کشید از دامنِ معشوق دست از بیمِ رسوایی
همین تقصیر بس تا دامنِ محشر زلیخا را
(صائب تبریزی)
زلیخا کے (نامۂ اعمال میں) قیامِ روزِ محشر تک یہی جرم کافی ہے کہ اُس نے رسوائی کے خوف سے معشوق کے دامن سے (اپنا) ہاتھ کھینچ لیا۔
آهِ بیتاثیرِ ما را کم مگیر
هر کجا دودیست، آتش در قفاست
(بیدل دهلوی)
ہماری بے تاثیر آہ کو حقیر مت شمار کرو؛ جہاں بھی کوئی دھواں ہو، (وہاں) عقب میں آتش ہوتی ہے۔