حسان خان
لائبریرین
شبی نپرسی و روزی که دوستدارانم
چگونه شب به سحر میبرند و روز به شام
(سعدی شیرازی)
تم کسی شب اور کسی روز بھی یہ نہیں پوچھتے کہ مجھے محبوب رکھنے والے کس طرح اپنی شب کو صبح تک اور اپنے روز کو شام تک گذارتے [اور تحمل کرتے] ہیں۔
ملامتم نکند هر که معرفت دارد
که عشق میبستاند ز دستِ عقل زمام
(سعدی شیرازی)
جس کسی کو بھی اس بات کی معرفت ہو کہ عشق عقل کے ہاتھوں سے لگام چھین لیتا ہے، وہ مجھے ملامت نہیں کرے گا۔
چه جای توست دلِ تنگِ من؟ ولی یوسف
گهی به چه فتد و گه به بند و زندانی
(فخرالدین عراقی)
میرا تنگ دل تمہارے لیے مناسب جگہ ہونے کے کیا قابل ہے؟۔۔۔ لیکن یوسف بھی کبھی کنویں میں گِر جاتا ہے اور کبھی قید اور کسی زنداں میں۔۔۔
تشریف داد و رفت، ندانم ز بیخودی
کاین دوست بود در نظرم یا خیالِ دوست
(سعدی شیرازی)
وہ تشریف لایا اور چلا گیا۔۔۔ (لیکن) میں اپنی بے خودی کے باعث یہ نہیں جانتا کہ یہ میری نگاہوں میں دوست تھا یا صرف دوست کا خیال۔۔۔
یار جستم که غم از خاطرِ غمگین ببرد
نه که جان کاهد و دل خون کند و دین ببرد
(جعفر قزوینی)
میں ایسے یار کی تلاش میں تھا کہ جو میرے غمگین ذہن سے غم دور لے جائے۔۔۔ نہ یہ کہ وہ میری جان گھٹائے، میرا دل خون کرے اور میرا دین لے جائے۔۔۔
مشو سرگرمِ جامِ وصلِ او ای دل که این باده
اگر مستی دهد، دردِ سرِ بسیار هم دارد
(جنونی قندهاری)
اے دل! اُس کے وصل کے جام میں مشغول مت ہو جاؤ۔۔۔ کیونکہ اگر یہ شراب مستی دیتی ہے تو ساتھ ہی اپنے ہمراہ بہت سارا دردِ سر بھی رکھتی ہے۔
در بزم ازان به پهلوی خود جا دهد مرا
تا راست سوی او نتوانم نگاه کرد
(روغنی استرابادی)
محفل میں وہ مجھے اس لیے اپنے پہلو میں جگہ دیتا ہے تاکہ میں سیدھے اُس کی طرف نگاہ نہ کر سکوں۔
ابر اگر از طینتِ اهلِ جهان آگه شود
قطره سازی را بدل سازد به پیکان ساختن
(ابوطالب کلیم کاشانی)
اگر بادل دنیا کے لوگوں کی فطرت سے آگاہ ہو جائے تو اپنے قطرے بنانے کے کام کو تیر بنانے کے کام میں بدل ڈالے۔
چگونه شب به سحر میبرند و روز به شام
(سعدی شیرازی)
تم کسی شب اور کسی روز بھی یہ نہیں پوچھتے کہ مجھے محبوب رکھنے والے کس طرح اپنی شب کو صبح تک اور اپنے روز کو شام تک گذارتے [اور تحمل کرتے] ہیں۔
ملامتم نکند هر که معرفت دارد
که عشق میبستاند ز دستِ عقل زمام
(سعدی شیرازی)
جس کسی کو بھی اس بات کی معرفت ہو کہ عشق عقل کے ہاتھوں سے لگام چھین لیتا ہے، وہ مجھے ملامت نہیں کرے گا۔
چه جای توست دلِ تنگِ من؟ ولی یوسف
گهی به چه فتد و گه به بند و زندانی
(فخرالدین عراقی)
میرا تنگ دل تمہارے لیے مناسب جگہ ہونے کے کیا قابل ہے؟۔۔۔ لیکن یوسف بھی کبھی کنویں میں گِر جاتا ہے اور کبھی قید اور کسی زنداں میں۔۔۔
تشریف داد و رفت، ندانم ز بیخودی
کاین دوست بود در نظرم یا خیالِ دوست
(سعدی شیرازی)
وہ تشریف لایا اور چلا گیا۔۔۔ (لیکن) میں اپنی بے خودی کے باعث یہ نہیں جانتا کہ یہ میری نگاہوں میں دوست تھا یا صرف دوست کا خیال۔۔۔
یار جستم که غم از خاطرِ غمگین ببرد
نه که جان کاهد و دل خون کند و دین ببرد
(جعفر قزوینی)
میں ایسے یار کی تلاش میں تھا کہ جو میرے غمگین ذہن سے غم دور لے جائے۔۔۔ نہ یہ کہ وہ میری جان گھٹائے، میرا دل خون کرے اور میرا دین لے جائے۔۔۔
مشو سرگرمِ جامِ وصلِ او ای دل که این باده
اگر مستی دهد، دردِ سرِ بسیار هم دارد
(جنونی قندهاری)
اے دل! اُس کے وصل کے جام میں مشغول مت ہو جاؤ۔۔۔ کیونکہ اگر یہ شراب مستی دیتی ہے تو ساتھ ہی اپنے ہمراہ بہت سارا دردِ سر بھی رکھتی ہے۔
در بزم ازان به پهلوی خود جا دهد مرا
تا راست سوی او نتوانم نگاه کرد
(روغنی استرابادی)
محفل میں وہ مجھے اس لیے اپنے پہلو میں جگہ دیتا ہے تاکہ میں سیدھے اُس کی طرف نگاہ نہ کر سکوں۔
ابر اگر از طینتِ اهلِ جهان آگه شود
قطره سازی را بدل سازد به پیکان ساختن
(ابوطالب کلیم کاشانی)
اگر بادل دنیا کے لوگوں کی فطرت سے آگاہ ہو جائے تو اپنے قطرے بنانے کے کام کو تیر بنانے کے کام میں بدل ڈالے۔
آخری تدوین: