حسان خان

لائبریرین
هر کس که کرد سرزنشم چون تو را بدید
بوسید پای من که بلی حق به دستِ توست
(جلال‌الدین عَضُد یزدی)

ہر وہ شخص کہ جس نے مجھے ملامت کی تھی، جب اُس نے تمہیں دیکھا تو میرے پاؤں چومے (اور کہا) کہ "ہاں تم حق پر ہو"۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چشمِ تو به این مستی و پیمان‌شکنی‌ها
نشکست چرا ساغرِ پیمانِ تغافل
(بیدل دهلوی)

تمہاری چشم نے (اپنی) اِن مستی و پیمان شکنیوں سے (آخر) پیمانِ تغافل کا ساغر کیوں نہیں توڑا؟

ای فلک، داد از جفایت، در چه حالم کرده‌ای؟
راست بودم چون الف، مانندِ دالم کرده‌ای
(نقیب خان طغرل احراری)

اے فلک، تمہاری جفا سے فریاد! تم نے مجھے (یہ) کس حال میں کر دیا ہے؟ میں الف کی طرح سیدھا تھا، (لیکن) تم نے مجھے دال کی مانند (خم) کر دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آنچہ بر سینۂ ما رفت ز نیشِ مژہ ای
بر سرِ کوہکن از تیشۂ فولاد نرفت


طالب آملی

پلکوں کے نشتر سے جو کچھ ہمارے دل پر گزر گئی وہ تو فرہاد کے سر پر فولاد کا تیشہ مارنے سے بھی نہیں گزری تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
ساقی، به یک دو جامِ جگرگون خلاص ده
تا کَی ز جامِ حادثه خونِ جگر کشیم؟

(امیر علی‌شیر نوایی)
اے ساقی! جگر جیسے سرخ رنگ کے ایک دو جاموں کے ذریعے (ہمیں) نجات بخشو۔۔۔ (آخر) ہم کب تک حادثے کے جام سے خونِ جگر نوش کرتے رہیں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دل سوزد از غمِ رخِ آن شوخِ مه‌وَشم
ساقی کجاست باده، که بنشانَد آتشم؟
(امیر علی‌شیر نوایی)

(میرا) دل میرے اُس شوخِ ماہ وَش کے چہرے کے غم سے جل رہا ہے؛ اے ساقی! (وہ) شراب کہاں ہے جو میری (یہ) آگ سرد کر دے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وصلِ اُو دیدم، ندارَم تابِ ہجر
سلطنت کردم، گدائی چوں کنم


درویش ناصر بخاری

مجھے اُس کے وصال کا شرف حاصل ہوا ہے اور ہجر کی تاب نہیں ہے، میں نے بادشاہی کی ہے، گدائی کیسے کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
بُوَد گرچه جامِ مَیِ لاله‌گون تلخ
ولی جامِ هجر است از وَی فُزُون تلخ
(امیر علی‌شیر نوایی)

اگرچہ گُلِ لالہ جیسے سُرخ رنگ کی شراب کا جام تلخ ہوتا ہے لیکن ہجر کا جام اُس سے [بھی] زیادہ تلخ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز بی‌وفاییِ اهلِ زمان نیازارم
وفا که دید از ایشان که من طمع دارم؟
(امیر علی‌شیر نوایی)

میں اہلِ زمانہ کی بے وفائی سے آزردہ نہیں ہوتا؛ اُن سے (آخر) کس نے وفا دیکھی ہے جو میں طمع رکھوں؟
 
کنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد

ابھی کسے عقل ہے کہ کہ باغبان سے پوچھے کہ بلبل نے کیا کہا؟پھول نے کیا سنا؟ اور صبا نے کیا کیا؟
شاعر کا نام معلوم نہیں ہے۔
 

بے الف اذان

محفلین
حالانہ عشق شعلہء حرّاق گشتہ بود
در فنِّ سوختن دلِ من طاق گشتہ بود


احمد جاوید

ترجمہ: ابھی عشق ، جلانے والا شعلہ نہ بنا تھا کہ میرا دل جلنے کے فن میں طاق ہو چکا تھا۔ یعنی میں اُس وقت عاشقِ کامل بن چکا تھا جب عشق ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گفتی، بگو کہ "بندۂ فرمانِ کیستی؟"
ما بندۂ تو ایم، تو سلطانِ کیستی؟


ہلالی چغتائی

تُو نے پوچھا کہ بتاؤ "کس کے فرمان کے بندے ہو؟"، ہم تو تیرے ہی بندے ہیں لیکن تُو بتا کہ تُو کس کا سلطان ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
به ناخن سینهٔ خود می‌خراشم
ز دل جز حرفِ عشقت می‌تراشم
(عبدالرحمٰن جامی)

میں ناخن سے اپنا سینہ خراش رہا ہوں اور (اِس طرح) دل سے تمہارے عشق کے حرف کے سوا ہر چیز تراش رہا ہوں۔
 

بے الف اذان

محفلین
گفتی، بگو کہ "بندۂ فرمانِ کیستی؟"
ما بندۂ تو ایم، تو سلطانِ کیستی؟


ہلالی چغتائی

تُو نے پوچھا کہ بتاؤ "کس کے فرمان کے بندے ہو؟"، ہم تو تیرے ہی بندے ہیں لیکن تُو بتا کہ تُو کس کا سلطان ہے؟
واہ واہ واہ ! میرا پسندیدہ شعر ۔ ۔ ۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوانده‌ام قصهٔ عشاق بسی نیست در آن
جز جفاکاریِ دل‌دار و وفاداریِ دل
(عبدالرحمٰن جامی)

میں نے عاشقوں کے قصے بہت پڑھے ہیں۔۔۔ اُن میں دلدار کی جفاکاری اور دل کی وفاداری کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔

مژدهٔ اعجازِ عیسیٰ می‌دهد آهنگِ او
مطربی گر نغمهٔ عشقِ تو در چنگ آورد

(محمد نقیب خان طغرل احراری)
اگر کوئی مطرب تمہارے عشق کے نغمے کو سازِ چنگ پر بجاتا ہے تو اُس کا آہنگ عیسیٰ کے معجزے کی بشارت دیتا رہتا ہے۔
(بہ چنگ آوردن/در چنگ آوردن کا لفظی مطلب 'ہاتھ میں لانا، ملکیت میں لانا، قبضے میں لانا' ہے۔)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اے ہم نَفَسانِ محفِلِ ما
رفتید ولے نہ از دِلِ ما


فیضی دکنی

اے ہماری محفل کے ہم نفسو، اے میرے پیارو، تم چلے تو گئے لیکن ہمارے دل سے نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
برگی‌ست لبت از چمنستانِ تبسم
موجی‌ست نگاهِ تو ز عُمّانِ تغافل
(بیدل دهلوی)

تمہارا لب چمنستانِ تبسم کا ایک برگ ہے جبکہ تمہاری نگاہ بحرِ تغافل کی ایک موج ہے۔

با منی اما چه حاصل؟ سوی من مایل نه‌ای
در دلی اما چه سود؟ آگه ز حالِ دل نه‌ای
(محمد فضولی بغدادی)

تم میرے ساتھ ہو لیکن کیا حاصل؟ کہ تم میری جانب مائل نہیں ہو؛ تم دل میں ہو لیکن کیا فائدہ؟ کہ تم دل کے حال سے آگاہ نہیں ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو بدان مایل که بر من هر زمان جوری کنی
من بدین خوش‌دل که از من یک زمان غافل نه‌ای
(محمد فضولی بغدادی)

تم اس (بات) پر مائل ہو کہ مجھ پر ہر وقت کوئی ستم کرو اور میں اس (بات) پر خوش دل ہوں کہ تم مجھ سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہو۔

(رباعی)
ای دلبرِ عیسیٰ نَفَسِ ترسایی
خواهم به برم شبی تو بی‌ترس آیی
گه پاک کنی به آستین چشمِ ترم
گه بر لبِ خشکِ من لبِ تر سایی

(شاطر عباص صبوحی)
اے ایک عیسیٰ نَفَس مسیحی دلبر! میں چاہتا ہوں کہ میری آغوش میں کسی شب تم بے خوف آؤ۔۔۔ (پھر،) کبھی آستین سے میری چشمِ تر پاک کرو اور کبھی میرے خشک لب پر لبِ تر مَلو۔
[میرزا محمد نصیر حسینی فرصت الدولہ شیرازی نے اپنی کتاب 'بحورالالحان' میں یہ رباعی 'مسیحی شبستری' سے منسوب کی ہے اور اُنہوں نے اس کا مصرعِ ثانی یوں نقل کیا ہے: 'خواهم که به پیشِ من تو بی‌ترس آیی' یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے سامنے تم بے خوف آؤ۔]
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
در جاں ز عشق سوزے، در دل ز طعن داغے
یاراں حذر کہ بارد زیں روزگار آتش


بابا فغانی شیرازی

عشق کی وجہ سے جان میں سوزش اور جلن ہے، اور (لوگوں کے) طعنوں سے دل میں داغ ہیں، یارو حذر کرو، بچو کہ یہ زمانہ تو آگ برساتا ہے۔
 
Top