واہ کتنا بلند چھا گے ہیںغلامی
آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد
یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
(اقبال لاہوری، پیامِ مشرق)
آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (سے بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔
یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہوتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
بہت خوشی ہوئی فاتح صاحب آپ کو دوبارہ محفل پر اور ادھر اس تھریڈ پر دیکھ کر۔ ایک شعر آپ کی نذر
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شود اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
(امیر خسرو دہلوی)
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
اگر کلام نه از آسمان فرود آید
چرا به هر سخنی خامه در سجود آید
(صائب تبریزی)
اگر کلام آسمان سے نازل نہیں ہوتا تو پھر ہر سخن کو لکھتے وقت قلم سجدے کی حالت میں کیوں آتا ہے؟