حسان خان

لائبریرین
کارِ آسان نبُوَد معنیِ رنگین بستن
نثر تا نظم شود، آب گُهر می‌گردد
(شوکت بخاری)
معنیِ رنگیں باندھنا آسان کام نہیں ہے؛ نثر جب تک نظم بنتی ہے، آب گوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
× مصرعِ اول میں 'معنیِ رنگین' کی بجائے 'معنیِ روشن' بھی نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نِهالم خورده آب از جُویِ طبعِ خویشتن شوکت
بهاری می‌چکد گر افشُری برگِ خزانم را

(شوکت بخاری)
اے شوکت! میرے نِہال نے اپنی طبع کی نہر سے آب پیا ہے۔۔۔ اگر تم میرے برگِ خزاں کو نچوڑو تو [اُس سے] ایک بہار ٹپکے گی۔
× نِہال = پودا
 

حسان خان

لائبریرین
تنم را بسکه ضُعفِ تیره‌بختی ناتوان دارد
کند چشمِ هُما مِژگان تصوُّر اُستُخوانم را
(شوکت بخاری)

سیاہ بختی کی کمزوری نے میرے تن کو اِتنا زیادہ ناتواں کر رکھا ہے کہ ہُما کی چشم میرے اُستُخوانوں کو مِژگاں تصور کرتی ہے۔
× اُستُخواں = ہڈّی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مانی چو نقشِ آن صنمِ مست می‌کَشَد
چون می‌رَسَد به ساعِدِ او دست می‌کَشَد
(شوکت بخاری)

مانی جب اُس صنمِ مست کا نقش کھینچتا ہے
جب اُس کے بازو پر پہنچتا ہے، دست کھینچ لیتا ہے

× مانی = ایک مشہور نقّاش کا نام
× 'دست می‌کَشَد' کا لفظی ترجمہ 'دست [کا نقش] کھینچ دیتا ہے' بھی ہو سکتا ہے، جس سے شعر میں ایہام پیدا ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز رُویش پرده‌هایِ دیده شد از بس که نورانی
نگاه از مشرقِ چشمم بُرون چون آفتاب آید
(شوکت بخاری)
اُس کے چہرے سے [میری] چشم کے پردے اِتنے زیادہ نورانی ہو گئے کہ نگاہ میرے مشرقِ چشم سے آفتاب کی طرح بیرون آتی ہے۔
تشریح: 'مشرق' خورشید کے طلوع کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ شاعر نے مصرعِ ثانی میں اپنی چشم کو 'مشرق' یعنی خورشید کے طلوع ہونے کی جگہ سے، جبکہ اپنی نگاہ کو آفتاب سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ محبوب کے پُرنور و تابناک چہرے کی دید سے میری چشم کے پردے بھی اِتنے زیادہ نورانی ہو گئے ہیں کہ میری چشم سے نگاہ ایسے بیرون آتی ہے، جیسے مشرق سے خورشید طلوع ہو رہا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
غریقِ بحرِ وحدت جِلوهٔ کثرت نمی‌بیند
ز زیرِ آب نتْوان دید موجِ آبِ دریا را
(شوکت بخاری)

جو شخص بحرِ وحدت میں غرق ہو، وہ جلوۂ کثرت نہیں دیکھتا؛ آب کے زیر سے آبِ بحر کی امواج کو نہیں دیکھا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر ز حالِ من آن شوخ را خبر باشد
بِسوزد ار دلش از سنگ سخت‌تر باشد
(امیر خسرو دهلوی)

اگر اُس شوخ کو میرے حال کی خبر ہو تو خواہ اُس کا دل سنگ سے زیادہ سخت ہو، [تو بھی] اُس میں رحم آ جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ جہلِ خویش بکن اعتراف و دانا باش
کہ افتخار بہ دانش دلیلِ نادانیست


واعظ قزوینی

اپنے نہ جاننے کا اعتراف کر اور عقلمند و دانا بن جا، کہ اپنی دانش پر فخر کرنا اور اُس کی ڈینگیں مارنا نادانی اور جہالت کی دلیل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسته مانی خامه از مژگانِ آهویِ خیال
تا کَشَد تصویرِ شوخت از غزالان شوخ‌تر
(شوکت بخاری)

مانی نے [اپنے] خامے کو آہُوئے خیال کی مِژگاں سے ترتیب دیا ہے، تاکہ وہ تمہاری تصویرِ شوخ کو غزالوں سے زیادہ شوخ کھینچ سکے۔
× مانی = ایک مشہور نقّاش کا نام

× ایک نسخے میں مصرعِ ثانی میں 'تصویرِ شوخت' کی بجائے 'تصویرِ شوخش' نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زُهددن قان قورویوبدور باغرېم ایچره لاله تک
تازه قېل اسکی مَی ایلن بو قورولموش کؤنلۆمۆ
(صائب تبریزی)
زُہد سے میرے جگر میں لالہ کی مانند خون خشک ہو گیا ہے (یعنی جس طرح گُلِ لالہ کے دل میں داغ ہوتا ہے، اُسی طرح میرے جگر میں خون خشک ہو کر سیاہ ہو گیا ہے)؛ [اے ساقی!] شرابِ کُہنہ سے میرے اِس خشکیدہ دل کو تازہ کر دو۔

Zöhddǝn qan quruyubdur bağrım içrǝ lalǝ tǝk
Tazǝ qıl ǝski mey ilǝn bu qurulmuş könlümü
حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
خون به سینه همچو لاله خشک گردیده ز زُهد
تازه با جامِ کهن کن این دلِ بِریانِ من

زُہد سے [میرے] سینے میں خون لالہ کی مانند خشک ہو گیا ہے؛ [اے ساقی!] میرے اِس دلِ بِریاں کو جامِ کُہن سے تازہ کر دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
حاذقِ نبضِ سخن در همهٔ عالَم نیست
به جز از صائب و تأثیر که از تبریزند
(تأثیر تبریزی)

صائب و تأثیر کے سوا، کہ جو تبریز سے ہیں، تمام عالَم میں سُخن کی نبض [جاننے والا] ماہر و استاد کوئی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر وصلش میسّر نیست ما را
بِحمدالله که هجرانش نصیب است
(شوقی قزوینی)

اگر ہمیں اُس کا وصل میسّر نہیں ہے، تو الحمدللہ کہ اُس کا فراق نصیب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خواست تا روشن کند شوکت چراغِ طبع را
روغنِ معنی ز خاکِ طالبِ آمُل کشید
(شوکت بخاری)

شوکت نے جب [اپنی] طبع کے چراغ کو روشن کرنا چاہا تو اُس نے طالب آمُلی کی خاک سے روغنِ معنی کشید کیا۔

× ایک نسخے میں 'چراغِ طبع را' کی بجائے 'چراغِ شاعری' نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از بهرِ قطع کردن نخلِ حیاتِ تو
چون ارّهٔ دو سر، نَفَس اندر کشاکش است
(شوکت بخاری)

تمہارے نخلِ حیات کو قطع کرنے کے لیے [تمہاری] سانس دو دھاری آری کی طرح کشاکش میں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیست بر لوحِ دلم جز الفِ قامتِ دوست
چہ کنم حرفِ دگر یاد نداد اُستادم


حافظ شیرازی

میرے دل کی لوح پر، دوست کی (راست) قامت کے الف کے سوا کچھ بھی (ثبت) نہیں، میں کیا کروں کہ میرے اُستاد نے مجھے اور کوئی دوسرا حرف یاد ہی نہیں کرایا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشقم چنان گُداخت که مورانِ تُربتم
عُضوی نیافتند که ناخن فرو کنند

(شانی تکلّو)
عشق نے مجھے اِس طرح پگھلا دیا کہ میری قبر کی چیونٹیوں کو کوئی ایسا عُضو نہ مل سکا کہ جس میں میں وہ ناخن گُھسا سکیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خیالش برنمی‌تابد شعور، ای بی‌خودی! جوشی
نمی‌گنجد به دیدن جلوه‌اش، ای حیرت! آغوشی
(بیدل دهلوی)

شعور اُس کے خیال کو تحمّل نہیں کر پاتا، اے بے خودی! ذرا جوش [دکھاؤ]۔۔۔ اُس کا جلوہ دید میں نہیں سماتا، اے حیرت! کوئی آغوش [وا کرو]۔
 

شفاعت شاہ

محفلین
با خدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار
یا رسول اللہ! او پنہان و تو پیدای من

میں خدا سے تو چھپ چھپ کے عرض کرتا ہوں، مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلام سے کھلم کھلا کرتا ہوں (کیونکہ) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم! اللہ تو مجھ سے پنہاں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم ظاہر ہیں۔

علامہ اقبال (پیام مشرق سے انتخاب)
 

حسان خان

لائبریرین
ز سایهٔ مِژهٔ چشمِ مور بست قلم
چو می‌کشید مصوِّر دهانِ تنگِ تو را
(شوکت بخاری)

جب مصوِّر تمہارے دہنِ تنگ [کی تصویر] کھینچ رہا تھا تو [اِس چیز کے لیے] اُس نے چیونٹی کی چشم کی مِژہ کے سائے سے قلم ترتیب دیا تھا۔
× مِژہ = پلک
 

حسان خان

لائبریرین
وزیرِ خُراسان میرزا سعدالدین محمد کی مدح میں کہے گئے قصیدے میں شوکت بخاری کہتے ہیں:
چُغدِ بی‌پر بودم این دَیرِ خراب‌آباد را

از دو دستِ تربیت دادی مرا بالِ هُما
(شوکت بخاری)
میں اِس دَیرِ خراب آباد (یعنی دنیائے ویراں) کا بے پر اُلّو تھا؛ آپ نے [اپنے] دو دستِ تربیت سے مجھے ہُما کے بال و پر دے دیے۔
 
Top