حسان خان

لائبریرین
فِقہِ اسلامی کے رُو سے مُسافر پر روزے کا وُجوب ساقِط ہے (بلکہ جعفری شیعی فِقہ میں تو لازم ہے کہ مُسافرت کے دوران روزہ نہ رکھا جائے)۔ نیز، عیدَین کے روز روزہ رکھنا بھی شریعتِ اسلامی میں حرام ہے۔۔۔ «کِشوَرِ کشمیر» کے ایک شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» کی ایک بیت دیکھیے جس میں اِن فِقہی مسائل کی مدد سے ایک شعری مضمون خَلق کیا گیا ہے:

نمی‌باشد ز مرگ اندیشه‌ای پرهیزگاران را
سفر فیضِ صباحِ عید بخشد روزه‌داران را
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


پرہیزگاروں کو مَوت سے کوئی اندیشہ و خوف نہیں ہوتا، [کیونکہ] سفر روزہ‌داروں کو صُبحِ عید کا فَیض بخشتا ہے۔ (یعنی سفر، عید کی مانند، اُن پر سے رنج و مشقّتِ روزہ کو ساقِط کر دیتا ہے، اِس لحاظ سے سفر بھی روزہ‌داروں کے لیے ایک طرح کی عید ہے۔ اور چونکہ موت بھی ایک سفر ہے تو لہٰذا مُسافرانِ پرہیزگار کو موت سے کیا باک؟)
 

حسان خان

لائبریرین
نصیبی گر ز سوزِ سینه‌ام می‌بود مجنون را
ز ابرِ چشمِ تر دریایِ خون می‌کرد هامون را
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


اگر «مجنون» کے پاس میرے سینے کے سوز کا کوئی [ذرا سا] حِصّہ ہوتا تو وہ [اپنی] چشمِ تر کے ابر سے دشتِ ہموار کو بحرِ خُون [میں تبدیل] کر دیتا۔۔۔ (یعنی مَیں «مجنون» سے کئی چند زیادہ عاشقِ سینہ‌سوختہ ہوں۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
چہ پروا دارم از بے مہریِ گردوں کہ ہر صُبحے
ز داغِ عشق بر دل آفتابے ساکنے دارم


غنیمت کنجاہی

میں آسمان کی بے رحمی اور بے مروتی کی کیا پروا کروں کہ ہر صبح میرے دل پر داغِ عشق کی وجہ سے ایک غیر متحرک، ساکن آفتاب چمکتا ہے۔ (آسمان کی بے مروتی سے اُس کا متحرک آفتاب غروب ہو جاتا ہے لیکن میرے دل پر عشق کے داغ ایسے آفتاب ہیں جو غروب نہیں ہوتے)۔
 
می‌تراشد فکرِ ما هر دم خداوندِ دگر
رست از یک بند تا افتاد در بندی دگر

ہماری فکر ہر لمحہ ایک نیا آقا تراشتی ہے۔ جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو دوسرے بند/قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ گویا ہماری مادی حرص و ہوس نت نئی مادی آرزوئیں پیدا کرنے میں لگی رہتی ہے۔

بر سرم آ، نقاب از چهره بی‌باکانه کش
نیست در کویِ تو چون من آرزومندی دگر

تو (اے محبوب) بام پر آ اور بے خوف ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دے، اس لیے کہ تیرے کوچے میں میرے جیسا کوئی اور آرزومند/عاشق نہیں ہے۔ گویا میں ہی تیرا سچا عاشق ہوں، باقی سب اس پُرخلوص جذبے سے عاری ہیں
(علامه اقبالِ لاهوری)
کتاب:
پیامِ مشرق
مترجم و شارح:دکتر خواجه حمید یزدانی
 
ز شعرِ دل‌کشِ اقبال می‌توان دریافت
که درسِ فلسفه می‌داد و عاشقی ورزید
(علامه اقبالِ لاهوری)

اقبال کی دل کش شاعری سے یہ بات جانی جاسکتی ہے کہ وہ فلسفہ کا درس دیتا ہے اور ساتھ عاشقی اختیار کیے ہوئے تھا۔مطلب یہ کہ اس نے عقل و خرد کے ساتھ ساتھ عشق بھی اختیار کیا جو اس کی دل کش شاعری سے واضح ہے۔
کتاب: پیامِ مشرق
شارح و مترجم:دکتر خواجہ حمید یزدانی
 
هزار خیبر و صد گونه اژدرست این‌جا
نه هر که نانِ جوین خورد، حیدری داند
(علامه اقبالِ لاهوری)

یہاں ہزار قسم کے خیبر اور سو قسم کے اژدہا ہیں۔ضروری نہیں کہ جو کوئی بھی جو کی روٹی کھاتا ہے وہ حیدری/بےحد شجاعت سے بھی آگاہ ہو۔مطلب یہ کہ خیبر جیسے قلعے فتح کرنا اور اژدہا مارنا یہ جسمانی طاقت کے بس کی بات نہیں اور نہ یہ طاقت مرغن غذائیں کھانے سے آتی ہے۔اس کے لیے پختہ ایمان اور حضور اکرمﷺ سے عشق کا ہونا بنیادی شرط ہے۔
کتاب: پیامِ مشرق
شارح و مترجم:دکتر خواجہ حمید یزدانی
 
خاکِ یثرب از دو عالم خوش‌تر است
ای خنک شهری که آنجا دلبر است
(علامه اقبالِ لاهوری)

میرے لئے یثرب کی مٹی دونوں جہانوں سے زیادہ محبوب ہے۔ کس قدر حسین اور ٹھنڈک پہنچانے والی ہے وہ بستی جس میں محبوب رہتا ہو۔
کتاب:اسرارِ خودی
مترجم: غلام احمد پرویز
 
نسخه‌ی کونین را دیباچه اوست
جمله عالم بندگان و خواجه اوست
(علامه اقبال لاهوری)

کتابِ دو عالم کا دیباچہ حضور رسالت مآبﷺ ہیں۔ تمام دنیا کے رہنے والے غلام اور آپﷺ ان کے آقا ہیں۔
کتاب:اسرارِ خودی
مترجم: غلام احمد پرویز
 

حسان خان

لائبریرین
«مُلکِ کشمیر» کے «کشمیری» فارسی شاعروں کی غزلوں میں جگہ جگہ اُن کے وطن «کشمیر» کا سِتائش‌آمیز ذِکر نظر آ جاتا ہے۔ «میرزا داراب بیگ جُویا کشمیری» کی ایک بیت دیکھیے جس میں اُنہوں نے اپنے دل کو یادِ حبیب کے سبب سے ایک کِھلے ہوئے گُلزار سے تشبیہ دی ہے اور اُس گُلزار سے اُن کو وطنِ خود «گُلشنِ کشمیر» کی خوشبو آ رہی ہے:

دلم بِشگُفت زیرِ بارِ کُهسارِ غم از یادش
ازین گُلزار بُویِ گُلشنِ کشمیر می‌آید
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


کوہسارِ غم کے بار تلے میرا دل اُس (محبوب) کی یاد سے کِھل گیا۔۔۔ اِس گُلزار سے «گُلشنِ کشمیر» کی خوشبو آتی ہے۔

یہ چیز لائقِ توجُّہ ہے کہ «وادیِ کشمیر» اطراف میں کوہوں سے گِھری ہوئی ہے، لہٰذا اِس لحاظ سے بھی کُہسارِ غم کے بار کے نیچے موجود شاعر کے گُلزارِ دل کا «گُلشنِ کشمیر» سے مُشابِہ ہونا قابلِ فہم نظر آتا ہے۔ شاعر یہ بھی کہنا چاہ رہا ہے کہ دلِ مُحِب خواہ جس قدر بھی پژمُردہ و ویران ہو، وہ یادِ محبوب کے آ جانے سے «کشمیر» جیسے ایک شاداب و خُرّم گُلزار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پیراهنی از تارِ وفا دوخته بودم
چون تابِ جفایِ تو نیاورد کفن شد
(طالب آمُلی)


میں نے تارِ وفا سے ایک پیراہن سِیا تھا۔۔۔ جب وہ تمہاری جفا کی تاب نہ لایا تو کفن بن گیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
به خُدایی که جُز او نیست خُداوندِ جهان
که مرا عشقِ تو شد در همه دم هم‌دمِ جان

(جهان‌ملِک خاتون)

اُس خُدا کی قسم کہ جِس کے بجُز [کوئی] خُداوندِ جہان نہیں ہے!۔۔۔ کہ تمہارا عشق ہر دم میری جان کا ہم‌دم ہو گیا [ہے]۔۔۔
 
معاصر افغانستانی فارسی شاعر خلیل اللہ خلیلی کی علامہ اقبالِ لاہوری پر ایک نظم بنامِ ’’بر مزارِ اقبال درلاهور‘‘:

ای که ما را گردشِ چشمِ عقاب آموختی!
دیده‌یِ بیدارِ خود را از چه خواب آموختی؟

اے وہ کہ تو نے ہمیں عقاب کی چشم کی گردش سکھائی۔اپنے دیدہٗ بیدار کو کس خواب سے سیکھا؟
شامِ جمعی را نمودی از فروغِ فیض، روز
تیره شب را روز کردن، ز آفتاب آموختی

تو نے ایک شامِ قیامت کو نورِ فیض سے روز دکھایا۔تو نے تاریک شب کو روز کرنا (یعنے روز میں تبدیل کرنا) آفتاب سے سیکھا۔
خفتگان را با صریرِ شعله‌انگیزِ قلم
صد تکان دادی و چندین انقلاب آموختی

تو نے سوئے ہووٗں کو قلم کی شعلہ انگیز صریر(آوازِ قلم) سے صدہا جنبش و حرکت دی اور بہت سے انقلاب سکھائے۔
گردنِ احرار در یوغِ اسارت بود خم
بند بگسستن به‌ مردم از رقاب، آموختی

آزاد لوگوں کی گردن غلامی کی طوق میں خم (جھکی ہوئی) تھی۔لوگوں کو گردنوں سے بند توڑنا تو نے سکھایا۔
زندگی،گفتی، خطِ فاصل بود با بندگی
این دلیلِ قاطع از فصل‌الخطاب آموختی

تو نے کہا کہ زندگی غلامی سے جدا کنندہ لکیر ہے (یعنے زندگی اور غلامی یکجا نہیں رہ سکتیں۔غلامی موت ہے)۔ یہ دلیلِ قاطع و برندہ(جو کسی شک کو باقی نہیں رہنے دیتی) تو نے فصل الخطاب (احادیثِ نبویﷺ جو حق و باطل کو جدا کردیتی ہیں) سے سیکھی۔
هرسوالی را که مشکل بود بر عقلِ سلیم،
از دبستانِ دل آن را صد جواب آموختی

ہر ایک سوال جو عقلِ سلیم پر مشکل تھا، (ان سارے سوالوں کو)تو نے دل کے دبستان (مدرسے) سے صدہا جواب سکھائے۔
با «رموزِ بی‌خودی»، رازِ خودی آمیختی
مشتِ خاکِ مرده را رفتارِ آب آموختی

تو نے «رموزِ بےخودی» کے ساتھ رازِ خودی ملایا اور مشت بھر مردہ خاک کو آبِ(رواں) کی رفتارِ(تیز) سکھائی۔
کاروان در راه و منزل دور و دشمن در کمین
رهروانِ شرق را درسِ شتاب آموختی

کاروان راستے میں ہے اور منزل دور ہے اور دشمن کمین(گھات) میں (بیٹھا) ہے۔ مشرق کے رہرووٗں کو تُندی و سرعت کا درس سکھایا۔
عقل را ره، شوق را جان، قلب را ذوق حضور
این به در واماندگان را فتح باب آموختی

عقل کو راہ(دکھائی)، عشق کو جان (دی) اور قلب کو حاضری کا ذوق (دیا)۔تو نے ان راندہٗ درگاہ لوگوں کو فتحِ باب سکھایا۔
خواجه را گفتی ننوشد بعد ازین خونِ فقیر
بینوا را راه و رسمِ اعتصاب آموختی

سرمایہ دار کو تو نے کہا کہ وہ اس کے بعد فقیر کا خون نہ پیے۔بےنوا کو تو نے اعتصاب (ہڑتال) کی راہ و رسم سکھائی۔
آه از آن ملّت که باشد یأس در راهش حجاب
ای امیدِ قوم! تو رفعِ حجاب آموختی

اس ملت سے فریاد کہ نومیدی اس کے راستے میں حجاب(حائل) ہے۔ اے قوم کی امید! تو نے حجاب ہٹانا سکھایا۔
مولوی در گوشِ جانت گفت رازی بس بزرگ
زان معلّم معنیِ ام الکتاب آموختی

مولوی رومی نے تیری جان کے گوش(کان) میں ایک بہت بڑا راز کہا۔ اس استاد سے تو نے ام الکتاب (قرآن) سیکھا۔
ملّتِ توحید را از مکرِ دنیای فرنگ
حرف حرف و فصل فصل و باب باب آموختیُ

ملتِ توحید کو تو نے دنیائے فرنگ کے مکر و فریب سے حرف بہ حرف، فصل بہ فصل اور باب بہ باب سکھایا۔
در کهن تاریخِ شرق انگیختی شورِ نوین
شوکتِ پارینه را عهدِ شباب آموختی

مشرق کی تاریخِ کُہَن میں تو نے نئے شور کو دوبارہ زندہ کیا۔ پرانی شوکت کو جوانی کا دَور سکھایا۔
(خلیل الله خلیلی)
 
حسان خان کیا یہ نشان زدہ واژوں کے ترجمے درست ہیں؟
این به در واماندگان را فتح باب آموختی

تو نے ان راندہٗ درگاہ لوگوں کو فتحِ باب سکھایا۔


شامِ جمعی را نمودی از فروغِ فیض، روز

تو نے ایک شامِ قیامت کو نورِ فیض سے روز دکھایا۔

کیا یہ ترجمہ درست ہے؟
ملّتِ توحید را از مکرِ دنیای فرنگ
حرف حرف و فصل فصل و باب باب آموختیُ

ملتِ توحید کو تو نے دنیائے فرنگ کے مکر و فریب سے حرف بہ حرف، فصل بہ فصل اور باب بہ باب سکھایا۔
 
شیخ سعدی کے اس شعر کا ترجمہ درکار ہے:

مرو با سر رشته بار دگر
مبادا که دیگر کند رشته سر

دوسری روایت:
مرو بر سر رشته بار دگر
مبادا که ناگه كشد رشته سر

پہلی اور دوسری روایت کے پہلے مصرع میں "سر رشتہ" کا مفہوم ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہا۔ اسی طرح "مبادا کہ دیگر کند" کا مفہوم۔
از راہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
حسان خان محمد وارث اریب آغا وغیرہ
 

حسان خان

لائبریرین
ای موجِ ناشِکیب، تُرا این شِتاب چیست؟
عاشق منم، به نبضِ تو این اضطراب چیست؟
ای بحر گر نیامده چون من دِلت به تنگ
در سینهٔ فَراخِ تو، این انقلاب چیست؟

(رازق فانی)

اے مَوجِ بےصبر! تم کو یہ جَلدی کس لیے ہے؟۔۔۔ عاشق مَیں ہوں، تمہاری نبض میں یہ اِضطِراب کیا ہے [اور کس لیے ہے]؟۔۔۔ اے بحر! اگر میری طرح تمہارا دل تنگ نہیں آ گیا ہے تو پھر تمہارے سینۂ وسیع میں یہ اِنقِلاب کیا ہے [اور کس لیے ہے]؟
 

حسان خان

لائبریرین
آن سُرمهٔ صِفاهان، من از دیارِ کشمیر
منظورِ چشمِ یاریم، گشته غُبار هر دو
(مُلّا محمد علی آگه کشمیری)


«اِصفہان» کا وہ سُرمہ، اور دِیارِ «کشمیر» سے مَیں۔۔۔ ہم دونوں غُبار ہو کر چشمِ یار کے منظورِ نظر ہیں۔۔۔ (یعنی یار نے ہم دونوں کے غُبار کو تحسین و پسندیدگی کے ساتھ اپنی چشم پر لگایا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
«رایج سیالکوتی» کی مندرجۂ ذیل بیت مجھ کو پسند آئی ہے، لیکن اِس کے مصرعِ اوّل کا ایسا ترجمہ کر پانا میرے لیے مشکل ہو رہا ہے کہ جس میں مصرعے کی شعریت و معنائیت ترجمے میں مُنتَقِل ہو سکیں:

سُویت ز عجز سعیِ فلک‌تازم آرزوست
پر ریختم که شوخیِ پروازم آرزوست
(رایج سیالکوتی)


مجھے تمہاری جانب، عَجز و ناتوانی [کے ذریعے] سے، فلک پر حملہ کرنے والی سعی و کوشش کی آرزو ہے۔۔۔ میں نے [اپنے] پر گِرا دیے کیونکہ مجھ کو شوخیِ پرواز کی آرزو ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
صبر فرماید مرا در عاشقی آن بی‌وفا
تا کَی آخر طفلِ مسکین صبر بِتْواند ز شِیر
(جهان‌ملِک خاتون)


وہ بےوفا [معشوق] مجھ کو عاشقی میں صبر کا حُکم کرتا ہے۔۔۔ [کوئی شِیرخوار] طِفلِ مِسکین آخر کب تک شِیر (دودھ) سے صبر کر سکتا ہے؟
 
Top