محمد وارث

لائبریرین
گویند بہشت است ہماں راحتِ جاوید
جائے کہ بداغے نہ طپد دل، چہ مقام است؟


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

کہتے ہیں کہ بہشت ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں دائمی راحت ہے، آرام ہے، سکون ہے، لیکن جس جگہ کسی داغ کی وجہ سے دل بیقرار اور بیتاب ہو کر نہ تڑپے، وہ کیا اور کیسا بھی مقام ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
کشید از دامنِ معشوق دست از بیمِ رسوایی
همین تقصیر بس تا دامنِ محشر زلیخا را
(صائب تبریزی)

زلیخا کے (نامۂ اعمال میں) قیامِ روزِ محشر تک یہی جرم کافی ہے کہ اُس نے رسوائی کے خوف سے معشوق کے دامن سے (اپنا) ہاتھ کھینچ لیا۔

آهِ بی‌تاثیرِ ما را کم مگیر
هر کجا دودی‌ست، آتش در قفاست

(بیدل دهلوی)
ہماری بے تاثیر آہ کو حقیر مت شمار کرو؛ جہاں بھی کوئی دھواں ہو، (وہاں) عقب میں آتش ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:
نداند رسمِ یاری بے وفا یارے کہ من دارم
بہ آزارِ دلم کوشد دل آزارے کہ من دارم

(میرا بے وفا یار دوستی کی رسم نہیں جانتا۔ میرا یارِ دل آزار میری دل آزاری میں مصروف رہتا ہے)
گہے خارے کشم از پا، گہے دستے زنم بر سر
بکوئے دل فریباں ایں بُوَد کارے کہ من دارم

(کبھی میں اپنے پاوں سے کانٹا نکالتا ہوں اور کبھی اپنے سر پر ہاتھ رکھتا ہوں۔دل فریبوں کی گلی میں میرا یہی کام ہوتا ہے۔)
دلِ رنجورِ من از سینہ ہر دم مے رود سوئے
زِ بستر مے گریزد طفلِ بیمارے کہ من دارم

(میرا رنجیدہ دل سینے سے ہر دم کسی طرف نکل جاتا ہے۔ گویا میرا بیمار بیٹا بستر سے بھاگ جاتا ہے)
(رہی معیری)

اس شاعری کو مرحوم احمد ظاہر کی آواز میں اس لنک پر سنا جاسکتا ہے۔
http://playit.pk/watch?v=CtuCP3pM654
 

حسان خان

لائبریرین
ز شوقت انبساطی در دلِ مکتوب پیدا شد
که هرچندش به رنگِ غنچه پیچیدم چو گل وا شد
(زاهد علی خان سخا)

تمہارے اشتیاق سے (میرے) خط کے دل میں (ایسی) شادمانی ظاہر ہوئی کہ اگرچہ میں نے اُسے غنچے کے طرح لپیٹا تھا، وہ پھول کی طرح وا ہو گیا۔

مگو در کوی او شب تا سحر بهرِ چه می‌گردی
که دل گم کرده‌ام آنجا و می‌جویم نشانش را

(فروغی بسطامی)
یہ مت کہو کہ "اُس کے کوچے میں شب سے سحر تک کس لیے گھومتے ہو؟"؛ کہ میں نے وہاں دل گم کر دیا ہے اور (اب) اُس کا نشان ڈھونڈتا ہوں۔

به کویت گر چنین آشفته می‌گردم مکن عیبم
دلی گم کرده‌ام اینجا و می‌جویم نشانش را

(مشتاق اصفهانی)
اگر میں تمہارے کوچے میں اِس طرح آشفتہ گھومتا ہوں تو (اِس پر) میری سرزنش مت کرو؛ (کہ) میں نے یہاں ایک دل گم کر دیا ہے اور (اب) اُس کا نشان ڈھونڈتا ہوں۔
[دیوانِ مشتاق اصفہانی کے ایک نسخے میں 'مکن عیبم' کی بجائے 'مکن منعم' درج ہے یعنی: مجھے منع مت کرو۔]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
درختِ خشک از سعیِ بهاران بر نمی‌گیرد
چه حاصل در کهن‌سالی به فکرِ طاعت افتادن؟

(صائب تبریزی)
خشک درخت بہاروں کی سعی سے میوہ دار نہیں ہو جاتا؛ (لہٰذا) کہن سالی میں طاعت کی فکر میں پڑنے سے کیا حاصل؟

نیندازد زوال از حالِ خود خورشیدِ تابان را
چه نقصان پاک‌گوهر را ز اوجِ عزت افتادن؟

(صائب تبریزی)
خورشیدِ تاباں کو زوال اپنے حال سے پست نہیں کر دیتا؛ (لہٰذا) پاک فطرت شخص کو اوجِ عزت سے گرنے سے کیا نقصان؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گاہے کہ سنگِ حادثہ از آسماں رَسَد
اوّل بلا بہ مرغِ بلند آشیاں رَسَد


ابو طالب کلیم کاشانی

جب کبھی بھی حادثے اور مصیبت کا پتھر آسمان سے برستا ہے تو سب سے پہلی افتاد بلند و بالا آشیانے والے پرندے پر پڑتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه من خود ز عدم دل‌خوش و خندان زادم
عشق آموخت مرا شکلِ دگر خندیدن

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اگرچہ میں خود عدم سے دل خوش و خنداں وجود میں آیا تھا (لیکن) عشق نے مجھے ایک دوسری طرح ہنسنا سکھا دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوش بوَد فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن
حیف کافر مُردن و آوخ مسلماں زیستن


مرزا غالب دہلوی

کفر اور ایمان کی قیدوں اور بندشوں سے آزاد زندگی بہت اچھی خوش گزرتی ہے لہذا افسوس کفر کی موت مرنے پر اور وائے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے پر۔
 

حسان خان

لائبریرین
در بزمِ جهان جز دل حسرت‌کشِ ما نیست
آن شمع که می‌سوزد و پروانه ندارد
(حسین پژمان بختیاری)

بزمِ جہاں میں ہمارے دلِ حسرت کَش کے سوا ایسی کوئی شمع نہیں ہے کہ جو جلتی تو ہو لیکن پروانہ نہ رکھتی ہو۔

اشکی که ترا بر گلِ رخسار دویده
بارانِ بهار است که بر لاله چکیده
(عبدالرحمٰن جامی)

وہ اشک کہ جو تمہارے گلِ رخسار پر دوڑا ہے وہ (در حقیقت) بارانِ بہار ہے کہ جو لالہ پر ٹپکا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دودِ غمِ محنت نکند تیره دلم را
این آیینه آن نیست که او قابلِ زنگ است

(نقیب خان طغرل احراری)
رنج و بلا کے غم کا دھواں میرے دل کو تاریک نہیں کرتا؛ یہ آئینہ وہ نہیں ہے کہ جو قابلِ زنگ ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جوقِ قلندرانیم، در ما ریا نباشد
تزویر و زرق و سالوس آئینِ ما نباشد


عبید زاکانی

ہم قلندروں کے گروہ میں سے ہیں، ہم میں ریاکاری نہیں ہوتی اور مکر و فریب و نفاق و دروغ و دو رنگی و چرب زبانی ہماری سرشت اور ہمارے آئین میں نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
این قدر هست تفاوت ز مسیحا و صنم
او به قم زنده کند یار به دشنامی چند
(نورالعین واقف لاهوری)

مسیحا اور صنم میں اِس قدر فرق ہے کہ وہ 'قم' سے زندہ کرتا ہے اور یار چند گالیوں سے۔

ز اشکِ من چه می‌دانی گرانی‌های دردم را؟
ز طوفان شبنمی دیدی، ز دریا گوهری دیدی
(سیمین بهبهانی)

میرے اشک سے تم میرے درد کی سختیوں کو کیا جانو گے؟ (یہ تو ایسا ہی ہے کہ گویا) تم نے طوفان سے ایک شبنم دیکھی، اور دریا سے ایک گوہر دیکھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مگر، ای بهتر از جان! امشب از من بهتری دیدی
که رخ تابیدی و در من به چشمِ دیگری دیدی؟
(سیمین بهبهانی)

اے جان سے بہتر! کیا آج شب تم نے کوئی مجھ سے بہتر دیکھ لیا ہے جو تم نے رخ پھیر لیا اور مجھے ایک دوسری نظر سے دیکھا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ازیں چہ باک کہ رسمِ وفا نمی دانی
بلاست ایں کہ طریقِ جفا نمی دانی


مُلّا نورالدین ظہوری ترشیزی

اِس بات کا کیا ڈر خوف کہ تُو رسمِ وفا نہیں جانتا، اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تُو جفا کرنے کے طور طریقے بھی نہیں جانتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مبادا رو کسی زان قبلهٔ ابرو بگرداند
که کافر می‌شود از کعبه هر کس رو بگرداند
(حزین لاهیجی)

کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اُس قبلۂ ابرو سے رخ موڑ لے؛ کہ جو شخص بھی کعبے سے رخ موڑتا ہے کافر ہو جاتا ہے۔

بلندیت باید، تواضع گزین
که آن بام را نیست سُلّم جز این
(سعدی شیرازی)

اگر تمہیں بلندی کی ضرورت ہے تو تواضع و فروتنی اختیار کرو کہ اُس بام کا اِس کے بجز کوئی زینہ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از خیالِ قامتش اکنون عصا می‌بایدم
بارِ سنگینِ فراقش کرده خم دوشِ مرا
(نقیب خان طغرل احراری)

مجھے اب اُس کی قامت کے خیال سے (ساختہ) عصا درکار ہے۔۔۔ (کہ) اُس کے فراق کے سنگین بار نے میرے شانوں کو خم کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گیسوی تو مدِ الفِ آیتِ خوبی
ابروی تو بسم اللهِ دیوانِ تغافل

(بیدل دهلوی)
تمہارا گیسو آیتِ خوبی کے الف کا مد ہے، جبکہ تمہارا ابرو دیوانِ تغافل کی بسم اللہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من نمی گویم کہ مجنوں باش و در صحرا نشیں
شہر ہم بد نیست لیکن فارغ از دنیا نشیں


واقف لاہوری

میں یہ نہیں کہتا کہ مجنوں بن جا اور صحرا نشیں ہو جا، شہر بھی برا نہیں ہے لیکن اِس میں دنیا اور دنیا داری سے فارغ ہو کر بیٹھ۔
 

حسان خان

لائبریرین
مشتِ خاکِ ما سراپا فرشِ تسلیم است و بس
سجدهٔ ما را جبینی و سری درکار نیست

(بیدل دهلوی)
ہماری مشتِ خاک سراپا فرشِ تسلیم ہے اور بس۔۔۔ ہمارے سجدے کو کوئی جبین اور کوئی سر درکار نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دریں بساط بوَد بے سبب حریفاں را
بسانِ مہرۂ شطرنج، خانہ جنگی ہا


غنیمت کنجاہی

اِس دنیا کی بساط پر حریفوں کے درمیان خانہ جنگیاں، شطرنج کے مہروں کے طرح، بے سبب اور بے وجہ ہی ہوتی ہیں۔ (دوسرے مصرعے میں بسان کی جگہ برنگ میں ملتا ہے)۔
 
Top