هر کس که کرد سرزنشم چون تو را بدید
بوسید پای من که بلی حق به دستِ توست (جلالالدین عَضُد یزدی)
ہر وہ شخص کہ جس نے مجھے ملامت کی تھی، جب اُس نے تمہیں دیکھا تو میرے پاؤں چومے (اور کہا) کہ "ہاں تم حق پر ہو"۔
چشمِ تو به این مستی و پیمانشکنیها
نشکست چرا ساغرِ پیمانِ تغافل (بیدل دهلوی)
تمہاری چشم نے (اپنی) اِن مستی و پیمان شکنیوں سے (آخر) پیمانِ تغافل کا ساغر کیوں نہیں توڑا؟
ای فلک، داد از جفایت، در چه حالم کردهای؟
راست بودم چون الف، مانندِ دالم کردهای (نقیب خان طغرل احراری)
اے فلک، تمہاری جفا سے فریاد! تم نے مجھے (یہ) کس حال میں کر دیا ہے؟ میں الف کی طرح سیدھا تھا، (لیکن) تم نے مجھے دال کی مانند (خم) کر دیا ہے۔
ساقی، به یک دو جامِ جگرگون خلاص ده
تا کَی ز جامِ حادثه خونِ جگر کشیم؟ (امیر علیشیر نوایی)
اے ساقی! جگر جیسے سرخ رنگ کے ایک دو جاموں کے ذریعے (ہمیں) نجات بخشو۔۔۔ (آخر) ہم کب تک حادثے کے جام سے خونِ جگر نوش کرتے رہیں؟
دل سوزد از غمِ رخِ آن شوخِ مهوَشم
ساقی کجاست باده، که بنشانَد آتشم؟ (امیر علیشیر نوایی)
(میرا) دل میرے اُس شوخِ ماہ وَش کے چہرے کے غم سے جل رہا ہے؛ اے ساقی! (وہ) شراب کہاں ہے جو میری (یہ) آگ سرد کر دے؟
بُوَد گرچه جامِ مَیِ لالهگون تلخ
ولی جامِ هجر است از وَی فُزُون تلخ (امیر علیشیر نوایی) اگرچہ گُلِ لالہ جیسے سُرخ رنگ کی شراب کا جام تلخ ہوتا ہے لیکن ہجر کا جام اُس سے [بھی] زیادہ تلخ ہے۔
ز بیوفاییِ اهلِ زمان نیازارم
وفا که دید از ایشان که من طمع دارم؟ (امیر علیشیر نوایی)
میں اہلِ زمانہ کی بے وفائی سے آزردہ نہیں ہوتا؛ اُن سے (آخر) کس نے وفا دیکھی ہے جو میں طمع رکھوں؟
حالانہ عشق شعلہء حرّاق گشتہ بود
در فنِّ سوختن دلِ من طاق گشتہ بود
احمد جاوید
ترجمہ: ابھی عشق ، جلانے والا شعلہ نہ بنا تھا کہ میرا دل جلنے کے فن میں طاق ہو چکا تھا۔ یعنی میں اُس وقت عاشقِ کامل بن چکا تھا جب عشق ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔
به ناخن سینهٔ خود میخراشم
ز دل جز حرفِ عشقت میتراشم (عبدالرحمٰن جامی)
میں ناخن سے اپنا سینہ خراش رہا ہوں اور (اِس طرح) دل سے تمہارے عشق کے حرف کے سوا ہر چیز تراش رہا ہوں۔
خواندهام قصهٔ عشاق بسی نیست در آن
جز جفاکاریِ دلدار و وفاداریِ دل (عبدالرحمٰن جامی)
میں نے عاشقوں کے قصے بہت پڑھے ہیں۔۔۔ اُن میں دلدار کی جفاکاری اور دل کی وفاداری کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔
مژدهٔ اعجازِ عیسیٰ میدهد آهنگِ او
مطربی گر نغمهٔ عشقِ تو در چنگ آورد (محمد نقیب خان طغرل احراری)
اگر کوئی مطرب تمہارے عشق کے نغمے کو سازِ چنگ پر بجاتا ہے تو اُس کا آہنگ عیسیٰ کے معجزے کی بشارت دیتا رہتا ہے۔
(بہ چنگ آوردن/در چنگ آوردن کا لفظی مطلب 'ہاتھ میں لانا، ملکیت میں لانا، قبضے میں لانا' ہے۔)
برگیست لبت از چمنستانِ تبسم
موجیست نگاهِ تو ز عُمّانِ تغافل (بیدل دهلوی)
تمہارا لب چمنستانِ تبسم کا ایک برگ ہے جبکہ تمہاری نگاہ بحرِ تغافل کی ایک موج ہے۔
با منی اما چه حاصل؟ سوی من مایل نهای
در دلی اما چه سود؟ آگه ز حالِ دل نهای (محمد فضولی بغدادی)
تم میرے ساتھ ہو لیکن کیا حاصل؟ کہ تم میری جانب مائل نہیں ہو؛ تم دل میں ہو لیکن کیا فائدہ؟ کہ تم دل کے حال سے آگاہ نہیں ہو۔
تو بدان مایل که بر من هر زمان جوری کنی
من بدین خوشدل که از من یک زمان غافل نهای (محمد فضولی بغدادی)
تم اس (بات) پر مائل ہو کہ مجھ پر ہر وقت کوئی ستم کرو اور میں اس (بات) پر خوش دل ہوں کہ تم مجھ سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہو۔
(رباعی) ای دلبرِ عیسیٰ نَفَسِ ترسایی
خواهم به برم شبی تو بیترس آیی
گه پاک کنی به آستین چشمِ ترم
گه بر لبِ خشکِ من لبِ تر سایی (شاطر عباص صبوحی)
اے ایک عیسیٰ نَفَس مسیحی دلبر! میں چاہتا ہوں کہ میری آغوش میں کسی شب تم بے خوف آؤ۔۔۔ (پھر،) کبھی آستین سے میری چشمِ تر پاک کرو اور کبھی میرے خشک لب پر لبِ تر مَلو۔
[میرزا محمد نصیر حسینی فرصت الدولہ شیرازی نے اپنی کتاب 'بحورالالحان' میں یہ رباعی 'مسیحی شبستری' سے منسوب کی ہے اور اُنہوں نے اس کا مصرعِ ثانی یوں نقل کیا ہے: 'خواهم که به پیشِ من تو بیترس آیی' یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے سامنے تم بے خوف آؤ۔]