طفلِ بازیگوش آرام از معلم میبَرَد
تلخ دارد زندگی بر ما دلِ خودکامِ ما
(صائب تبریزی)
کھلنڈرا اور شرارتی بچہ (اپنے) استاد سے آرام چھین لے جاتا ہے۔۔۔ (اسی طرح) ہمارا خودسر و سرکش دل (بھی) زندگی کو ہمارے لیے تلخ بنائے رکھتا ہے۔
=========
زاهد تو هم برافروز شمعِ غرورِ طاعت
رحمت درین شبستان پروانهٔ گناه است
(بیدل دهلوی)
ترجمہ: اے زاہد! تم بھی اپنی غرورِ اطاعت کی شمع روشن کر لو۔۔۔ اس شبستان میں رحمت گناہ کا اجازت نامہ ہے۔
تشریح: شاعروں نے زاہد کے مقابل بیشتر دفعہ، اپنے گناہوں کی توجیہ کے لیے، رحمتِ خداوند کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی حوالے سے یہاں بیدل زاہد کے عصیان و گناہ کی بھی توجیہ کر رہا ہے اور اُسے قابلِ قبول دیکھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آخرکار جب رحمتِ خداوند موجود ہے تو یہ رحمت زاہد کے کیوں لیے نہ ہو؟ اگر یہ طے ہے کہ خدا ہمارے گناہوں کو بخشے گا تو پھر وہ اُس کے گناہِ غرور کو بھی بخش دے گا۔ یہاں ایک قسم کا تساہلِ رندانہ موجود ہے۔
اس شعر میں 'اجازت نامے' کے معنی میں لفظ 'پروانہ' بھی قابلِ توجہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیدل نے لفظ 'پروانے' میں موجود ایہام سے بھی کام لیا ہے، یعنی اس لفظ کو اپنے دوسرے معنی میں 'شمع' اور 'شبستان' سے مربوط کیا ہے۔ در حقیقت یہاں برافروز، شمع، شبستان اور پروانے کے درمِیان مراعات النظیر ہے۔
(
شارح: محمد کاظم کاظمی)