حسان خان

لائبریرین
هر دیده‌ای که گوشهٔ ابرویِ یار دید
دیگر نکرد گوش به حرفِ هلالِ عید
(طالب آملی)

جس آنکھ نے بھی یار کے ابرو کا گوشہ دیکھ لیا اُس نے پھر دوبارہ ہلالِ عید کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔

ز دوریِ تو گرفت آن قدر ملال مرا
که جامِ باده نمی‌آورد به حال مرا
(ظفر خان احسن)

تمہاری دوری سے میں اس قدر ملول ہو گیا ہوں کہ اب جامِ بادہ بھی مجھے مستی کی حالت میں نہیں لاتا۔

بزرگ اوست که بر خاک همچو سایهٔ ابر
چنان رود که دلِ مور را نیازارد
(صائب تبریزی)

وہ شخص بزرگ ہے کہ جو خاک پر بادل کے سائے کی طرح ایسے چلے کہ چیونٹی کے دل کو بھی آزار نہ پہنچائے۔

واعظ! مکن دراز حدیثِ عذاب را
این بس بوَد که بارِ دگر زنده می‌شویم
(وحید قزوینی)

اے واعظ! عذاب کی گفتگو کو طول مت دو۔۔۔ یہی (عذاب) کافی ہے کہ ہم دوبارہ زندہ ہوں گے۔

افتادن و برخاستنِ باده پرستان
در مذهبِ رندانِ خرابات نماز است
(غنی کشمیری)

رندانِ خرابات کے مذہب میں بادہ پرستوں کا گرنا اور اٹھنا نماز ہے۔

سینهٔ ما جانگدازان کربلای حسرت است
آرزوی کشته‌ای هر سو شهید افتاده‌است
(میرزا رضی دانش مشهدی)

ہم جاں گداز لوگوں کا سینہ حسرتوں کی کربلا ہے جہاں ہر طرف کوئی کشتہ آرزو شہید پڑی ہوئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عمر بگذشت نماند است جز ایّامے چند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند

آپ کے شامل کردہ بقیہ دو اشعار مجھے سمجھ میں نہیں آئے، اس لیے صرف اسی شعر کا ترجمہ کر رہا ہوں۔
عمر بگذشت، نمانده‌ست جز ایّامی چند
به که در یادِ کسی صبح کنم شامی چند

عمر گذر گئی اور اب چند دنوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اب میں کچھ شامیں صبح تک کسی شخص کی یاد میں گذار دوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہاں رہِ عشق است کج رفتن نہ دارَد بازگشت
جرم را ایں جا عقوبت ہست، استغفار نیست


عرفی شیرازی

ہاں اچھی طرح سمجھ لے کہ یہ عشق کا راستہ ہے یہاں اگر بھٹک گئے تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں، یہ وہ جگہ ہے کہ یہاں جرم کی بس سزا ہے، توبہ اور استغفار نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما قوتِ پرواز نداریم، وگرنه
عمری‌ست که صیاد شکسته‌ست قفس را
(رفیع مشهدی)

ہم ہی قوتِ پرواز نہیں رکھتے ورنہ صیاد کو تو قفس توڑے ہوئے ایک عمر ہو گئی ہے۔

نالهٔ جان‌سوزم ازبس دل‌نشین افتاده‌است
هیچ کوهی برنمی‌گرداند این فریاد را
(تاثیر تبریزی)

میرا جاں سوز نالہ اتنا زیادہ دل نشیں واقع ہوا ہے کہ کوئی بھی کوہ اس فریاد (کی صدا) کو واپس نہیں پلٹاتا۔

گرچه مهمان چو نَفَس مایهٔ روح است، ولی
خفه می‌سازد اگر آید و بیرون نرود
(وحید قزوینی)

اگرچہ مہمان سانس کی طرح روح کا سرمایہ ہے لیکن اگر وہ آئے اور پھر باہر نہ جائے تو (مہمان بھی سانس ہی کی طرح) دم گھونٹ دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
خارِ رہَت بپائے غنیمت اگر رود
آید بدستِ اُو رگِ جانِ بہشت ہا


غنیمت کنجاہی

تیری راہ کا کانٹا اگر غنیمت کے پاؤں میں چبھ جائے تو گویا جنت کی رگِ جان اُس کے ہاتھ لگ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
درسِ ادیب اگر بوَد زمزمهٔ محبتی
جمعه به مکتب آورد طفلِ گریزپای را

(نظیری نیشابوری)
اگر معلم کا درس کوئی محبت کا نغمہ ہو تو وہ جمعے (یعنی تعطیل) کے دن بھی (مکتب سے) گریزاں بچے کو مکتب میں لے آئے۔

ستاره در افق آید بزرگ‌تر به نظر
نمودِ اهلِ هنر در فروتنی بیش است

(تاثیر تبریزی)
ستارہ جب (آسمان کی بلندی کے بجائے نیچے) افق پر ہوتا ہے تو وہ پہلے سے بڑا نظر آتا ہے؛ (لہٰذا ثابت ہوا کہ) اہلِ ہنر لوگوں کا جلوہ عاجزی و فروتنی میں زیادہ ہوتا ہے۔

سَبُک‌پی قاصدی باید که چون غمنامهٔ ما را
به دستِ او دهد کاغذ هنوز از گریه تر باشد

(ابوطالب کلیم کاشانی)
(ہمیں) ایک ایسے تیز رفتار قاصد کی حاجت ہے کہ جب وہ ہمارے غم نامے کو اُس (یار‌) کے ہاتھوں میں دے تو کاغذ ابھی تک ‌(ہمارے‌) گریے سے تر ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیدم نشستہ بر سرِ راہے قتیل را
اُو داند و دلش کہ چہ دید و چرا نشست


قتیل لاہوری

میں نے دیکھا کہ قتیل سرِ راہ بیٹھا ہوا تھا، اب یہ تو وہ خود ہی جانتا ہے یا اُس کا دل کہ اُس نے کیا دیکھا اور کیوں بیٹھا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پیروِ افتادگی، آخر به جایی می‌رسد
قطره‌ای بودم، تنزل کردم و دریا شدم

(تاثیر تبریزی)
عاجزی و انکساری کی راہ پر چلنے والا آخر کسی مقام پر پہنچ جاتا ہے؛ میں ایک قطرہ تھا، نیچے اترا اور سمندر بن گیا۔

راحتی نیست که از رنجِ کسی گُل نکند
خوابِ مخمل ز نخوابیدنِ مخمل‌باف است

(تاثیر تبریزی)
کوئی راحت ایسی نہیں جو کسی (دوسرے) کے رنج کے باعث ظاہر نہ ہوتی ہو؛ مخمل پر نیند، مخمل بُننے والے کے نہ سونے سے میسر ہوتی ہے۔

زنگِ ساعت شیونی گر می‌کند حیرت مکن
از برای فوتِ وقتِ خویشتن در ماتم است

(تاثیر تبریزی)
اگر گھڑی کا گھنٹا نالہ و زاری کرتا ہے تو (اِس پر) حیرت مت کرو؛ وہ اپنے وقت کے فوت ہونے کے باعث ماتم میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بی حسب، صاحب نسب ممتاز نتواند شدن
یک تن از چندین برادر، یوسفِ کنعان شود
(تاثیر تبریزی)

نیک کردار کے بغیر اچھا نسب رکھنے والا شخص ممتاز نہیں ہو سکتا؛ اتنے سارے بھائیوں میں صرف ایک فرد ہی یوسفِ کنعاں بنتا ہے۔ (حالانکہ ‌سارے بھائی ہی یعقوب ع کے بیٹے تھے‌‌۔)

بازوی کوشش چو واماند، دعا مشکل‌گشاست
عقده‌ای کز دست نگشود، از دهن وا می‌شود
(تاثیر تبریزی)

کوشش کرنے والا بازو جب تھک کر رک جائے تو پھر دعا مشکل کشا ہے؛ جو گرہ ہاتھ سے نہ کھل سکی ہو، وہ منہ سے کھلتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیدہ ام شاخِ گُلے، بر خویش می پیچم کہ کاش
می توانستم بیک دست ایں قدر ساغر گرفت


میر رضی دانش مشہدی

میں نے پھولوں سے بھری ہوئی ایک شاخ دیکھی اور تڑپ کر پیچ و تاب کھانے لگا کہ کاش میں بھی ایک ہاتھ میں اتنے ہی ساغر لے سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دورگردان را به احسان یاد کردن همت است
ورنه هر نخلی به پای خود ثمر می‌افکند
(صائب تبریزی)

اپنے سے دور گردش کرنے والوں کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا (اصل) ہمت اور بلند نظری ہے ورنہ ہر درخت ہی اپنے پاؤں کے پاس پھل گراتا ہے۔

(رباعی)
دل در خمِ زلفِ دلبرانست هنوز
افسانهٔ عشق در میانست هنوز
گفتیم که ما و دل بهم پیر شویم
ما پیر شدیم و او جوانست هنوز

(فسونی تبریزی)
دل ابھی تک دلبروں کی زلف کے خم میں (پھنسا ہوا) ہے؛ عشق کا افسانہ ابھی تک بیچ میں ہے؛ ہم نے کہا تھا ہم اور دل ایک ساتھ بوڑھے ہوں گے؛ ہم بوڑھے ہو گئے اور دل ابھی تک جوان ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گرچہ می دانم قسم خوردن بہ جانت خوب نیست
ھم بہ جانِ تو کہ یادم نیست سوگندِ دگر


نظیری نیشاپوری

اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تیری جان کی قسم کھانا اچھی بات نہیں ہے، لیکن تیری جان کی قسم مجھے کوئی اور قسم یاد ہی نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بال پروانہ اگر پاس ادب را می‌داشت
شمع پیراہن فانوس چرا می‌پوشید
صائب
پروانے کے پروں کو اگر ادب کا پاس ہوتا تو بھلا شمع کو فانوس کا لباس پہننے کی ضرورت کیوں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
با همه خلق نمودم خمِ ابرو که تو داری
ماهِ نو هر که ببیند به همه کس بنماید
(سعدی شیرازی)

تمہارے ابرو کا جو خم ہے وہ میں نے تمام لوگوں کو دکھایا؛ جو کوئی بھی نیا چاند (ہلال) دیکھ لے وہ ہر کسی کو دکھاتا ہے۔

از طلوع و از غروبِ مهر روشن شد که چرخ
هر که را برداشت صبح از خاک، شام افتد به خاک

(صائب تبریزی)
خورشید کے طلوع و غروب سے یہ بات آشکار ہو گئی کہ چرخ جس کو بھی صبح خاک سے اٹھاتا ہے، وہ شام کو (پھر) خاک پر گر جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هم سمندر باش و هم ماهی که در جیحونِ عشق
روی دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش است

(عرفی شیرازی)
سمندر بھی بنو اور مچھلی بھی، کیونکہ دریائے عشق میں دریا کی سطح سلسبیل (کی طرح) ہے اور دریا کی تہ آگ ہے۔

سمندر = آگ کے اندر زندگی بسر کرنے والا افسانوی جانور
جیحون = ماوراءالنہر کے ایک دریا کا نام ہے جو ادب میں مجازاً دریا کے معنی میں آتا ہے۔
سلسبیل = جنت کی ایک نہر کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
گرم تو کشته به دور افگنی، سگان نخورند
ز سوزِ عشق توام بسکه استخوان گرم است
(نوری اصفهانی)

تمہارے عشق کے سوز سے میری ہڈیاں اتنی زیادہ گرم ہیں کہ اگر تم مجھے قتل کر کے دور پھینک دو تو کتے مجھے نہیں کھائیں گے۔

تا از جفای او نرهم، خونِ من نریخت
بی‌رحم، ترسِ روزِ جزا را بهانه ساخت
(میلی هروی)

اُس نے میرا خون اس لیے نہیں بہایا تاکہ میں اُس کی جفاؤں سے رہائی نہ پا سکوں؛ (مگر‌ اُس) بے رحم نے بہانہ یہ بنایا کہ اُسے روزِ جزا کا خوف ہے۔

عمر بگذشت و ز هم ریخت بنای گِلِ ما
وآنچه مقصودِ حقیقی‌ست نشد حاصلِ ما

(میرزا ارشد هروی)
عمر گذر گئی اور گیلی مٹی سے بنی ہمارے جسم کی عمارت بوسیدہ ہو کر بکھر گئی، لیکن جو چیز مقصودِ حقیقی ہے وہ ہمیں حاصل نہ ہو سکی۔

طرفه رمزی‌ست که از نوکِ قلم می‌روید
هرچه دهقانِ ازل کِشته در آب و گِلِ ما

(میرزا ارشد هروی)
یہ ایک عجیب رمز ہے کہ دہقانِ ازل نے ہماری آب و گِل میں جو کچھ بھی بویا تھا وہ ہمارے قلم کی نوک سے اُگتا ہے۔

به خواری دید شیطان در سرشتِ خاک و زین غافل
که چندین نقش‌های گونه گون زین گِل شود پیدا

(میرزا ارشد هروی)
شیطان نے بہ حقارت خاک سے بنی سرشت تو دیکھ لی لیکن وہ اس سے غافل رہا کہ اِس گِل سے کتنے ہی گوناگوں نقش ظاہر ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گر ببینی ناکساں بالا نشیند صبر کن
روئے دریا کف نشیند، قعرِ دریا گوہر است


صائب تبریزی

اگر تُو دیکھے کہ ناایل اور نالایق لوگ رتبے میں تجھ سے بلند ہیں تو صبر کر، کیونکہ سمندر کے اوپر جھاگ ہوتی ہے اور گوہر سمندر کی تہہ میں ہوتا ہے۔
 
Top