حسان خان

لائبریرین
در کتابِ غم ورق‌گردانیِ ایام نیست
کَی رسد در خاطرِ مجنون غمِ شام و سحر
(نقیب خان طغرل احراری)

کتابِ غم میں ایام کی ورق گردانی نہیں ہے؛ مجنون کے ذہن میں کب شام و سحر کا غم آتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
عاشق آن باشد، که هر سو دیدهٔ خود وا کند
صورتِ یارش بوَد چون مردُمک مدِ نظر
(نقیب خان طغرل احراری)

عاشق وہ ہے کہ جس جانب بھی اپنا دیدہ وا کرے، یار کی صورت پُتلی کی طرح اُس کے مدِ نظر ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست در جوشِ تلاطم ناخدا غیر از خدا
کشتیِ ما گر فتد صد بار در موجِ خطر
(نقیب خان طغرل احراری)

اگر ہماری کشتی صد بار بھی موجِ خطر میں گر جائے، (تب بھی) جوشِ تلاطم میں خدا کے سوا (ہمارا کوئی) ناخدا نہیں ہے۔
× ناخدا = کشتی کا ملّاح
 

حسان خان

لائبریرین
بسکه دارد گوشِ او با نالهٔ من الفتی
هر قدر کم باشد افغانم، جفایش بیش‌تر
(نقیب خان طغرل احراری)

چونکہ اُس کا گوش (کان) میرے نالے کے ساتھ ایک الفت رکھتا ہے [لہٰذا] جس قدر میری فغاں کم ہوتی ہے، اُس کی جفا بیشتر ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر بوَد عالم پر از افسانهٔ عشقم، ولی
شمّه‌ای واقف نشد یک آدم از رازم هنوز
(نقیب خان طغرل احراری)

اگرچہ عالَم میرے افسانۂ عشق سے پُر ہے، لیکن ہنوز کوئی انسان میرے راز سے ذرا بھی واقف نہ ہوا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آه، از آن روزی، که گردیدم من از وصلِ تو دور
هوشم از سر رفت و طاقت از دل و از دیده نور
(نقیب خان طغرل احراری)

آہ! جس روز سے میں تمہارے وصل سے دور ہوا، میرے سر سے ہوش، دل سے طاقت، اور دیدے سے نور چلا گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به میانِ دل خیالِ مهِ دل‌گشا درآمد
چو نه راه بود و نی در، عجب! از کجا درآمد
(مولانا جلال‌الدین رومی)

دل کے درمیان [اُس] ماہِ دل کشا کا خیال اندر آ گیا؛ جب نہ راہ تھی اور نہ در تھا تو تعجب ہے کہ وہ کہاں سے اندر آ گیا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بسکه از سر تا به پای او لطافت می‌چکد
وصفِ او سازی، دهانت گردد از گفتار تر
(نقیب خان طغرل احراری)

اُس کے سر سے پا تک اِتنی زیادہ لطافت ٹپکتی ہے کہ (اگر) تم اُس کا وصف بیان کرو تو تمہارا دہن گفتار سے تر ہو جائے۔
واہ کیا ہی خوبصورت بات کی ہے " تمہارا دہن گفتار سے تر ہو جائے "
فارسی تخیل میں اردو سے کہیں آگے ہے ۔
 
همه عیبِ خلق دیدن نه مروتست و مردی
نگهی به خویشتن کن که تو هم گناه داری
(سعدیِ شیرازی)

سارے عیبِ مردم پر نگاہ ڈالنا نہ مروت ہے نہ مردانگی
ایک نگاہ اپنے پر بھی ڈال کہ تو بھی گناہ رکھتا ہے۔

انتخاب: بہروز سلیمی
در گروپ: Забони порсӣ در فیسبک
 

محمد وارث

لائبریرین
اماں خواہ از گزندِ خلق در گرم اختلاطی ہا
کہ عقرب بیشتر در فصلِ تابستاں شود پیدا


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ ملنے جلنے اور گرم جوشی میں اُن سے ڈسے جانے سے امان طلب کر، کیونکہ زیادہ تر بچھو گرمیوں کے موسم میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به شغلِ انتظارِ مه‌وشان در خلوتِ شب‌ها
سرِ تارِ نظر شد رشتهٔ تسبیحِ کوکب‌ها
(غالب دهلوی)

لغت:- "مہوشاں" چاند جیسے، مراد معشوق
"کوکب ہا" ۔ ستارے ۔
ترجمہ: راتوں کی تنہائیوں میں، معشوقوں کے انتظار میں مشغول ہونے سے ہمارا تارِ نظر، ستاروں کی تسبیح کا دھاگا بن گیا ہے۔
حل: عشاق کا انتظار کی راتوں کو تارے گن کر گذارنا معروف ہے۔ یہاں اسی خیال کو ایک بلیغ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ عاشق کی نظر کا مسلسل ایک ستارے سے اُٹھ کر دوسرے ستارے پر پڑنا، ایسا ہے کہ ستارے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں منسلک ہو رہے ہیں۔ (اس اعتبار سے) مہوشاں کا لفظ یہاں نہایت موزوں ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

پس نوشت: دیوانِ غالب کے نسخۂ حمیدیہ میں موجود ایک غیرمطبوعہ اردو غزل میں بھی یہی شعر موجود ہے:
بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاں در خلوتِ شب ہا
سرِ تارِ نظر ہے رشتۂ تسبیحِ کوکب ہا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عاقبت ابروی تو تاراجِ ایمان کرد و رفت
چشمِ مخمورت ز مستی غارتِ جان کرد و رفت
کعبهٔ دل را رُخت بگداخت، ویران کرد و رفت
شربتِ لعلت خلل در شَکّرستان کرد و رفت
عکسِ رخسارِ تو صد آیینه حیران کرد و رفت
(نقیب خان طغرل احراری)

آخرکار تمہارے ابرو نے ایمان کو تاراج کیا اور چلا گیا؛ تمہاری چشمِ مخمور نے مستی سے جان کو غارت کیا اور چلی گئی؛ تمہارے رُخ نے کعبۂ دل کو پگھلایا، ویران کیا اور چلا گیا؛ تمہارے لعلِ لب کے شربت نے شَکرستان میں خلل کیا اور چلا گیا؛ تمہارے رخسار کے عکس نے صد آئینوں کو حیران کیا اور چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر کجا جِنسِ قُماشِ حُسنِ او آید به عرض
از هجومِ خلق عالَم زیرِ پا خواهد شدن
(نقیب خان طغرل احراری)

جس جا بھی اُس کے پارچۂ حُسن کی متاع [فروخت کے برائے] پیش ہو، وہاں ہجومِ خلق سے عالَم پامال ہو جائے گا۔
× پارچہ = کپڑا
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بغیرِ ظلم توقّع مدار از ظالم
کہ نخلِ شعلہ اگر بار می دہد شرر است


شیخ حسین شہرت شیرازی

ظالم سے ظلم کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع مت رکھ کیونکہ شعلوں کا درخت اگر پھل بھی دے گا تو وہ شرارہ ہی ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر نوبتم که در نظر ای ماه بگذری
بارِ دوم ز بارِ نخستین نکوتری

(سعدی شیرازی)
اے ماہ! ہر دفعہ کہ تم میری نظر میں گذرتے ہو، دُوُم بار اوّل بار سے (زیادہ) خوب تر ہوتے ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جب شاہِ سمنگان کی دختر تمہینہ کی رستم سے ملاقات ہوئی تھی تو اُس نے رستم کو مخاطَب کر کے جو باتیں کہی تھیں، اُن میں سے ایک اقتباس ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
"به کردارِ افسانه از هر کسی
شنیدم همی داستانت بسی
که از دیو و شیر و پلنگ و نهنگ
نترسی و هستی چنین تیزچنگ
شبِ تیره تنها به توران شوی
بگردی در آن مرز و هم نغْنوی
به تنها یکی گور بریان کنی
هوا را به شمشیر گریان کنی
بدرّد دلِ شیر و چرمِ پلنگ
هر آن گه که گُرزِ تو بیند به جنگ
برهنه چو تیغِ تو بیند عُقاب
نیارد به نخچیر کردن شتاب
نشانِ کمندِ تو دارد هِزَبْر
ز بیمِ سنانِ تو خون بارد ابر
چنین داستان‌ها شنیدم ز تو
بسی لب به دندان گَزیدم ز تو"
(فردوسی طوسی)

"میں افسانے کی طرح ہر کسی سے تمہاری بسیار داستانیں سنتی تھی، کہ تم دیو، شیر، پلنگ اور نہنگ سے نہیں ڈرتے اور ایسے تیزپنجہ ہو۔ تاریک شب میں تنہا تُوران چلے جاتے ہو اور اُس اقلیم میں گھومتے ہو اور آرام بھی نہیں کرتے۔ تنہا ہی ایک گورخر بریاں کر لیتے ہو اور ہوا کو شمشیر سے گریاں کر دیتے ہو۔ شیر کا دل اور پلنگ کا چرم جب بھی جنگ میں تمہارا گُرز دیکھیں، پارہ پارہ ہو جائیں۔ عُقاب جب تمہاری تیغ کو برہنہ دیکھ لے تو اُسے جلدی شکار کرنے کا یارا نہ رہے۔ شیر پر تمہارے کمند کا نشان ہے، جبکہ تمہارے نیزے کے خوف سے ابر خون برساتا ہے۔ میں نے تمہارے بارے میں ایسی داستانیں سنی ہیں، اور تمہارے باعث (تعجب میں) بارہا لب کو دانتوں سے کاٹا ہے۔"

× پلنگ = تیندوا
× گورخر = زیبرا
× چَرْم = حیوانی کھال، چمڑا، چمڑی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر همه عالَم ز لوحِ فکر بشویند
عشق نخواهد شدن که نقشِ نگین است
(سعدی شیرازی)

[لوگ] خواہ [اپنی] لوحِ فکر سے تمام عالَم دھو ڈالیں [تب بھی] عشق نہیں جائے گا کہ [یہ] نقشِ نگیں ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تا آینہ رفتم کہ بگیرم خبر از خویش
دیدم کہ در آن آینہ ہم جز تو کسی نیست

ہوشنگ ابتہاج
میں آئینےکہ پاس گیا کہ اپنے آپ کی خبر لوں ۔
تو دیکھا کہ آئینے میں بھی تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بے پرده عیب ہائے خود اظہار میکنیم
فرصت بہ عیب جوئیِ یاران نمیدہیم

صائب۔
اپنے عیوب خود ہی کیے ہم نےآشکار
یاروں کو عیب جوئی کا موقع نہیں دیا
منظوم ترجمہ۔
 
Top