ظاہراً، ہمارے اکثر شُعَرا کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ اُن کو اپنے شہر اور اپنے وطن میں وہ عِزّت و اِکرام نہ مِلا جس کا وہ اِستِحقاق رکھتے تھے، اور اِسی وجہ سے کئی شُعَراء یہ آرزو کرتے نظر آتے ہیں کہ کاش وہ اپنے شہر سے کسی دیگر شہر میں کُوچ کر جائیں تاکہ وہ اِس طرح شاید خود کے مقصودِ دلخواہ تک پہنچ جائیں، اور اُن کو اور اُن کے فنِّ شاعری کو وہ پذیرائی مِل جائے جس کے وہ مُستَحِق و سزاوار ہیں۔ اِمامِ غزلِ فارسی «حافظِ شیرازی» ایک غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
ره نبُردیم به مقصودِ خود اندر شیراز
خُرّم آن روز که حافظ رهِ بغداد کند
(حافظ شیرازی)
ہم شیراز میں خود کے مقصود تک راہ نہ پا سکے [اور اُس تک پہنچ نہ سکے]۔۔۔ خوشا وہ روز کہ جب «حافظ» بغداد کی جانب روانہ ہو گا!
================
یعنی «حافظِ شیرازی» کے ذہن میں تھا کہ اگر وہ شیراز سے بغداد کُوچ کر جائیں گے تو وہ مزید حُرمت و اِکرام و پذیرائی حاصل کر لیں گے۔۔۔ لیکن ذرا دیکھیے کہ مغربی تُرکی کے عظیمترین شاعر «محمد فُضولی بغدادی»، کہ خود دِیارِ بغداد سے ہیں اور کئی ابیات میں بغداد کو فراواں سِتائش کے ساتھ یاد بھی کر چُکے ہیں، ایک تُرکی بیت میں کہہ رہے ہیں کہ اُن کو بغداد تَرک کر کے دِیارِ رُوم چلا جانا چاہیے، کیونکہ وہاں اُن کے رُتبۂ فضل میں اضافہ ہو جائے گا:
فُضولی ایستهر ایسهن اِزدِیادِ رُتبهٔ فضل
دیارِ رُومو گؤزهت، تَرکِ خاکِ بغداد ائت
(محمد فضولی بغدادی)
اے «فُضولی»! اگر تم [اپنے] رُتبۂ فضیلت میں اِضافے کے خواہشمند ہو تو دیارِ رُوم کی راہ دیکھو اور خاکِ بغداد کو تَرک کر دو۔
Füzuli, istər isən izdiyadi-rütbeyi-fəzl,
Diyari-Rumu gözət, tərki-xaki-Bağdad et!
================
ایک دیگر تُرکی بیت میں تو اُنہوں نے اپنے دِل کو "اسیرِ رنجِ بغداد" کہہ کر یاد کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ "عَیشخانہ رُوم" جانے کا اِرادہ کر چکے ہیں۔۔۔ لیکن جہاں تک تاریخی منابِع شاہِد ہیں، وہ اِرادہ کر لینے کے باوجود کبھی دِیارِ رُوم نہیں جا سکے تھے، اور اُن کی زندگی عِراقِ عرب ہی میں بسر ہو گئی تھی۔۔۔
فُضولی، ائیلهدی آهنگِ عیشخانهٔ روم
اسیرِ مِحنتِ بغداد گؤردۆڲۆن کؤنلۆم
(محمد فضولی بغدادی)
اے «فُضولی»! جس میرے دل کو تم نے اسیرِ رنجِ بغداد دیکھا تھا، اُس نے عیشخانۂ رُوم [کی جانب کوچ کر جانے] کا عزم و ارادہ کر لیا [ہے]۔
Füzūlī, eylədi āhəng-i ‘eyş-xānə-i Rūm
Əsīr-i mihnət-i Bağdād gördügüŋ köŋlüm
================
«فُضولی» نے ایک فارسی غزل کے مقطع میں بھی ایسے ہی احساسات کا اِظہار کیا ہے، اور ایسا عیاں کیا ہے کہ گویا وہ بغداد سے اب بےرغبت ہیں اور اُن کے دل میں شہرِ تبریز جانے کی خواہش بیدار ہو گئی ہے۔۔۔ اِس تَرکِ وطن کے اِرادے سے بھی اُن کا مقصودِ اصلی شاید یہی تھا کہ تبریز اُن کی شاعری کے لیے مزید پذیرا ثابِت ہو گا۔۔۔
بغداد را نخواست فضولی مگر دِلت
کآهنگِ عیشخانهٔ تبریز کردهای
(محمد فضولی بغدادی)
اے «فُضولی»! شاید تمہارے دل میں بغداد کی رغبت نہیں رہی کہ تم نے عیشخانۂ تبریز [کُوچ کر جانے] کا ارادہ کر لیا ہے۔
================
حاصِلِ کلام یہ ہے کہ کوئی شاعر خواہ شیراز میں مُتَوَطِّن تھا یا خواہ بغداد میں، زمانے نے اُس کے ساتھ عُموماً ناقدری ہی کے ساتھ سُلوک کیا اور کئی شُعَراء اپنی زندگی کے دوران اپنے شہروں میں مُناسِب قدردانی، اور مقصود تک پہنچنے سے محروم رہے۔