هر دیدهای که گوشهٔ ابرویِ یار دید
دیگر نکرد گوش به حرفِ هلالِ عید
(طالب آملی)
جس آنکھ نے بھی یار کے ابرو کا گوشہ دیکھ لیا اُس نے پھر دوبارہ ہلالِ عید کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔
ز دوریِ تو گرفت آن قدر ملال مرا
که جامِ باده نمیآورد به حال مرا
(ظفر خان احسن)
تمہاری دوری سے میں اس قدر ملول ہو گیا ہوں کہ اب جامِ بادہ بھی مجھے مستی کی حالت میں نہیں لاتا۔
بزرگ اوست که بر خاک همچو سایهٔ ابر
چنان رود که دلِ مور را نیازارد
(صائب تبریزی)
وہ شخص بزرگ ہے کہ جو خاک پر بادل کے سائے کی طرح ایسے چلے کہ چیونٹی کے دل کو بھی آزار نہ پہنچائے۔
واعظ! مکن دراز حدیثِ عذاب را
این بس بوَد که بارِ دگر زنده میشویم
(وحید قزوینی)
اے واعظ! عذاب کی گفتگو کو طول مت دو۔۔۔ یہی (عذاب) کافی ہے کہ ہم دوبارہ زندہ ہوں گے۔
افتادن و برخاستنِ باده پرستان
در مذهبِ رندانِ خرابات نماز است
(غنی کشمیری)
رندانِ خرابات کے مذہب میں بادہ پرستوں کا گرنا اور اٹھنا نماز ہے۔
سینهٔ ما جانگدازان کربلای حسرت است
آرزوی کشتهای هر سو شهید افتادهاست
(میرزا رضی دانش مشهدی)
ہم جاں گداز لوگوں کا سینہ حسرتوں کی کربلا ہے جہاں ہر طرف کوئی کشتہ آرزو شہید پڑی ہوئی ہے۔