حسان خان

لائبریرین
«علی‌قُلی خان والِه داغِستانی» ایک رُباعی میں اپنی عموزادی اور اپنی معشوقہ «خدیجه سُلطان» کی والِدہ «سروِ جهان خانُم»، کہ اُن کی چچّی تھیں، کو مُخاطَب کر کے کہتے ہیں:

ای سروِ جهان خانم ای نخلِ مُراد
ای والدهٔ خدیجهٔ حورنِژاد
بی دُخترِ تو ز عیش دُورم عُمری‌ست
یا رب که نشاط ازو دمی دور مباد
(والِه داغستانی)


اے «سروِ جہان خانُم»! اے نخلِ مُراد!۔۔۔۔ اے «خدیجۂ» حُورنِژاد کی والِدہ!۔۔۔ میں تمہاری دُختر کے بغیر ایک عُمر سے عَیش و [عِشرت و راحت] سے دُور ہوں۔۔۔ [لیکن] خُدا کرے کہ نشاط و شادمانی ایک لمحہ [بھی] اُس سے دُور نہ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
در غمِ آن قامت و عارِض فُضولی هر که مُرد
تا قیامت خاکِ او سرو و سمن می‌آورَد
(محمد فضولی بغدادی)


اے فُضولی!‌ اُس قامت و رُخسار کے غم میں جو بھی شخص مرا، تا قِیامت اُس کی خاک سے درختِ سرْو و گُلِ سَمَن اُگتے ہیں۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکِ چشمت به تیغِ ابرو
دل از عرب و عجم گِرِفته‌ست
(والِه داغستانی)


تمہاری تُرک [جیسی حملہ‌گر و تاراج‌گر و جنگ‌جُو] چشم نے تیغِ ابرو کے ذریعے عرَب و عجم کے دِل تسخیر کر لیے ہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
با پاکیِ دامن تُرا حق داده لعلِ جان‌فَزا
زان ای مهِ مریَم‌لِقا عیسیِ دَوران خوانَمَت
(والِه داغستانی)


[اے یار!] حق تعالیٰ نے تم کو پاکیِ دامن کے علاوہ جان میں اِضافہ کرنے والا لعلِ [لب بھی] دیا ہے۔۔۔۔ اِس لیے، اے مریَم جیسے چہرے والے ماہ، مَیں تم کو عیسائے دَوراں پُکارتا ہوں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
صفَوی و تیموری-مُغل سلطنتوں کے شاعر «علی‌قُلی خان والِه داغِستانی» اصلاً «داغِستان» سے تھے، جو فی زمانِنا جمہوریۂ آذربائجان کی ہمسایَگی میں واقع ہے اور وِفاقِ رُوس کی ایک جمہوریہ ہے۔ یہ ایک کثیرقومی و کثیرلِسانی خِطّہ رہا ہے، اور اُس میں رہنے والی کئی قوموں میں سے ایک قوم ‌«لَزگی» بھی ہے۔۔۔ «والِه داغستانی» کے خاندان کا تعلُّق اُسی قومِ «لَزگی» سے تھا۔۔۔ جیسا کہ میں گُذشتہ کئی مُراسلوں میں کہہ چکا ہوں کہ وہ اپنی عموزادی «خدیجه سُلطان»، کہ اُن ہی کی طرح ایک لَزگی‌الاصل و داغِستانی خاتون تھی، کے عاشقِ زار تھے، لیکن بدبختانہ وہ خود کے مقصود تک نہ پہنچ سکے اور خود کی معشوقہ سے اِزدِواج نہ کر سکے اور بعد ازاں دِل پر اُس محبوبہ کے فراق کا داغ لے بیٹھے اور اُس کی حسرت یاد و میں جلتے رہے۔۔۔۔ شاید یہی سبب ہے کہ وہ ایک رُباعی میں خود کو، اور خود کے توسُّط سے دیگروں کو، ایک نصیحت و وصیّت کر رہے ہیں کہ داغستانی معشوقوں سے دامن کو بچایا جائے ورنہ داغِ فراق سے جلنا اور رنج و سرگردانی میں مُبتلا رہنا ہی مُقدّر ٹھہرے گا۔۔۔۔

والِه کُنَمَت وصِیّتی پِنهانی
تا بازرَهی ز رنج [و] سرگردانی
خواهی که چو من نسوزی از داغِ فراق
زِنهار مگیر یارِ داغِستانی
(والِه داغستانی)


اے «والِہ»! میں تم کو ایک مخفیانہ نصیحت کرتا ہوں تاکہ تم رنج و سرگردانی سے نِجات و خلاصی پا لو۔۔۔۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تم میری طرح داغِ فِراق سے نہ جلو تو، خبردار!، تم [کسی] داغِستانی کو محبوب ہرگز مت بناؤ!

==========

× «داغ»» زبانِ تُرکی میں «کوہ» کو کہتے ہیں، لہٰذا «داغِستان» کے نام کا معنی «کوہِستان» ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اسلامی روایات میں آیا ہے کہ جنّت میں رِیاکاری نہیں ہے اور وہاں شراب حلال ہے۔۔۔ ہماری فارسی شاعری میں «کاشُروں» کے مِلّی وطن «کشمیر» کو فراوانی کے ساتھ باغِ جنّت پُکارا گیا ہے، لہٰذا اگر اہلِ جنّت رِیاکار نہیں ہوں گے تو بدیہی ہے کہ رشکِ جنّتِ بریں «کشمیر» کے «کشمیری مردُم» بھی رِیاکار نہیں ہو سکتے اور اُس دِیار میں اگر مردُم بادہ‌نوشی کریں تو یہ بھی کوئی عجیب و لائقِ سرزنِش چیز نہیں، کیونکہ جنّت میں تو شراب حرام نہیں ہے۔۔۔۔ «مُحسِن فانی کشمیری» اپنی ایک مثنوی «ساقی‌نامه» میں ایک جا اپنے مُلک و وطنِ عزیز «کشمیر» اور «مردُمِ کشمیر» کی سِتائش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

درین فصل جایی چو کشمیر نیست
که آن‌جا کس از اهلِ تزویر نیست
نخواهد کس آن‌جا زد از مَکر دم
که جایِ رِیا نیست باغِ اِرم
همه باده نوشند چون شیخِ جام
که مَی نیست در باغِ جنّت حرام
درین باغ پِیر و جوان مَی‌کش‌اند
همه تشنهٔ بادهٔ بی‌غش‌اند
چمن پُرگُل و لاله و نستَرَن
ز باغِ اِرَم خوش‌تر است این چمن
(مُحسِن فانی کشمیری)


اِس موسمِ [بہار] میں «کشمیر» جیسی کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ وہاں کوئی شخص اہلِ ریا و فِریب میں سے نہیں ہے۔۔۔ وہاں کوئی شخص رِیا کی (کے بارے میں) بات نہیں کرتا، کیونکہ باغِ اِرَم رِیا کی جگہ نہیں ہے۔۔۔ ہمہ اشخاص «شیخِ جام» کی مانند بادہ نوش کرتے ہیں، کیونکہ باغِ جنّت میں شراب حرام نہیں ہے۔۔۔ اِس باغ میں پِیر و جواں [دونوں] مَے‌کَش ہیں، اور ہمہ اشخاص شرابِ خالص و بے‌آمیزش کے تشنہ ہیں۔۔۔ چمنِ [کشمیر] گُل و لالہ و نستَرَن سے پُر ہے۔۔۔ یہ چمن باغِ اِرَم سے خوب‌تر ہے۔۔۔۔

× «شیخِ جام» سے احتمالاً «شیخ احمدِ جام» کی جانب اِشارہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اِثناعشَری شیعوں میں خاکِ کربلا سے تسبیح بنانے کی رسم رہی ہے، اور اُن کے درمیان خاکِ کربلا سے ساختہ تسبیح کو دیگر تسبیحوں سے افضل‌تر تصوُّر کیا جاتا ہے۔ «مُلکِ کشمیر» (عسى أن يعودَ السّلام والحرّية لذلك البلد!) کے ایک شیعی شاعر «میرزا داراب بیگ جُویا کشمیری» ایک بیت میں «حضرتِ علی» کی سِتائش میں کہتے ہیں:

قصیده‌ای که در مدحِ مُرتضیٰ نبُوَد
چو سُبحه‌ای‌ست که از خاکِ کربلا نبُوَد
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


جو قصیدہ «علیِ مُرتضیٰ» کی مدح میں نہ ہو، وہ [گویا] اُس تسبیح کی مانند ہے کہ جو خاکِ کربلا سے نہ ہو۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد فُضولی بغدادی» نے بھی «شہرِ کربلا» کی سِتائش میں لِکھی ایک فارسی رُباعی میں خاکِ کربلا سے تسبیح‌سازی کی رسم کی جانب اشارہ کیا ہے:

آسودهٔ کربلا به هر حال که هست
گر خاک شود نمی‌شود قدرش پست
برمی‌دارند و سُبحه‌اش می‌سازند
می‌گردانند از شرَف دست به دست
(محمد فضولی بغدادی)


«کربلا» کی [خاک میں] آسودہ [شخص] جس بھی حال میں ہو، خواہ وہ خاک ہو جائے، اُس کی قدر و منزِلت پست نہیں ہوتی۔۔۔۔ اُس کو بالا اُٹھاتے ہیں اور اُس سے تسبیح بنا لیتے ہیں۔۔۔ [اور پس ازاں] شرَف کے ساتھ اُس کو دست بہ دست گُھماتے ہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی میں «بازار» کو «چارشې» (çarşı) کہتے ہیں۔ یہ فارسی کے «چهارسو/چارسو» کی تحریف‌شُدہ شکل ہے، اور فارسی میں «چارسو» چارراہہ کے علاوہ بازار کو یا ایسے بازارِ کبیر و گُنبددار کو بھی کہتے تھے کہ جس میں چار جانِبیں ہوں اور چاروں طرف راہیں اور دُکانیں ہوں۔۔۔ علاوہ بریں، یہ لفظ بازار کے درمیان کی چارراہ یا اُس جگہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے کہ جہاں سے چار جانِبیں بازار کی جانب جاتی ہوں۔۔۔ لفظِ «چارسو» کے بُنیادی معنی کے «بازار» کے معنی میں تبدیل ہو جانے کا سبب یہ ہے کہ شہر میں بازار روایتی طور پر اُس جگہ ہوتے تھے جہاں دو راہیں صلیب کی شکل میں آ کر مِلتی اور ایک دوسرے کو قطع کرتی تھیں۔ دُکانیں اور فروشَندَگان شہر کے اُس چارراہے کے گِرد و اطراف میں یکجا ہو جاتے تھے۔

«چهارسو/چارسو» اگرچہ ایک فارسی‌الاصل لفظ ہے، تاہم مُعاصر فارسی میں «بازار» کے معنی میں تو اِس کا رواج نہیں ہے، لیکن یہ لفظ تُرکی میں «چارشې» کی شکل میں «جائے بازار» کے لیے رائج ہے۔

============

«حاجی محمد جان قُدسی مشهدی» کی ایک فارسی رُباعی میں لفظِ «چارسو» بازار کے معنی میں استعمال ہوتے نظر آیا ہے:


مُردم ز فراق منزلِ یار کُجاست
در شهر دواشناسِ بیمار کُجاست
ای آن که ز چارسُویِ عشق آمده‌ای
بِنْمای به من دُکانِ عطّار کُجاست
(قُدسی مشهدی)


میں فِراق سے مر گیا، منزلِ یار کہاں ہے؟۔۔۔ شہر میں بیمار کی دوا جاننے والا کہاں ہے؟۔۔۔ اے وہ کہ جو بازارِ عشق سے آئے ہو۔۔۔۔ مجھے دِکھاؤ کہ عطّار کی دُکان کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ہمارے شُعَراء اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اُن کی قامت حرَفِ «دال» (د) کی مانند خَمیدہ ہو گئی ہے، اور یہ بھی آپ یقیناً جانتے ہیں کہ محبوب کے چہرے کے خال (تِل) کو اِک نُقطے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔۔۔ «محمد فُضولی بغدادی» بھی ایک فارسی بَیت میں اپنے محبوب سے یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ اُن کی قامت فِراقِ یار میں «دال» کی طرح خم ہے، لیکن دیکھیے کہ اُن کا محبوب اُن کو کیا جواب دے رہا ہے:

گُفتَمَش با قدِّ خم زان خال دُور اُفتاده‌ام
گُفت باکی نیست گر نُقطه نباشد دال را
(محمد فضولی بغدادی)


میں نے اُس سے کہا: "میں [اپنے] قدِ خَم کے ساتھ، [تمہارے چہرے کے] اُس خال سے دُور ہو گیا ہوں"۔۔۔۔ اُس نے کہا: "اگر «دال» کا نُقطہ نہ ہو تو کوئی پروا نہیں!"۔۔۔ (یعنی «دال» تو ہوتا ہی نُقطے کے بغیر ہے، لہٰذا اگر تمہاری «دال» جیسی قامت بھی بے‌نُقطہ و بے‌خال رہ جائے تو اِس میں کوئی ضرر نہیں ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ما را ز گُلشن و گُل صد بار خوش‌تر آید
خاری ز کُویِ جانان گر می‌خلَد به پایم
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


اگر کُوئے جاناں میں سے کوئی خار میرے پاؤں میں چُبھتا ہے تو وہ مجھ کو گُلشن و گُل سے صد بار خُوب‌تر لگتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی» اپنے برادرِ نوجوان «ابوالمحمّد» کی وفات پر لِکھے گئے فارسی مرثیے کی ایک بیت میں کہتی ہیں:

می‌نخواهم زندگی یا رب پس از آن نوجوان
زان سبب کم بود آن گُل شادیِ دُنیا و دین
(ماه‌شرَف خانم 'مستوره' کُردستانی)


یا رب! میں اُس نَوجوان [کی وفات] کے بعد [مزید] زندگی نہیں چاہتی۔۔۔ اِس لیے کیونکہ وہ گُل میری شادمانیِ دُنیا و دِین تھا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
در آب و آتشم از هجرِ آن که بی رُخِ خویش
دلم پُرآتش و چشمم پُرآب کرد و بِرفت
(اَوحَدی مراغه‌ای)


میں اُس شخص کے ہجر کے باعث آب و آتش میں ہوں کہ جس نے اپنے چہرے کے بغیر (یعنی اپنے چہرے کو دُور کر کے) میرے دِل کو پُرآتش اور میری چشم کو پُرآب کیا اور چلا گیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«صائب تبریزی» کی ایک دُعا:

نمی‌گردانی از من راه اگر سیلِ ملامت را
کفِ خاکِ مرا پیشانیِ صحرا کرامت کُن
(صائب تبریزی)


[اے خُدا!] اگر تم مجھ سے سیلابِ ملامت کی راہ نہیں پلٹاتے تو میری کفِ خاک کو صحرا کی پیشانی عطا کرو!۔۔۔ (یعنی سیلابِ ملامت کا سامنا کرنے کے لیے میری مُشت بھر خاک کو وُسعت و تحمُّل و لِیاقت بھی صحرا کے بقَدر عطا کرو!)
 

حسان خان

لائبریرین
«علی‌قُلی خان والِه داغستانی» نے اپنی معشوقہ «خدیجه سُلطان» کی مُفارقت میں اُس کے لیے ایک عاشقانہ مثنوی لِکھی تھی۔۔۔ مثنوی‌نویسی میں روایت رہی ہے کہ مثنوی کا آغاز خُدا کے نام سے کیا جاتا ہے۔۔۔ نِگاہ کیجیے کہ «والِه داغستانی» نے اپنی اُسی مثنوی کا آغاز کِس طرح کیا ہے:

این نامه به نامِ آن خُداوند
کاندر دلِ من غمِ تو افکند
گاهم به وصال آشنا کرد
گاهی به فراق مُبتلا کرد
گاهی ز دلِ تو بُرد یادم
از لُطفِ تو کرد گاه شادم
(والِه داغستانی)


اِس نامے کا آغاز اُس خُداوند کے نام سے کہ جس نے میرے دل میں تمہارا غم ڈالا۔۔۔ جس نے گاہے مجھ کو وصال سے آشنا کیا اور گاہے فراق میں مُبتلا کیا۔۔۔ جس نے گاہے تمہارے دل سے میری یاد کو دُور کر دیا اور گاہے تمہارے لُطف سے مجھ کو شاد کیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«صائب تبریزی» کی ایک دُعا:

درین وحشت‌سرا تا کَی اسیرِ آب و گِل باشم؟
مرا راهی به سُویِ عالَمِ بالا کرامت کُن

(صائب تبریزی)

[اے خُدا!] میں اِس وحشت‌سرا (دُنیا) میں کب تک آب و گِل کا اسیر رہوں؟۔۔۔ مجھ کو عالَمِ بالا کی جانب کوئی راہ عطا کرو!
 

حسان خان

لائبریرین
«صائب تبریزی» کی ایک دُعا:

به گِردابِ بلا انداختی چون کشتیِ ما را
لبی خُشک از شکایت چون لبِ دریا کرامت کُن

(صائب تبریزی)

[اے خُدا!] جب تم نے ہماری کشتی کو گِردابِ بلا میں ڈالا [ہے] تو [ہم کو] لبِ بحر (ساحلِ بحر) جیسا اِک ایسا لب [بھی] عطا کرو کہ جو شِکایت سے خُشک (خالی) ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
گر جان روَدم ز تن نخواهم مُردن
ور خاک شوَد بدن نخواهم مُردن
گُفتی که علی‌قُلی بِمُرد این غلط است
مَوهومِ تو مُرد من نخواهم مُردن
(علی‌قُلی خان والِه داغستانی)


خواہ میرے تن سے جان چلی جائے، میں نہیں مروں گا!۔۔۔ اور خواہ [میرا] بدن خاک ہو جائے، میں نہیں مروں گا!۔۔۔ تم نے کہا کہ "علی‌قُلی مر گیا"۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔ جو چیز تمہارے وہم و خیال میں مَوجود تھی وہ مری ہے، میں نہیں مروں گا!
 

حسان خان

لائبریرین
کُویِ تُرا به روضهٔ رضوان فُروختم
دعوایِ غبن می‌کنم ارزان فُروختم
(والِه داغستانی)


میں نے تمہارے کُوچے کو باغِ رِضوان کے عِوض میں بیچ دیا۔۔۔ میں غبْن (فراڈ) کا دعویٰ دائر کرتا ہوں، [کیونکہ] میں نے ارزاں (سستا) بیچ دیا۔۔۔
 
Top