محمد وارث

لائبریرین
فی الجملہ نسبتے بہ تو کافی بوَد مرا
بلبل ھمیں کہ قافیۂ گل شوَد، بس است


ملک قُمی

قصہ مختصر، تجھ سے نسبت ہونا ہی میرے لیے کافی ہے، جیسے کہ بلبل کیلیے گُل کا قافیہ ہونا ہی بہت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که نامُخت از گذشتِ روزگار
نیز ناموزد ز هیچ آموزگار

(رودکی سمرقندی)
جس نے زمانے کی گردش سے کچھ نہ سیکھا، وہ کبھی کسی معلم سے بھی کچھ نہیں سیکھ سکے گا۔

دلا معاش چنان کن که گر بلغزد پای
فرشته‌ات به دو دستِ دعا نگه دارد

(حافظ شیرازی)
اے دل، ایسی زندگی بسر کرو کہ اگر کبھی تمہارے پاؤں لڑکھڑا جائیں تو کوئی فرشتہ اپنے دو دعا مانگتے ہاتھوں سے تمہیں گزند سے محفوظ رکھے۔

بسی ممنونم از دشمن که پیشِ یار هر ساعت
بدم می‌گوید و می‌آردم هر لحظه در یادش

(هدایت طبرستانی)
میں اپنے دشمن کا بہت شکر گزار ہوں کہ وہ یار کے سامنے ہر وقت مجھے برا بھلا کہتا ہے اور اِسی بہانے سے وہ مجھے ہر لمحہ یار کے حافظے میں لے آتا ہے۔

جانبِ هر بزم تکلیف از پیِ آنم کند
تا کند لطفی به غیر و رخنه در جانم کند

(ملک قمی)
وہ (ظالم یار) مجھے ہر بزم میں جانے پر اس لیے مجبور کرتا ہے تاکہ وہ وہاں (میرے سامنے) غیر پر کوئی لطف کرے اور اس طرح میری جان میں چھید کر دے۔

آنچنان کز رفتنِ گل خار می‌ماند به جا
از جوانی حسرتِ بسیار می‌ماند به جا

(صائب تبریزی)
جس طرح پھول کے چلے جانے کے بعد کانٹا باقی رہ جاتا ہے، اُسی طرح جوانی کے رخصت ہو جانے کے بعد کثیر تعداد میں حسرتیں باقی رہ جاتی ہیں۔

سنگ و گوهر هر دو یکسان است در میزانِ چرخ
آسیا کی دانه را از دانه می‌سازد جدا

(صائب تبریزی)
اس گھومنے والے (ظالم) آسمان کے ترازو میں سنگ اور گوہر دونوں برابر ہیں۔۔۔ چکّی کب ایک دانے کو دوسرے دانے سے جدا کرتی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ یوسف (ع) کی داستان میں تین پیراہنوں کا ذکر آیا ہے: وہ پیراہن کہ جسے اُن کے برادران خون آلود کر کے والد کے نزدیک لائے تھے کہ یوسف کو گُرگ نے چیر پھاڑ ڈالا ہے؛ وہ پیراہن کہ جو زلیخا کے ہاتھوں پُشت سے چاک ہوا تھا؛ اور وہ پیراہن کہ جو چشمِ یعقوب (ع) کی نابینائی ختم ہونے کا سبب بنا۔ رودکی سمرقندی نے ایک قطعے میں حضرت یوسف کے تین پیراہنوں کی جانب خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے:

نگارینا، شنیدستم که: گاهِ محنت و راحت
سه پیراهن سَلَب بوده‌ست یوسف را به عمر اندر
یکی از کَید شد پُرخون، دوم شد چاک از تهمت
سوم یعقوب را از بوش روشن گشت چشمِ تر
رُخم مانَد بدان اول، دلم مانَد بدان ثانی
نصیبِ من شود در وصل آن پیراهنِ دیگر؟

(رودکی سمرقندی)

اے محبوب! میں نے سنا ہے کہ رنج و راحت کے موقعوں پر تین پیراہن یوسف کی زندگی میں اُن کا لباس رہے تھے۔ ایک تو مکر و فریب سے خون سے پُر ہو گیا تھا، دوسرا تہمت کی وجہ سے چاک ہو گیا تھا، اور تیسرا وہ تھا کہ جس کی بو سے یعقوب کی چشمِ تر روشن ہوئی تھی۔۔۔ میرا پُرخون چہرہ پہلے پیراہن کی مانند ہے، جبکہ میرا دلِ چاک اُس دوسرے پیراہن کی مانند ہے۔۔۔ اب کیا وہ تیسرا پیراہن مجھے وصل کے موقع پر کبھی نصیب ہو گا؟
 
آخری تدوین:

صوفئ فقیر

محفلین
کسے کو غافل از حق یک زماں است
دراں دم کافر است امّا نہاں است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو شخص پل بھرکے لئے حق تعالٰی سے غافل ہو جائے اس وقت وہ کفر کی حالت میں ہے اگرچہ یہ کفر ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت میاں میرؔ قادری
 

صوفئ فقیر

محفلین
اے عاشق تو اٹھ اور راستے میں قدم رکھ ۔۔۔ اس راستے میں عقل راہزن ہے۔
اگر تو مرد نہیں ہے تو عشق کے قریب نہ پھٹک۔۔۔۔ ہیجڑوں کی طرح دور سے واہ واہ کر
اے ’’شرف‘‘ پہلے تو جان سے دستبردار ہو۔ پھر عشق کے راستے میں قدم رکھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشقا خیر و گام در رہ زن ۔۔۔ عقل باشد درین سفر راہزن
گرنہ مرد گرد عشق مگرد ۔۔۔۔۔ چون مخنث ز دور دہ دہ زن
دست برکش ’شرف‘ ز جان اول ۔۔۔ گام در راہ عشق وا نگہ زن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوان بُو علی قلندر (فارسی غزلیات)
صفعہ:۱۹۶
 

صوفئ فقیر

محفلین
1017458_559285057456097_1837823228_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
بهار آمد، تو هم ای زاهدِ بی‌درد، تزویری!
چمن گل، شیشه قلقل، یار مستی، من جنون کردم
(بیدل دهلوی)


ترجمہ: موسمِ بہار آ گیا۔۔۔ (جس کے باعث) چمن میں گُل کھِل گئے، شیشے نے قُلقُل کی آواز کی، یار نے مستی دکھائی اور میں نے جنون اپنا لیا۔۔۔ اب اے بے درد زاہد، تم بھی کوئی ریاکاری کرو!

تشریح: زاہد سے ہمیشہ اس بات کی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ریاکاری و تزویر سے دور رہے گا، لیکن بیدل کا یہاں گویا یہ باور ہے کہ یہ ریاکاری اب زاہد کی ذاتی صفات کا جز بن چکی ہے۔ پس اب کہ جب چمن میں گُل شگفتہ ہو رہے ہیں، شیشہ قُلقُل کر رہا ہے، یار مستی کر رہا ہے، اور شاعر جنوں۔۔۔؛ یعنی جس وقت کہ درحقیقت تمام وجودی مظاہر اپنی اصلی قابلیتوں کا اظہار کر رہے ہیں، زاہد کو بھی اپنی ریاکاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس شعر میں ایک قسم کا طنز پنہاں ہے۔
اس نکتے کی یاد دہانی ضروری ہے کہ یہ 'تزویری!' اصل میں 'تزویری بکن' کی جگہ پر استعمال ہوا ہے۔ بیدل نے اس طرح کے امری بیانات کا بِسیار استعمال کیا ہے۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یادگارِ جگرِ سوختۂ مجنوں است
لالۂ چند کہ از دامنِ صحرا برخاست


صائب تبریزی

مجنوں کے سوختہ جگر کی یادگار ہیں، وہ چند لالے کے پھول جو صحرا کے دامن میں کھلتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
طفلِ بازیگوش آرام از معلم می‌بَرَد
تلخ دارد زندگی بر ما دلِ خودکامِ ما
(صائب تبریزی)


کھلنڈرا اور شرارتی بچہ (اپنے) استاد سے آرام چھین لے جاتا ہے۔۔۔ (اسی طرح) ہمارا خودسر و سرکش دل (بھی) زندگی کو ہمارے لیے تلخ بنائے رکھتا ہے۔

=========

زاهد تو هم برافروز شمعِ غرورِ طاعت
رحمت درین شبستان پروانهٔ گناه است

(بیدل دهلوی)

ترجمہ: اے زاہد! تم بھی اپنی غرورِ اطاعت کی شمع روشن کر لو۔۔۔ اس شبستان میں رحمت گناہ کا اجازت نامہ ہے۔

تشریح: شاعروں نے زاہد کے مقابل بیشتر دفعہ، اپنے گناہوں کی توجیہ کے لیے، رحمتِ خداوند کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی حوالے سے یہاں بیدل زاہد کے عصیان و گناہ کی بھی توجیہ کر رہا ہے اور اُسے قابلِ قبول دیکھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آخرکار جب رحمتِ خداوند موجود ہے تو یہ رحمت زاہد کے کیوں لیے نہ ہو؟ اگر یہ طے ہے کہ خدا ہمارے گناہوں کو بخشے گا تو پھر وہ اُس کے گناہِ غرور کو بھی بخش دے گا۔ یہاں ایک قسم کا تساہلِ رندانہ موجود ہے۔
اس شعر میں 'اجازت نامے' کے معنی میں لفظ 'پروانہ' بھی قابلِ توجہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیدل نے لفظ 'پروانے' میں موجود ایہام سے بھی کام لیا ہے، یعنی اس لفظ کو اپنے دوسرے معنی میں 'شمع' اور 'شبستان' سے مربوط کیا ہے۔ در حقیقت یہاں برافروز، شمع، شبستان اور پروانے کے درمِیان مراعات النظیر ہے۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سعد اگر خوانی، چه حاصل طینتِ منحوس را؟
همچنان مسخ است اگر بوزینه میمون می‌شود
(بیدل دهلوی)


ترجمہ: اگر تم سعد (یعنی مبارک) کہہ کر (بھی) پکارو تو اس سے منحوس فطرت کو کیا فائدہ ہے؟۔۔۔ اگر بندر میمون بن جائے (یعنی اگر میمون کے نام سے پکارا جائے) تب بھی وہ اُسی طرح مسخ رہے گا۔
میمون = ۱. بندر ۲. مبارک، خجستہ

تشریح: بیدل نے لفظ میمون کے ایہام سے استفادہ کیا ہے۔ کہتا ہے کہ اگر بندر میمون (بمعنی سعد و مبارک) بھی بن جائے، تب بھی اُس کے حال میں کوئی فرق نہیں آئے گا، کیونکہ وہ قبل کی طرح میمون (بمعنی بندر) ہی رہے گا۔
ضمناً، یہ کہنہ شاعری کی اُن اندک مثالوں میں سے ہے جہاں میں نے لفظ 'میمون' کو بندر کے معنی میں، یعنی اُسی معنی میں کہ جو اس وقت ایران میں رائج ہے، دیکھا ہے۔ ورنہ 'میمون' زیادہ تر 'مبارک' کے معنی میں مستعمل رہا ہے اور اس جانور کو 'بوزینہ' یا کچھ اور کہا جاتا تھا۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یگانہ بودن و یکتا شدن ز چشم آموز
کہ ہر دو چشم جدا و جدا نمی نگرند


منوہر توسنی

(اے انسانو) یگانہ اور علیحدہ ہوتے ہوئے بھی متحد اور یکتا رہنا آنکھوں سے سیکھو کہ دونوں آنکھیں جدا ہیں لیکن الگ الگ نہیں دیکھتیں.
 

قیصرانی

لائبریرین
یگانہ بودن و یکتا شدن ز چشم آموز
کہ ہر دو چشم جدا و جدا نمی نگرند


منوہر توسنی

(اے انسانو) یگانہ اور علیحدہ ہوتے ہوئے بھی متحد اور یکتا رہنا آنکھوں سے سیکھو کہ دونوں آنکھیں جدا ہیں لیکن الگ الگ نہیں دیکھتیں.
خوبصورت :)
 

صوفئ فقیر

محفلین
قطرہ از تشویش موج نہانشد در صدف
گوشہ گیر بہارے خلق از انفعال صحبت است

قطرہ موج کی پریشانی سے بچ کر آخر سیپی میں چھپ گیا
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مخلوق کا گوشہ نشین ہونا صحبت کے اثر سے ہے۔

حضرت مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی
نکات بیدل
 

صوفئ فقیر

محفلین
ہستی جز جان کنی و خون خوردن نیست - از عالم مرگ عیش جان بردن نیست
در خلق بردن ز خلق بودن غلط است -صحبت با زندگی است با مردن نیست

ہستی بجز جان کنی (نزع کی حالت) اور خون کھانے کے کچھ نہیں۔ مرگ عیش کے عالم میں جان کو سالم لیجانا میسر نہیں (یعنیٰ جس شے کو تم عیش سمجھتے ہو وہ در حقیقت روح کی موت ہے کیونکہ عیش کی دنیا میں منہمک رہنے سے روح مردہ ہوجاتی ہے) خلق میں خلق سے باہر رہنا غلط ہے۔ صحبت زندگی کے ساتھ ہے مرنے کے ساتھ نہیں۔

حضرت مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی
نکات بیدل
 

حسان خان

لائبریرین
گذشت عمر و نکردی کلامِ خود را نرم
ترا چه حاصل ازین آسیای دندان است؟

(صائب تبریزی)

تمہیں اس دانتوں کی چکّی سے کیا فائدہ ہے کہ عمر گذر گئی لیکن تم نے اپنے کلام کو نرم و ملائم نہیں کیا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ستم است اگر ہوَسَت کشَد کہ بسیرِ سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای، درِ دل کشا، بہ چمن در آ


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

ستم ہے کہ اگر تیری ہوس تجھے (فانی و دنیاوی) گلستان کے سرو و سمن کی سیر پر اُکسائے، تُو خود کسی غنچے سے کم کِھلنے والا نہیں ہے (یعنی خود پھول ہے) اپنے دل کا دروازہ کھول اور (حقیقی) چمن میں چلا آ۔
 

صوفئ فقیر

محفلین
ہستی کز دل عدم گل کرد - ہم عدم بایدش تخیل کرد

جس ہستی نے عدم کے دل سے ظہور کیا ہے اُس کو بھی عدم خیال کرنا چاہیے۔


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل
 

صوفئ فقیر

محفلین
کثرت پیش از تمیز ما وحدت بود - آئینہ شدیم عکس پیدا کردیم

کثرت ہماری تمیز سے پہلے وحدت تھی۔
ہم خود آئینہ ہوئے اور عکس پیدا کیا - آپ ہی ناظر اور آپ ہی منظور بنے۔

ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل
 

صوفئ فقیر

محفلین
چیست انسان حرف و صوتی فارغ از نطق و بیان
جلوہ نیرنگئ در پردہ حیرت عیان


انسان کیا شے ہے؟ ایک حرف و صوت ہے جو نطق اور بیان سے فارغ ہے۔ یعنیٰ کلام نفسی کا جزء ہے جس کی صدا (کن ) ہے اور نیرنگی کا ایک جلوہ ہے جو پردہ حیرت میں عیاں ہورہاہے کیونکہ انسان عالم صغیر ہے جس کے صفات و کمالات دیکھ کر حیرت طاری ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top