معاصر غزل سرا شاعر
ہوشنگ ابتہاج 'سایہ' کی ایک غزل کے چار اشعار:
نشود فاشِ کسی آنچه میانِ من و توست
تا اشاراتِ نظر نامه رسانِ من و توست
جب تک میرے اور تمہارے مابین ہماری نظر کے اشارے نامہ بری کا کام کر رہے ہیں اُس وقت تک میرے اور تمہارے درمیان جو کچھ ہے وہ کسی پر فاش نہیں ہو گا۔
گوش کن با لبِ خاموش سخن میگویم
پاسخم گو به نگاهی که زبانِ من و توست
(توجہ سے) سنو، کہ میں اپنے خاموش لبوں سے تکلم کر رہا ہوں۔۔۔ اور تم صرف ایک نگاہ کے ذریعے مجھے جواب دو کہ یہی ہماری زبان ہے۔
روزگاری شد و کس مردِ رهِ عشق ندید
حالیا چشمِ جهانی نگرانِ من و توست
مدت ہو گئی اور کسی نے راہِ عشق پر چلنے والا انسان نہیں دیکھا۔۔۔ اب ہر شخص کی آنکھ میری اور تمہاری جانب دیکھ رہی ہے (کہ شاید ہم عشق کی مشکل راہ پر چلنا قبول کر لیں۔)
گرچه در خلوتِ رازِ دلِ ما کس نرسید
همه جا زمزمهٔ عشقِ نهانِ من و توست
اگرچہ ہمارے قلبی رازوں کی خلوت تک کوئی شخص نہ پہنچ سکا، اس کے باوجود میرے اور تمہارے پوشیدہ عشق کے زیرِ لب نغمے ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔
(هوشنگ ابتهاج 'سایه')
یہ چار اشعار گلوکارہ سارا نائینی کی آواز میں سنیے:
http://playit.pk/watch?v=MwZ4-cbTgSY