اس کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار ۔۔۔
شمشاد بھائی ۔۔۔ میں تو یہ سوچ کر وہ بتیسی لے اُڑا تھا کہ اس پرانی بتیسی کے بدلے محب کو ایک نئی بتیسی دلوادوں کہ وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے حاجی امام دین کی بتیسی استعال کر رہے تھے اور وہ بتیسی بھی حکیم صاحب کو اپنے دادا سے وصیت میں ملی تھی اور اُس بتیسی میں 31 دانت ویسے بھی کم تھے ۔ اُس بتیسی کو استعمال کرنے سے محب کا منہ اور منہ کے گرد کا محل وقوع ایسے لگتا تھا کہ جیسے مٹی کے ٹیلے پر بارش کی وجہ سے دراڑیں پڑ گئیں ہوں ۔
تو پھر میں نے سوچا کہ ایک دوست ہونے کے ناطے کیوں نہ ایک نئی بتیسی خرید لی جائے مگر محب تھے کہ بس ۔۔۔ بضد تھے کہ وہ یہ بتیسی نہیں چھوڑیں گے ۔ کہنے لگے میری منہ دکھائی بھی اسی بتیسی میں ہوئی تھی ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ۔ دلیے کے علاوہ تو کچھ کھا نہیں سکتے تھے ۔ کبھی کچھ اور خوراک کھانے کی کوشش بھی کی تو وہ منہ سے اس طرح باہر آجاتا تھا جیسے ندی نالوں سے بارش کا پانی ۔
اُس بتیسی میں بات تک تو ہوتی نہیں تھی ، اگر کسی کو “سلام “ کہہ بھی دیا تو پھر بتیسی اُنکے منہ سے ایسے فائر ہوجاتی تھی کہ سامنے والے کے شہید ہونے کے 99 فی صد امکانات روشن ہوجاتے تھے ۔ جب بھی اُس بتیسی کے ساتھ کلام کیا تو منہ سے موسم کی پہلی بارش کا سا سماں بندھ جاتا تھا اور سامنے والے کو چھتری کا سہارا لینا پڑتا تھا۔
بات کرنے سے پہلے اس ایک دانت کی نایاب بتیسی کی وجہ سے وہ کافی دیر تو منہ میں باتیں جمع کرتے تھے اور بات کہنے سے پہلے اُن کے منہ سے ایسی آوازیں خارج ہوتیں تھیں کہ لگتا تھا کہ 1922 کا کوئی پُرانا ریلوے کا انجن اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ سالگرہ پر اپنے منہ سے پہلے ہی سے برآمد ہونے والی پھونکوں کی وجہ سے کیک پر موم بتیاں جلانے سے بُجھا دیتے تھے ۔ اب میں یہاں کیا کیا بتاؤں ۔
بس اس لیئے وہ بتیسی لے اُڑا کہ اُس کا ہونا نہ ہونا ایک ہی بات تھی اور اُس کا نہ ہونے کا بے شک اُن کو نقصان ہوا ہوگا مگر کتنے اب سکون کا سانس لے رہے ہوں گے ۔