین “۔ (العنکبوت : ٦٩)

مفہوم : اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہد کیا ہم ضرور انھیں اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے اور بیشک اللہ ضرور نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس سے اشکال ہوتا ہے منزل چاہے ایک ہو، طریقہ چلنے کا بھی ایک ہو، مگر "رہِ شناخت یکے" چہ معنی دارد؟ ممکن ہے کوئی صاحبِ علم بشمول آپ کے یہ اشکال حل کر دے -ہرچند روحِ شعر میں پا گیا کہ بقول شخصے (شاید یہ شخص میں ہی ہوں ):

بحثِ لا یعنی کا کیا حاصل
حق حق ہے اور باطل باطل
 

حسان خان

لائبریرین
بُوَد علم میراثِ پیغمبران
روا نیست غفلت نمودن از آن
(سید محمد شافی قُریشی)

علم پیغمبروں کی میراث ہے۔۔۔ اُس سے غفلت کرنا روا نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اطرافِ جهان پُر از پری‌رُوی
چون دیده بِدوزد آدمی‌زاد

(نِزاری قُهِستانی)
جہان کی [تمام] سَمتیں پری رُو [زیباؤں] سے پُر ہے۔۔۔ [کوئی] آدم زاد (یعنی انسان) چشم کیسے بند کرے (چشم پوشی و صَرفِ نظر کیسے کرے)؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دِلم بی‌دوست چون ماهی‌ست بی‌آب
مُعافش دار اگر طاقت نیارد

(نِزاری قُهِستانی)
دوست کے بغیر میرا دل ماہیِ بے آب کی مانند ہے۔۔۔ اگر وہ تاب نہ لائے (دُوری کو تحمُّل نہ کر سکے) تو اُس کو مُعاف رکھو!
× ماہیِ بے آب = بے آب مچھلی
 

حسان خان

لائبریرین
خوب می‌دانم وفا از خود، جفا از یارِ خود
زان که او در کارِ خود خوب است و من در کارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
میں اپنی جانب سے وفا، اور اپنے یار کی جانب سے جفا کو خوب و بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے کار میں خوب ہے، اور میں اپنے کار میں۔ (یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میری نظر میں مُناسب و بہتر یہی ہے کہ میری جانب سے وفا ہو، اور یار کی جانب سے جفا ہو، کیونکہ میں وفا کرنے میں ماہر ہوں، جبکہ میرا یار جفا کرنا بخوبی جانتا ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
من کِیَم تا افکنَد آن سرْو بر من سایه‌ای؟
کاش بِگْذارد مرا در سایهٔ دیوارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
میں کون ہوں کہ وہ [محبوبِ] سرْو قامت مجھ پر ذرا سایہ ڈالے؟۔۔۔ [یہی کافی ہے کہ] کاش وہ مجھ کو اپنی دیوار کے سائے میں جانے دے دے!
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کند هر لحظه روزم را سیاه از دودِ آه
می‌کَشم صد آه هر دم از دلِ افگارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
[میرا دل اپنی] آہ کے دُھوئیں سے ہر لمحہ میرے روز کو سیاہ کر دیتا ہے۔۔۔ میں اپنے دلِ مجروح کے باعث ہر دم صد آہیں کھینچتا ہوں!
 

حسان خان

لائبریرین
ای که از دستِ دلم هر دم شکایت می‌کنی
گر نمی‌خواهی، برافشان طُرّهٔ طرّارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
اے [محبوب] کہ جو ہر دم میرے دل کے سبب شکایت کرتے ہو!۔۔۔ اگر تم [ایسا] نہیں چاہتے تو اپنی زُلفِ طرّار کو بِکھرا دو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بیہودہ رَوَد بادِ صبا بر اثرِ ما
ما گم شدگانیم کہ یابد خبرِ ما


چندر بھان برہمن

بادِ صبا فضول ہی ہمارے کھوج میں چلتی ہے، ہم تو (عشق میں) گم شدہ ہیں، ہماری خبر کون پائے؟
 

حسان خان

لائبریرین
بِیا، که بی‌تو دلم راحتی نمی‌یابد
بِیا، که بی‌تو ندارد دو دیده بینایی
(فخرالدین عراقی)

آ جاؤ، کہ تمہارے بغیر میرا دل کوئی راحت نہیں پاتا۔۔۔ آ جاؤ، کہ تمہارے بغیر [میری] دو چشمیں بینائی نہیں رکھتیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
من و ابری که برمی‌خیزد از دشت
دو هم‌دردیم، می‌گِرییم با هم
(میر تقی میر)

مَیں، اور اِک ابر کہ جو دشت سے بالا اُٹھتا ہے۔۔۔ ہم دو ہم‌درد ہیں (یعنی ہم یکساں درد رکھتے اور ایک دوسرے کے غم میں شریک ہیں)، ہم باہم [مِل کر] گِریہ کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مکن ای دوست ملامت منِ سودایی را
که تو روزی نکشیدی غمِ تنهایی را
(هُمام‌الدین تبریزی)

اے دوست! مجھ عاشق و مجنون کو ملامت مت کرو۔۔۔ کیونکہ تم نے کسی [بھی] روز تنہائی کا غم نہیں کھینچا [ہے]۔ (لہٰذا تم نہیں جانتے کہ مجھ پر کیا گُذر رہی ہے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
چہ حاصل گر ہزاراں گُل دمد یا صد بہار آید
مرا چوں با تو کار افتادہ است اینہا چہ کار آید


ہلالی چغتائی

کیا فائدہ اگر ہزاروں پُھول کھلیں یا سو سو بہار آئے، میرے جب سارے معاملے تجھ سے ہیں، مجھے جب کام ہی تجھ سے ہے تو یہ باغ و بہار کس کام کے؟
 

لاریب مرزا

محفلین
چہ حاصل گر ہزاراں گُل دمد یا صد بہار آید
مرا چوں با تو کار افتادہ است اینہا چہ کار آید


ہلالی چغتائی

کیا فائدہ اگر ہزاروں پُھول کھلیں یا سو سو بہار آئے، میرے جب سارے معاملے تجھ سے ہیں، مجھے جب کام ہی تجھ سے ہے تو یہ باغ و بہار کس کام کے؟
بہت خوب!!!
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری کی سِتائش میں ایک بیت:
تا سر از خاور برآرَد آفتابِ خاوری
می‌تپد فرهنگِ ما در سینهٔ شعرِ دری

(سید ابوالفضل قاضی شریعت‌پناهی)
جب تک آفتابِ مشرقی مشرق سے طُلوع ہو[تا رہے] گا (یعنی تا قیامت)، ہماری ثقافت شعرِ فارسی کے سینے میں دھڑکتی [رہے] گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کے برادر «امیر ابویعقوب یوسف بن ناصرالدین غزنوی» کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے تین ابیات:

از پَیِ آن‌که در از خیبر برکَند علی
شیرِ ایزد شد و بِگْذاشت سر از عِلِّیین
درِ قُسطَنطین صد ره ز درِ خیبر مِه
قاضیِ شهر گواهی دِهد اِمروز بر این
گر خُداوندِ مرا شاهِ جهان امر کند
برِ شاه آرد در دست درِ قُسطَنطین

(فرُّخی سیستانی)

چونکہ حضرتِ علی نے درِ خیبر اُکھاڑا تھا، لہٰذا وہ شیرِ خُدا ہو گئے اور جنّت کے بالائی طبقے و درجے سے [بھی] بالا گُذر گئے۔
درِ قُسطَنطین (قُسطَنطینیہ) درِ خیبر سے صد مرتبہ بُزُرگ تر ہے۔۔۔ قاضیِ شہر اِمروز (آج) اِس کی گواہی دیتا ہے۔
اگر شاہِ جہاں (سُلطان محمود غزنوی) میرے مالک کو حُکم کرے تو وہ درِ قُسطَنطین کو [اپنے] دست میں [لیے] شاہ کے نزدیک لے آئے گا۔

× یہ ابیات اُس زمانے میں کہی گئی تھیں کہ جب شہرِ قُسطَنطینیہ ہنوز فتح نہ ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top