پایین رَوَدَم اشک و به بالا رّوّد آهم
رحمی نکنی چرخ! برین حالِ تباهم
ای وای! گّرّت سرد نشد دل که شبِ وصل
ما گرمِ دعاییم که کن روز سیاهم

(علامه عنایت الله مشرقی)
میرے اشک نیچے گررہے ہیں اور میری آہ اوپر جا رہی ہے۔ اے آسمان! میری اس تباہ‌حالی پر کوئی رحم نہیں کرتے۔ اے افسوس! اگر تیرا دل (اس بات پر) سرد نہیں ہوا کہ شبِ وصل میں ہم گرمِ دعا ہیں کہ میرا دن سیاہ کر دو!
 
اسرارِ خدا را مجو که هم راز است این
بین قدرتِ پاکِ او که در باز است این
در بارگهش عقل همه عقال است
از عجز بِرّس به او که اعجاز است این

(علامه عنایت الله مشرقی)
خدا کے اسرار مت ڈھونڈ کہ یہ بھی راز ہے۔ اس کی قدرتِ پاک دیکھو کہ یہ دروازہ وا (کُھلا) ہے۔اس کی بارگاہ میں عقل لنگ (لنگڑی) ہے۔ عُجز کے ذریعے اُس تک پہنچ کہ یہ اعجاز ہے۔
 
گر گدایِ درِ می‌خانه شدم، عیب مکن
که بر آن در همه شاهان چو گدا می‌بینم
(امیر علی شیر نوایی ٰفانی)
اگر میں مےخانے کے دروازے کا گدا ہوگیا ہوں، عیب مت نکال کیونکہ اُس دروازے پر سارے پادشاہوں کو گداوٗں کی مانند دیکھتا ہوں۔
 

فہد اشرف

محفلین
گر گدایِ درِ می‌خانه شدم، عیب مکن
که بر آن در همه شاهان چو گدا می‌بینم
(امیر علی شیر نوایی ٰفانی)
اگر میں مےخانے کے دروازے کا گدا ہوگیا ہوں، عیب مت نکال کیونکہ اُس دروازے پر سارے پادشاہوں کو گداوٗں کی مانند دیکھتا ہوں۔
واعظ زبون مت کہہ میخانے کو کہ اس جا
پیراہنِ نکو یاں رہنِ شراب دیکھا
میر
 
ماییم و ذوق سجده، چه مسجد چه بت‌کده؟
در عشق نیست کفر ز ایمان شناختن
(مرزا غالب دهلوی)
ہم ہیں اور ذوقِ سجدہ، کیا مسجد اور کیا بت‌کدہ ؟عشق میں کفر اور ایمان کے درمیان پہچاننا (یا تفاوت تلاش کرنا ممکن) نہیں ہے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
سعدی شیرازی کی ایک خوبصورت غزل کے چند خوبصورت اشعار

گر دلے داری بہ دلبندی بدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست


اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔


کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست


کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔

دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست


عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
خوب!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سلطان ابد سنجق منصور برافراخت
«الحق أنا» ز ارض و سماوات برآمد

عمادالدین نسیمی​

ابد کے سلطان نے منصور کا جھنڈا گاڑ دیا
انا الحق کا نعرہ زمین و آسماں سے نکل آیا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من سر کاف و نونم، من بی چرا و چونم
خاموش و لاتحرک من در بیان نگنجم

عمادالدین نسیمی​

میں حکم ۔کن۔ کا پوشیدہ راز ہوں اور میں بے نظیر و مثیل ہوں
خبردار !خاموش رہو اور (زبان کو) حرکت نہ ، کہ میں بیان میں نہیں سما سکتا

عماد نسیمی کی یہ کلاسیکی غزل افغانی فنکار کے لہجے میں ۔کچھ اشعار میں قدرے تحریف ہے لیکن افغانی لہجہ خوب زور دار اور سلیس ہے۔
 
ز بی‌دردان علاجِ دردِ خود جستن به آن مانَد
که خار از پا برون آرد کسی با نیشِ عقرب‌ها

(صائب تبریزی)
بےدرد لوگوں سے خود کے درد کا علاج ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے پاؤں سے کژدم (بچھو) کے نیش (ڈنگ) کے ذریعے سے کانٹا نکال رہا ہو۔
 
چه محوِ ناخدا گردیده‌ای، ای از خدا غافل؟
ندارد این سفر بادِ مرادی غیر ِ یاربها
(صائب تبریزی)
اے خدا سے غافل ! تو ناخدا (ملاح) میں کیا محو پڑا ہے؟ یہ سفر بجز یارب کی صدائیں کرنے کے، کوئی بادِ موافق نہیں رکھتا۔
 
ای دوست دستِ حافظ تعویذِ چشم‌زخم است
یا رب ببینم آن را در گردنت حمایل
(حافظ شیرازی)
اے دوست! حافظ کا ہاتھ نظرِ بد کا تعویذ ہے۔ یارب! میں اس (ہاتھ) کو تیری (یعنی دوست کی) گردن میں آویزاں دیکھتا ہوں۔
 
مشو مغرور دنیا بے وفا ہست
مخند اے گُل خزاں اندر قفا ہست
ہماں شخصے کہ شمعِ محفلت بود
مرا بنما کہ امروز آں کجا ہست

(غلام نصیر چلاسی المعروف بابا چلاسی)
مغرور مت ہو، دنیا بے وفا ہے
اے پھول مت ہنس، خزاں پیچھے آ رہی ہے
وہ شخص جو تیری محفل کی شمع تھا
مجھ دکھا کہ آج وہ کہاں ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من آن نیم کہ دگر می تواں فریفت مرا
فریبم اش کہ مگر می تواں فریفت مرا

مرزا غالب دہلوی
میں وو نہیں جسے کوئی دھوکا دے سکے ۔
مگر میں اسے یہ دھوکا دیتا ہوں کہ مجھے دھوکا دیا جا سکتا ہے ۔
 
من آن نیم کہ دگر می تواں فریفت مرا
فریبم اش کہ مگر می تواں فریفت مرا

مرزا غالب دہلوی
میں وو نہیں جسے کوئی دھوکا دے سکے ۔
مگر میں اسے یہ دھوکا دیتا ہوں کہ مجھے دھوکا دیا جا سکتا ہے ۔
صوفی غلام مصطفی تبسم نے اس کی یہ شرح لکھی ہے:
میں وہ نہیں کہ مجھے اب کوئی فریب دے سکے۔لیکن میں اپنے محبوب کو محض اس لئے یہ غلط احساس دلاتا ہوں کہ میں فریب کھا سکتا ہوں کہ اس خیال سے شائد وہ مجھے فریب دینے پر آمادہ ہوجائے۔
مقصود یہ ہے کہ میں اب حسن کے کسی فریب میں نہیں آسکتا۔ لیکن فریب کھانے میں جو لذت ہے، اس لذت کو ابھی نہیں بھولا اور اسے ظاہر نہیں کرتا۔ چاہتا ہوں میرا محبوب مجھے دھوکا دے اور مجھے مزہ آئے۔
 
نگارینا، شنیدستم که: گاه محنت و راحت
سہ پیراہن سلب بوده‌ست یوسف را به عمر اندر


اے محبوب میں نے سُنا ہے کہ (تمام عمرکی) رنج و راحت کے دوران ،،حضرت یوسف علیہ السلام سے تین لباس سلب کئے گئے ۔ چھن گئے یا کہ تذکرہ تین کرتوں کا ہے کہ جو آپ سے بو جوہ لئے گئے

یکی از کید شد پر خون، دوم شد چاک از تهمت
سوم یعقوب را ،از بوش روشن گشت چشم تر


ان میں سے ایک تو مکر و فریب سے خون آلود ہو گیا(دوسرا کرتہ ) تہمت کی وجہ سے چاک ہوا ۔
(تیسرا کرتہ ) ایک عظیم مقصد کے لیے کہ اس نےیعقوب علیہ السّلام آنکھوں کی بینائی لوٹا دی

رُخم ماند بدان اول، دلم ماند بدان ثانی
نصیب من شود در وصل آن پیراهن دیگر؟


تم میرے چہرے کو پہلا کرتا سمجھو!!
میرے(چاک ) دل کو دوسرا کرتا جانو!!
کیا ایسا ہو گا کہ تمہارا ملاپ( وصل) میرے لئے وہ (تیسرا ) کرتا بن جائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا وہ کرتا جو یعقوب علیہ السلام کی طرف بھیجا گیا جس سے ان کی بینائی لوٹ آئی ۔
رودکی

بشکریہ: طاہرہ الطاف
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خلاصی نیست ممکن زخمیٔ آن تیغ مژگان را
کجا پنهان شود صیدے که زخم خونچکان دارد

صائب تبریزی
تیری مژگاں کی تیغ کے زخمی کو چھٹکارا ممکن نہیں جیسے
وہ شکار کہاں چھپ پاتا ہے کہ جس کا خون رس رہا ہو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جان داد به غم غالب خشنودی روحش را
در بزم عزا می کش در نوحه غزلخوان شو

مرزا اسد اللہ خان غالب دہلوی
غالب نے غموں میں جان دی اس لیے اس کی روح کو شاد کرنے کے لیے
اس کی تعزیت کی بزم یوں کرو کہ مے نوشی کرو اور نوحے کی جگہ غزل سناؤ
 
خلاصی نیست ممکن زخمیٔ آن تیغ مژگان را
کجا پنهان شود صیدے که زخم خونچکان دارد

صائب تبریزی
تیری مژگاں کی تیغ کے زخمی کو چھٹکارا ممکن نہیں جیسے
وہ شکار کہاں چھپ پاتا ہے کہ جس کا خون رس رہا ہو
دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را

صائب تبریزی
مشکل وقت میں انساں کا رفیق بھی دشمن ہو جاتا ہے
زخم لگنے پر ہرن کا خون ہی شکاری کی رہبری کرنے لگتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را

صائب تبریزی
مشکل وقت میں انساں کا رفیق بھی دشمن ہو جاتا ہے
زخم لگنے پر ہرن کا خون ہی شکاری کی رہبری کرنے لگتا ہے
اسی لڑی کے صفحہ تیئیس پر یہ شعر شریک کیا جا چکا ہے ۔
 
Top