دل عشوه میفروخت که من مرغِ زیرکم
اینک فتاده در سرِ زلفِ چو دامِ اوست (سعدی شیرازی)
(میرا) دل ناز کیا کرتا تھا کہ 'میں عقل مند پرندہ ہوں' اور اب دیکھو کہ وہ اُس کی جال جیسی زلفوں میں گرا ہوا ہے۔
عشرت ما معنی نازک بدست آوردن است
عید ما نازک خیالان را ہلال این است و بس صائب تبریزی۔
ہماری عشرت تو نازک معانی کو گرفت میں لانا ہے ۔
سو ہماری عید نازک خیالوں کوعید کا (نازک) ہلال ہی ہے۔
از مهرِ دوستانِ ریاکار خوشتر است
دشنامِ دشمنی که چو آئینه راستگوست (پروین اعتصامی)
ریاکار دوستوں کی محبت سے اُس دشمن کی گالی بہتر ہے جو آئینے کی طرح راست گو ہے۔
ای جوان بر قامتِ خمگشتهٔ پیران نگر
رفته رفته زندگی بارِ گرانی میشود (واثق نیشابوری)
اے جوان! بوڑھوں کی خم شدہ قامت پر نگاہ کرو؛ رفتہ رفتہ زندگی ایک بارِ گراں ہو جاتی ہے۔
شکرِ بیاندازه گویم کردگارِ خویش را
بعدِ عمری دیدهام امروز یارِ خویش را (صوفی غلام نبی عشقری)
میں اپنے پروردگار کا بے حد شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے آج ایک عمر کے بعد اپنے یار کو دیکھا ہے۔
خداناکرده گر در خواب بینم وصفِ هجرانت
به مغزم هوش مینالد، به چشمم خواب میلرزد (اسماعیل فردوسی فراهانی)
خدانخواستہ اگر میں (کبھی) نیند کے دوران تمہارے ہجر کے اوصاف دیکھ لوں تو (دہشت سے) میرے مغز میں ہوش نالہ کرنے لگے گا اور میری آنکھوں میں نیند پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔
تا پیِ پرسشِ ما رنجه نمودی لبِ خویش
میبَرَد رشک به بیماریِ ما صحتِ ما (والهی قمی)
جب سے تم نے اپنے لبوں کو ہماری حال پُرسی کے لیے زحمت دی ہے، تب سے ہماری صحت ہماری بیماری سے حسد کرتی ہے۔
عشق به جز مرگ ندارد علاج
بیخبران صبر و سفر گفتهاند (حالتی ترکمان)
عشق کا بجز موت علاج نہیں ہے؛ بے خبروں نے 'صبر و سفر' کہا ہے۔
به باغی داشت مرغی این ترانه
که دور از گل قفس به ز آشیانه (نشاط قمی)
کسی باغ میں کوئی پرندہ یہ نغمہ گا رہا تھا کہ پھول سے دور ہو کر آشیانے سے قفس بہتر ہے۔
روحِ پدرم شاد که میگفت به استاد
فرزندِ مرا هیچ نیاموز به جز عشق (عارف قزوینی)
میرے والد کی روح شاد ہو کہ وہ استاد سے کہا کرتے تھے: "میرے فرزند کو بجز عشق کچھ مت سکھاؤ۔"
هر جا حکایتی شود از کشتگانِ عشق
ای راویانِ دهر ز ما هم روایتی (سخای اصفهانی)
اے زمانے کے راویو! جہاں بھی کشتگانِ عشق کی کوئی حکایت بیان ہو، (وہاں) ہم سے متعلق بھی کوئی روایت نقل کر دینا۔
معلم، غالباً، امروز درسِ عشق میگوید
که در فریاد میبینیم طفلان را به مکتبها (هلالی جغتایی)
آج معلم غالباً عشق کا درس دے رہا ہے کیونکہ ہمیں مکتبوں میں بچے فریاد کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مگر درسِ کتابِ هجر میگوید ادیب امروز
که میآید صدای گریهٔ طفلان ز مکتبها (صحبت لاری)
شاید آج معلم کتابِ ہجر کا درس دے رہا ہے کیونکہ مکتبوں سے بچوں کے گریے کی صدا آ رہی ہے۔
خلق گل بینند و من روی تو، زیرا خوشتر است
یک نظر در دوست از صد ساله بستان در نظر (امیر خسرو دهلوی)
لوگ پھول دیکھتے ہیں اور میں تمہارا چہرہ، کیونکہ یار پر ایک نظر گلستان کی صد سالہ رویت سے خوب تر ہے۔
زلف اگر بر عارضِ او حلقه گردد دور نیست
پیچ و تابی هست لازم موی آتشدیده را (عالی شیرازی)
اگر اُس کے چہرے پر (اُس کی) زلف حلقہ دار ہو جاتی ہے تو یہ بعید (بات) نہیں ہے؛ آتش دیدہ بال کو ذرا سا پیچ و تاب لازم ہوتا ہے۔
اگر یک حرف با اغیار و با من صد سخن گوید
نیارم تاب آن یک حرف هم خواهم به من گوید (شرف قزوینی)
خواہ وہ اغیار سے ایک حرف اور مجھ سے سو باتیں کہے، (تو بھی) میں تاب نہیں لا پاتا اور (یہ) چاہتا ہوں کہ وہ ایک حرف بھی وہ مجھ سے کہے۔
ای دیده خون ببار مبادا که پای یار
ممنونِ دستگیریِ رنگِ حنا شود (لطیف قزوینی)
اے چشم! خون برساؤ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یار کا پاؤں رنگِ حنا کی اعانت کا ممنون ہو جائے۔
لرزدم دست دهی چون به کفم دامنِ وصل
چون عطا عمده بوَد دستِ گدا میلرزد (والهی قمی)
میرا ہاتھ لرزتا ہے جب تم میرے ہاتھ میں دامنِ وصل دیتے ہو؛ جب عطا عمدہ ہو تو گدا کا ہاتھ لرزتا ہے۔