آخری مصرعے میں قافیہ شاید "آباد" ہوگا، آزاد لکھا گیا ہے۔برصغیرِ پاک و ہند میں تحریکِ خاکسار کے بنیانگذار علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی اوائلِ جوانی میں فارسی میں شعرسرائی کرتے تھے۔ ان کی کتاب ’’خریطہ‘‘ ان کے فارسی اشعار پر مشتمل ہیں۔ذیل کی فارسی رباعی انہوں نے ۱۹۰۲ میں لکھی تھی۔
ای آنکه بهیادِ تو از یاد شدیم
در خانهیِ زنجیرِ تو آزاد شدیم
به هوایِ تو بسا رنگِ محبت دیدیم
برباد شدیم و باز آزاد شدیم
(علامه عنایت الله مشرقی)
اے وہ کہ تیری یاد میں ہم فراموش ہوگئے۔ تیری زنجیر کے خانے (یا گھر) میں آزاد ہوگئے۔ تیری خواہش میں بہت رنگِ محبت ہم نے دیکھے۔ ہم برباد ہوئے اور پھر آباد ہوگئے۔
نشاندہی کرنے کا شکریہ وارث بھائی۔ بالکل، یہاں آباد ہی لکھا ہوا تھا، جسے سو ءِ تفاہم سے میں نے آزاد لکھ دیاآخری مصرعے میں قافیہ شاید "آباد" ہوگا، آزاد لکھا گیا ہے۔
آخری مصرعے میں قافیہ شاید "آباد" ہوگا، آزاد لکھا گیا ہے۔
اصل مراسلے (9,568) میں تصحیح کر دی گئی ہے ۔ شکریہنشاندہی کرنے کا شکریہ وارث بھائی۔ بالکل، یہاں آباد ہی لکھا ہوا تھا، جسے سو ءِ تفاہم سے میں نے آزاد لکھ دیا
واہ واہاین همه جنگ و جدل حاصل کوتهنظریست
گر نظر پاک کنی، کعبه و بتخانه یکی است
عماد خراسانی
جو بھی لڑائی جھگڑا ہے وہ بصیرت کافقدان ہے
اگر نگاہ شفاف ہو تو کعبہ و بتخانہ بھی ایک ہی ہے